تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-01-2018

قذاقوں سے حکمرانوں تک

(قسط اول)
ڈبہ بند معاشرے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اصلاح‘ ا من و امان اور جرائم پر قابو پانے کے لئے انسانی آزادیاں چھین کر خوف و ہراس اور دہشت پھیلانے کے لئے نفاذِ قانون کے اداروں کو مستحکم کیا جاتا ہے۔ انسانی فطرت میں تشدد اور برائی کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ اگر اسے عام شہریوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے اور عوام کے اس رجحان کو نہ صرف روکا جائے بلکہ سماج کی بہتری میں جو شخص نمایاں کردار ادا کرے‘ اسے انعامات‘ اعزازت اور میڈلز دئیے جائیں۔ انسانی زندگی بچانے‘ خواتین کی عزت و آبرو کا تحفظ کرنے‘ ڈاکہ زنی اور چوری جیسے جرائم کی سرکوبی کے لئے اگر قوانین کے نافذ کرنے والے اداروں کو عوام کا ہمہ جہتی تعاون حاصل رہے تو کوئی وجہ نہیںکہ بد تر سے بدتر معاشرہ بھی پرامن اور عام شہریوں کے مال و متاع کے تحفظ میں مؤثر کردار ادا نہ کر سکے۔
مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کہ سرمایہ دار معاشرہ قائم کرتے ہوئے جاپانیوں نے جوئے خانوں اور شراب خانوں کی کھلی اجازت دے دی تھی۔ نتیجے میں جرائم پیشہ گروہوں کی تنظیمیں بنیں۔ جوئے خانوں میں خوف و ہراس پھیلانے والے غنڈے منظم ہوئے اور جرمنی کی طرح قحبہ خانے بنانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن جاپان کی تہذیبی روایت کی وجہ سے‘ اس کاروبار پر سخت گیرانہ پابندی لگا دی گئی۔ اس جرم کی سزا اتنی کڑی کر دی گئی کہ اب جاپانی معاشرے میں یہ عیب برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں نے معاشرتی نظام پر کنٹرول قائم کرنے کے لئے مافیاز کا جال بچھایا۔ چند برسوں سے معاشروں میں دہشت گردی کا رجحان پھیلنے لگا ہے لیکن اس رجحان کو پیدا کرنے کی ذمہ داری بطور خاص‘ امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ مقامی مجرموں پر قابو پانے میں‘ وہاں کی پولیس اور خفیہ ادارے بہت مؤثر تھے۔ چھوٹے چھوٹے جرائم کو ریاست نظر انداز کر دیتی تھی ۔ بے روزگاری اور علم و ہنر سے محروم سیاہ فاموں کو راہ گیروں کی جیبوں سے پیسے چھیننے اور کھانے پینے کی چیزیں اٹھا کر بھاگنے سے زیادہ‘ کسی جرم کی گنجائش نہیں تھی۔
نائن الیون وہ دن تھا جب امریکہ کے اپنے پالتو افراد نے پہلی مرتبہ جدید تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کا ارتکاب کیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ اتنے بڑے جرم کی سازش تیار کر لی گئی۔ اس پر کامیابی سے عمل درآمد بھی ہو گیا اور سینکڑوں انسانی جانوں کا اذیت ناک خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کارستانی کے بعد امریکہ نے دنیا کے غریب معاشروںمیں اپنے مقاصد اور پالیسیوں کے تحت دہشت گردوں کی بھرتی شروع کر دی۔ اس تباہ کن تجربے کا ہم بھی شکار ہوئے اور ابھی تک اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تشدد پھیلانے والے سامراجی کارندوں کو اندھا دھند اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا گیا۔ وہ ابھی تک امریکی اور مقامی حکومتوں کے کنٹرول سے عام شہریوں کو پُرامن زندگی سے محروم کرتے رہتے ہیں۔ انگریز حکمرانوں نے اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے لئے امن و امان قائم کرنے والی مؤثر مشینری قائم کی تھی لیکن غلامی کے خلاف اور آزاد ی کے حق میں جدوجہد کرنے والوں کو بے حد کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔ ایسا اب بھی ہو رہا ہے۔ دھڑا دھڑ پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ انگریز صرف اپنے دشمنوں کو مارتا تھا یا امن و امان کے دشمنوں کو۔ 
کراچی میں انفرادی جرائم ضرور ہوتے ہیں۔ سیاسی حکومتوں میں ریاستی دہشت گردی بھی ہوتی رہتی ہے لیکن جب کوئی اچھی حکومت آتی ہے تو ماحول بھی بہتر ہو جاتا ہے۔ بلوچستان میں بیرونی سازشوں اور قبائلی گروہوں کی وجہ سے بدامنی ہوتی رہتی ہے۔ جب تک ریاست اپنے شہریوں کو زندگی گزارنے کے مناسب وسائل فراہم نہیں کرتی‘ یہ صوبہ پسماندہ ہی رہے گا۔ اپنی تاریخی روایات کے مطابق بلوچ امن پسند اور قانون پسند لوگ ہیں۔ چند ہی سال پہلے ایک پولیس آفیسر نے بلوچستان میں پوسٹنگ کے تجربات بتاتے ہوئے جو ایک واقعہ مجھے سنایا‘ وہ ابھی تک یاد ہے۔ اس کے مطابق ''وہ کسی چور یا ڈاکو کو پکڑ لیتے تو کسی درخت کے نیچے یا ٹیلے پر بٹھا کر اپنے کام کے لئے‘ آگے چلے جاتے اور ایک‘ دو دن گزار کے بھی واپس آتے تووہ شخص وہیں بیٹھا ملتا‘‘۔ ان کا قبائلی نظام بہت مضبوط تھا لیکن سیاسی بدکاریوں نے انہیں اپنی محفوظ اور پُرامن زندگی سے محروم کر دیا۔ کے پی میں قبائلی نظام بھی ہے لیکن وہاں کے طرزِ زندگی میں جنگجویانہ روایات موجود ہیں۔ اس کی وجہ جغرافیائی ہے۔ درہ خیبر کے ایک طرف برصغیر ہند کا وسیع و عریض علاقہ موجود تھا۔ خوراک کی فراوانی تھی۔ پانی اور ایندھن بے تحاشا تھا۔ موسم بڑے خوشگوار اور آرام دہ تھے۔ صحت مند اور محنت کش لوگ تھے۔ بارہا ان پختون جنگجوئوں نے ہندوستان پر حملے کئے۔ اپنی حکومتیں جزوی یا کلی طور پر قائم کیں۔ مقامی راج واڑوں سے جنگیں بھی لڑیں اور ان کے علاقوں پر قبضے کر کے اپنی حکومتیں بھی بنائیں۔ بیشتر حکمرانوں نے رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک سے کام لیا۔ چند روز پہلے میں نے ٹیپو سلطان کی‘ مہاراشٹر کے ایک ہندو مہاراجہ کے ساتھ معرکہ آرائی کا قصہ لکھا تھا۔ اسے پڑھنے والوں نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ مسلمان بادشاہوں کا طرزِ حکمرانی کیا تھا؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved