معاشرہ مادّی اعتبار سے جتنی بھی ترقی کرلے، عمومی اخلاقی اقدار وہی رہتی ہیں۔ صدیوں پرانی رسوم کسی نہ کسی شکل میں نہ صرف یہ کہ زندہ رہتی ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانا تر ہوتی جاتی ہیں۔ توہمات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ انسان چاہے جتنا پڑھ لکھ لے، ذہن کی تنگی دور ہونے کا نام نہیں لیتی۔ دنیا بھر میں انتہائی تعلیم یافتہ اور بظاہر لبرل کہلانے والے افراد بھی توہمات کے اسیر پائے گئے ہیں۔ امریکا اور یورپ کو ہر معاملے میں جدت کی علامت گردانا جاتا ہے۔ غیر معمولی، بلکہ مثالی جدت کے باوجود آج بھی امریکا اور یورپ میں 13 کا عدد منحوس سمجھا جاتا ہے۔ عقائد آج بھی کمزوریوں سے عبارت ہیں۔ کم ہی ایسے ہیں جو پوری استقامت کے ساتھ غیر جانب دار اور مکمل حقیقت پسندانہ سوچ اپناتے اور اپنے آپ کو ہر اعتبار سے متوازن و مستحکم رکھتے ہیں۔
توہمات کی طرح تن آسانی اور لالچ پر مبنی سوچ بھی ہر دور میں انسانی سرشت کا حصہ رہا ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں ہمیں لالچ انتہائی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں رات کو سوئیں تو خواب میں دنیا بھر کی نعمتیں پائیں اور آنکھ کھلے تو خواب شرمندۂ تعبیر ہوچکا ہو! چلیے، پس ماندہ و افلاس زدہ معاشروں کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں بہتر زندگی کے لیے درکار سہولتیں تقریباً تمام ہی شہریوں کو میسر ہیں مگر وہاں بھی لوگ لالچ کی سطح سے بلند نہیں ہوسکے ہیں۔ آج بھی امریکا اور یورپ میں لاٹری بہت مقبول ہے یعنی لوگ راتوں رات، اضافی محنت کیے بغیر، اور بہت کچھ چاہتے ہیں۔
اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں توانا یا کمزور کسی بھی نوعیت کا عقیدہ کارفرما نہیں ہوتا اور تقدیر جاگ اٹھتی ہے۔ ایج واٹر، نیو جرزی کی اوکسانا زہاروف کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس نے ایک ماہ قبل مینہیٹن (نیو یارک) میں شاپنگ کی۔ جب شاپنگ مکمل ہوچکی تو اوکسانا نے کیشیئر سے ایک ڈالر مالیت کا لاٹری ٹکٹ مانگا۔ لاٹری ٹکٹ خریدنا اُس کے لیے لاشعوری کا عمل رہا ہے۔ کبھی کوئی انعام نہیںنکلا تھا مگر پھر بھی وہ لاٹری کے ٹکٹ خریدی رہی تھی۔ کلرک نے غلطی سے دس ڈالر کا ٹکٹ دے دیا۔ اوکسانا نے سوچا چلو کوئی بات نہیں، یہی لے لو۔ کچھ سوچے سمجھے بغیر اُس نے دس ڈالر ادا کیے اور ٹکٹ پرس میں ڈال لیا۔
اور پھر اوکسانا کا جیک پاٹ لگ گیا۔ دس ڈالر کا جو لاٹری ٹکٹ اس نے خریدا تھا اُس پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام نکل آیا۔ یہ رقم 20 سال کی مدت میں ملے گی۔ اس کے علاوہ اوکسانا کو عمر بھر ہر سال 172068 ڈالر بھی ملتے رہیں گے۔
لاٹری ٹکٹ خریدنا اوکسانا کی عادات کا حصہ تھا یعنی بنیادی سوچ یہ تھی کہ ٹکٹ لے لو، کبھی نہ کبھی تو انعام لگ ہی جائے گا۔ اُسے اپنے تقدیر پر زیادہ بھروسہ نہ تھا (مگر خیر، دل کے کسی کونے میں امید کا دِیا ضرور ٹمٹماتھا تھا) اس لیے اُس نے لاٹری ٹکٹ پر زیادہ توجہ نہ دی اور اسکریچ کرنے سے پہلے اُسے دو ہفتوں تک بُک مارک کی حیثیت سے استعمال کیا۔ اور پھر جب اُس نے ٹکٹ کو اسکریچ کیا تو عملاً اپنی تمام مشکلات اور پریشانیوں کو بھی کھرچ کر پھینک دیا! اوکسانا زہاروف دو بچوں کی ماں ہے۔ وہ اب بچوں کو لے کر بہاماس میں تعطیلات گزارے گی اور ان کی اعلٰی تعلیم پر غیر معمولی خرچ کرے گی۔
لاٹری چلانے والے ادارے انسان کی سرشت میں پائے جانے والے لالچ اور خوش اُمیدی ہی کو تو کیش کراتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ باصلاحیت اور محنت کا عادی ہونے پر بھی ہر انسان چاہتا ہے کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ حاصل کرلے۔ کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانا انسانی فطرت کا ایک لازمی سا جُز ہے۔ انسانی سرشت و مزاج کی اِس بنیادی کمزوری کا فائدہ تجارتی ادارے خوب اٹھاتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِنسان لالچ کے ہاتھوں مجبور ہوکر بہت کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے۔
ہمارے خطے میں بھی لاٹری کا چلن عام ہے۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک میں کروڑوں افراد لاٹری کے ٹکٹ باقاعدگی سے خریدتے ہیں، صرف اِس امید پر کہ کبھی تو قسمت کھلے گی! یہ سب کچھ وہ ایسی باقاعدگی سے کرتے ہیں کہ اب معاملہ غیر محسوس سا ہوکر رہ گیا ہے۔ بھارت کی تقریباً ہر ریاست میں لاٹری کا دھندا سال بھر انتہائی جوش و خروش سے جاری رہتا ہے۔ کروڑوں افراد ہر ماہ گھر کے سَودے یعنی دال، چاول، تیل، گھی، شکر وغیرہ کے ساتھ لاٹری کے ٹکٹ بھی خریدتے ہیں۔ اور پھر لاٹری کھلنے کی تاریخ تک سہانے سپنے دیکھتے رہتے ہیں۔
لاٹری چلانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاٹری کا ٹکٹ خریدنے والے random کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی انعام لگ گیا تو ٹھیک ورنہ اللہ کو یہی منظور کرنا تھا! معاملہ جوئے کا ہے یعنی انعام نہ لگا تو پیسے گئے۔ مگر جب لالچ ذہن پر سوار ہو تو انسان کو حرام و حلال کا فرق کہاں سُوجھتا ہے؟ دل صرف ایک خواہش کی تکمیل چاہتا ہے ... یہ کہ زیادہ کچھ کیے بغیر بہت کچھ حاصل ہو جائے۔ کسی بھی لاٹری میں ٹکٹ خریدنے والے ہزاروں، بلکہ لاکھوں ہوتے ہیں اور جیتنے والے محض اِتنے کہ انگلیوں پر گِنے جاسکیں مگر پھر بھی قسمت آزمانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اب جس کا انعام لگ گیا وہ مقدر کا سکندر ... اور باقی؟ اُن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ؎
کچھ اِس ادا سے یار نے پوچھا مِرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا!
لوگ انعام لگنے کی امید پر لاکھوں روپے پرائز بونڈز میں بھی پھنسائے رکھتے ہیں۔ جس رقم سے چھوٹا موٹا کاروبار کرکے حلال آمدن کا بندوبست کیا جاسکتا ہے اُسی رقم کو سراسر حرام طریقے سے بروئے کار لاکر اللہ کی ناراضی مول لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا!
کہتے ہیں امید پہ دنیا قائم ہے۔ یہ امید کچھ اور ہے۔ یعنی محنت کیجیے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ اپنے حصے کا کام کرنے کے بعد اللہ سے خیر کی امید وابستہ کرنا برکت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ شخصی ارتقاء اور کامیابی و شادمانی سے متعلق موضوعات پر زندگی بھر اپنے رشحاتِ قلم سے دنیا کو نوازنے والے نپولیم ہل نے کہا تھا ''میں نے بہت چھوٹی عمر میں یہ بات سمجھ لی تھی کہ لاٹری کا ٹکٹ خریدنا جوُا کھیلنے سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں اس لیے طے کرلیا تھا کہ زندگی بھر صرف محنت کروں گا، کسی انعامی اسکیم کا ٹکٹ نہیں خریدوں گا۔‘‘
اِسے کہتے ہیں محنت کرنا اور نتائج کے بارے میں اللہ سے اُمید وابستہ کرنا۔ ہمارے ہاں یاروں نے اُمید کی اپنے طور پر یہ تعبیر کی ہے کہ لاٹری کا ٹکٹ خریدیے یا پرائز بونڈز لیکر رکھ لیجیے اور اللہ سے بہتری کی امید رکھیے! دماغ میں لالچ کا بُھوسا بھر جائے تو ایسا ہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ جو لوگ حلال کی آمدن سے حرام کی کمائی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے سَروں پر سے اللہ کی رحمت کا سایا اُٹھ جاتا ہے۔ ایسے لوگ لاٹری یا پرائز بونڈز کی قرعہ اندازی میں انعام نہ لگنے پر زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں؟ مسکرا سکتے ہیں، اور کیا؟ مسکرانے پر کوئی پابندی نہیں۔ قمر جمیلؔ نے خوب کہا ہے ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِ کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے!