تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-01-2018

نتیجے کا انحصار نیت پر ہوتا ہے

درد اور احساس ہی نہیں۔ دکھ جھیلتی مخلوق کی انہیں کوئی پروا ہی نہیں۔ اللہ نے جسے آنکھیں بخشی ہیں، وہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی پہلی اور آخری ترجیح اپنا اقتدار باقی رکھنا ہے۔ عدل کا قیام نہیں۔۔۔ اور نتیجے کا انحصار نیت پر ہوتا ہے۔ 
تین برس ہوتے ہیں، جب وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف سے آخری بار ملاقات ہوئی۔ یہ صبح سویرے کا وقت تھا اور وہ تازہ دم تھے۔ عمران خاں کے بارے میں رنج و غم سے بھرے ہوئے۔ مسلسل اس کی شکایت کرتے رہے۔ پانچ چھ ماہ تک اسلام آباد میں جاری رہنے والا دھرنا ابھی ابھی ختم ہوا تھا۔ پشاور میں بہنے والے معصوم بچّوں کے لہو نے دہشت گردی کے خلاف قوم کو قدرے یکسو کر دیا تھا۔ خادمِ پنجاب کپتان اور اس کے پشت پناہوں کا قصہ لے بیٹھے اور دراز کرتے رہے۔ قدیم عرب کہا کرتے تھے ''خیرالکلامِ ما قلّا و دلّا‘‘ بہترین بات وہ ہے جو مختصر ہو اور دلیل کے ساتھ۔ جسارت کی کہ ضروری بات ہو جائے۔ عرض کیا: تین باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ اوّل یہ کہ فوج سے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ آپ کیوں کرتے ہیں؟
درد ؔتو جو کرے ہے جی کا زیاں 
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟ 
ثانیاً ایسے وزرا کیوں مقرر کرتے ہیں، حالات کی نزاکت جو نہیں سمجھتے۔ دو وفاقی وزرا کا حوالہ دیا، جن کے اشتعال انگیز بیانات نے عسکری قیادت ہی نہیں، پوری فوج کو برہم کر دیا تھا۔ خاص طور پر پرویز رشید کا ارشاد: ہم غلیل نہیں، دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ دلیل والوں سے مراد وہ میڈیا گروپ تھا، جو شریف خاندان کی پشت پہ آ کھڑا ہوا تھا۔ اب بھی کھڑا ہے اور عمران خاں کی کردار کشی جس کا شعار ہے۔ یاد دلایا کہ پولیس کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے آخری اقدام 1999ء میں کیا تھا‘ جب تین سو سے زیادہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا انتخاب کر کے انسپکٹر کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ پھر وہی روش، پھر وہی بگاڑ۔ عرض کیا کہ حکومت کے دو بنیادی فرائض ہوتے ہیں۔ امن و امان کا قیام کہ استحکام حاصل ہو اور ملک معاشی طور پر نمو پذیر ہو سکے۔ آزاد خارجہ پالیسی اسی کا ثمر ہوتی ہے۔ قبل ازیں ایک ملاقات میں ٹیکس وصولی کے سلسلے میں اپنی معروضات پیش کر چکا تھا۔ یہ کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں یہ شرح 16 فیصد تھی، جو 9 فیصد کو آپہنچی۔ ان تمام باتوں سے انہوں نے اتفاق کیا۔ کچھ دیر کے لیے ایک کڈھب سی خاموشی چھا گئی۔ اِدھر اُدھر کے کچھ موضوعات کے بعد اجازت چاہی۔ رخصت کرنے آئے تو کہا: ملاقات ہوتی رہنی چاہئے۔ سوچا کہ مجھ سے مل کر وہ کیا کریں گے؛ چنانچہ پھر ان کی زیارت نصیب نہ ہو سکی۔ ادھر اپنا حال یہ ہے کہ طبیعت دربار کی طرف کبھی مائل نہ ہو سکی۔ لیڈروں سے کبھی کچھ زیادہ حسنِ ظن تھا ہی نہیں۔ جو تھا، وہ تلخ تجربات نے تحلیل کر دیا۔ عہدہ و منصب اور اختیار و اقتدار کے آرزو مند یہ لوگ ایک اور ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کی باتوں پر نہ جائیے۔ خلقِ خدا کی پروا ان لوگوں کو نہیں ہوتی۔ 
کل قصور میں پیش آنے والے واقعات نے زخم پھر سے تازہ کر دئیے۔ یا رب! تیری مخلوق کیا یونہی مرتی رہے گی؟ پتھر دل لیڈر کیا اسی طرح ان پہ مسلّط رہیں گے۔ انصاف کی سحر کیا کبھی طلوع نہ ہو گی۔ 2013ء میں پختون خوا میں عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو بہت امید ان سے بھی نہیں تھی۔ اسمبلیوں کی ٹکٹیں بے تکے انداز میں بانٹی گئی تھیں۔ پنجاب کی طرح وہاں بھی کچھ لیڈروں نے دام کھرے کیے تھے۔ اس کے باوجود بدترین حالات میں پختون خوا پولیس کہیں زیادہ بہتر نتائج کیوں حاصل کر سکی۔ ابھی کچھ دیر پہلے اسلام آباد کے آئی جی اعظم تیموری ایک چینل کو بتا رہے تھے کہ دارالحکومت میں مظاہروں سے نمٹنے کے لیے جو خصوصی فورس تشکیل دی جا رہی ہے، ترکی میں تربیت پانے والا ایک پولیس افسر اس کا نگران ہے۔ تیموری کا شمار قدرے بہتر افسروں میں ہوتا ہے۔ بیس سال ہوتے ہیں، اسی اسلام آباد میں جب وہ نسبتاً ایک چھوٹے منصب پر تھے، ان کی تگ و تاز نے ہر مکتبۂ فکر سے تحسین سمیٹی تھی۔ یہ خیال اپنے ساتھ ایک ملال سا لے کر آیا کہ ترک پولیس کی نمو میں ایک پاکستانی پولیس افسر کا ہاتھ ہے۔ اتفاق سے ان دنوں جو اقوامِ متحدہ کے Commission for Criminal Justice کا منتخب چیئرمین ہے۔ ترک پولیس بالکل روایتی انداز کی تھی۔ جاپانی پولیس کو white-collar crime کے شعبے میں تربیت دینے والے پاکستانی افسر کی شہرت انقرہ پہنچی تو وہاں بھی اسے مدعو کیا گیا۔ دو نکات اس نے انہیں سمجھا دئیے۔ ایک یہ کہ اب یہ تخصّص (Specialization) کا عہد ہے۔ عہدِ جدید کے پڑھے لکھے، جدید ٹیکنالوجی کو جرائم میں استعمال کرنے والے مجرموں سے روایتی پولیس نمٹ نہیں سکتی، اعلیٰ تعلیم پہ توجہ دی جانی چاہئے؛ چنانچہ ترک پولیس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے اب پانچ سو افسر موجود ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن کی قیادت میں طیب اردوان کے خلاف ترک فوج کی بغاوت توڑ دی گئی تھی۔ دوسرا یہ کہ سیاسی مداخلت پولیس کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ حکومت اثر انداز ہونے لگے تو حصولِ انصاف کے امکانات کم سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہی افسر 2002ء کا پولیس آرڈر مرتب کرنے والوں میں سے ایک تھا، جو اپنی روح کے ساتھ کبھی نافذ نہ ہو سکا۔ تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر ذمہ داری شہریوں کی نگران کمیٹیاں تشکیل نہ پا سکیں۔ 2002ء کے الیکشن سر پہ آئے تو سرکاری سیاستدانوں نے جنرل مشرف کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے کہ پولیس آزاد ہو گئی تو انتخاب وہ کیونکر جیتیں گے۔
2004ء میں جب ہم پختونخوا کے ایک تھکا دینے والے سفر سے لوٹ رہے تھے، کپتان کو میں اس پولیس افسر کے گھر لے گیا، جس نے تفصیل کے ساتھ اسے بتایا کہ جدید پولیس کیا ہوتی ہے۔ کیونکر اس کی سعی ثمر بار ہوتی ہے۔ ''تفتیش‘‘ اس نے کہا ''سب سے اہم چیز تفتیش ہے۔ مجرم کو سزا کا خوف ہو تو جرم کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ پانچ فیصد، جب کہ برطانیہ میں 95 فیصد ہے‘‘ کپتان گاہے اب بھی اس کے پاس جاتا یا اسے مدعو کرتا ہے۔ 2013ء میں عمران خان نے جب صوبے میں سپیشل برانچ کی جگہ ایک نیا انٹیلی جنس ادارہ بنانے کا ارادہ کیا تو اسی آدمی کی تنبیہ پہ وہ رک گیا تھا۔ پختون خوا پولیس اس لیے کامیاب رہی کہ سیاسی مداخلت روک دی گئی تھی۔ 
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ بہترین تربیت، میرٹ پر انتخاب اور تقرر کے علاوہ، سب سے اہم اصول یہ ہے کہ پولیس کو قانون کے دائرے میں بروئے کار آنے کی پوری آزادی بخشی جائے۔ انسپکٹر جنرل کی بجائے وزیرِ اعلیٰ اور ان کے صاحبزادے پولیس افسر تعینات کریں گے، وزرا، دوستوں اور ارکانِ اسمبلی کی سفارشیں جب کارگر ہوں گی تو ایسی ہی بہیمیت ہو گی۔ مار پیٹ، رشوت ستانی، کاہلی، بے دلی اور جرائم کا فروغ۔ موٹر وے پولیس کیوں کامیاب ہے؟ بدتمیزی اور فریب دہی کی شکایت وہاں کیوں نہیں؟ یہ اسی پولیس کے فرزند ہیں۔ ہر تین ماہ بعد وزیرِ اعلیٰ تھانہ کلچر بدلنے کا اعلان کرتے ہیں۔ پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ خرابی پولیس میں نہیں، اس کے چلانے والوں میں ہے۔ وہ وردیاں بدلتے ہیں، نظام نہیں۔ نعرے ان کے پاس بہت ہیں۔ عمل کی متاع برائے نام بھی نہیں۔ 
درد اور احساس ہی نہیں۔ دکھ جھیلتی مخلوق کی انہیں کوئی پروا ہی نہیں۔ اللہ نے جسے آنکھیں بخشی ہیں، وہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی پہلی اور آخری ترجیح اپنا اقتدار باقی رکھنا ہے۔ عدل کا قیام نہیں۔۔۔ اور نتیجے کا انحصار نیت پر ہوتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved