تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-01-2018

تکلیف کیوں ہوتی ہے ؟

گاڑی چند لمحات کے لیے ایک ٹریفک سگنل پہ رکی تھی۔ اس دوران ، ایک ایسا منظر میں نے دیکھا ، جوکئی سوالات کو جنم دے رہا تھا۔جنوری کی شدید سرد رات ، ساری مخلوق گرم بستروں میں سوئی پڑی تھی ۔ ہماری گاڑی میں ہیٹر کی خوشگوار حرارت پھیلی ہوئی تھی ۔دن بھر کی مصروفیات کے بعد شام کو ایک تقریب سے میں واپس جا رہا تھا۔ گھر جا کر گرم بستر میں مجھے سو جانا تھا ۔ غسل کے لیے گیزر کا گرم پانی موجود تھا۔ کمبل میں لپٹی ہوئی ننھی مشیہ گاڑی ہی میں سو چکی تھی ۔آسودگی کے ان لمحات میں ، میں نے اسے دیکھا۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ،ٹریفک اشارے پر سڑک کے درمیان فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ ایک چادر اس نے اوڑھ رکھی تھی ۔ اس چادر میں مشیہ کا ہم عمر ایک ننھا سا بچہ نظر آرہا تھا ، جسے اس نے خود سے لپٹا رکھا تھا۔ وہ بھیک مانگ کے تھک چکی تھی اور اب سستا رہی تھی ۔اس نے ہماری گاڑی تک چل کے آنے کی کوشش بھی نہیں کی اور وہیں دبک کر بیٹھی رہی ۔ یہ رات کا وہ وقت تھا، جب ٹریفک بھی تقریباً ختم ہونے والی تھی ۔ان حالات کو آپ کیا کہیں گے ؟ میرے ذہن میں توUltimate Misery کے الفاظ ہی آتے ہیں۔ 
میں سوچتا رہا ۔ زندگی بعض اوقات اس قدر تکلیف دہ کیوں ہو جاتی ہے ۔پھر مجھے خیال آیا کہ اس سے زیادہ تکلیف میں، میں کچھ لوگوں کو دیکھ چکا ہوں ۔ وہ بیمار لوگ تھے۔ ایک کو گنٹھیا تھا اور اس کے دونوں گردے خراب ہو چکے تھے ۔ اس کا جسم جگہ جگہ سے پھول چکا تھا ۔ ٹانگیں اور بازو سوکھ چکے تھے ۔ اپنی آنکھوں سے میں نے اسے مرتے دیکھاتھا۔ اس کی آنکھوں میں زندہ رہنے کی خواہش تھی ۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا تھا کہ اگر اسے یہ پیشکش کی جاتی کہ وہ صحت یاب ہو جائے گی لیکن باقی زندگی اسے سردی میں فٹ پاتھ پر گزارنا پڑے گی تو وہ ایک لمحے کی دیر بھی نہ لگاتی ۔ یہی حال دو دوسرے لوگوں کا تھا۔ ایک نے گردہ ٹرانسپلانٹ کرایا تھا اور دوسرے نے جگر۔ انہیں مسلسل ایسی ادویات دی جا رہی تھیں ، جن سے ان کے جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام کمزور پڑ چکا تھا۔ دونوں مسلسل بیمار تھے۔ مختلف بیماریاں بار بار ان پر حملہ آور ہو رہی تھیں ۔ چھ چھ ماہ توزکام پیچھا نہیں چھوڑتا تھا ۔ وہ اس قدر تکلیف میں تھے کہ اگر انہیں صحت کے بدلے اس خاتون جیسی زندگی گزارنے کی پیشکش کی جاتی تو فوراً وہ قبول کر لیتے ۔
ایک لمحے کے لیے آپ تاریخ کے عظیم ترین باکسر محمد علی کی زندگی پر غور کریں ۔ دولت، طاقت ، شہرت ، دنیا کی ہر نعمت اسے میسر تھی ۔ اس کا ایک مکا مد مقابل کو زمین چٹا دیتا تھا۔ پھر بیماری آئی ۔ کہتے ہیں کہ محمد علی نے زندگی کا سب سے خوفناک میچ بیماری کے خلاف لڑا ۔ اسے سبکدوش ہوئے دس سال گزر چکے تھے، جب ایک ٹی وی انٹرویو میں وہ نمودار ہوا۔ اسے بولنے میں دقت ہو رہی تھی ۔ دنیا اپنے سپر سٹار کی یہ حالت دیکھ کر رو رہی تھی ۔ محمد علی نے کہا : یہ بیماری خدا کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور میں موت کے لیے تیار ہوں ۔ اس نے کہا: ہو سکتاہے کہ میں کل مر جائوں ، ہو سکتا ہے اگلے ہفتے۔ مجھے نہیں معلوم، میں کب مروں گا۔اسے معلوم نہیںتھا کہ ابھی اسے 25برس مزید زندہ رہنا ہے ۔ پانچ برس بعد وہ اولمپک مشعل روشن کرنے میدان میں اترا تو اس کا بازو بری طرح کانپ رہا تھا ۔ اپنی موت تک، نہایت بہادری سے وہ پارکنسن کے خلاف لڑتا رہا ۔ چوہدری شجاعت حسین سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی تو انکشاف ہوا کہ انہیں چلنے اور بولنے میں دقت کی وجہ یہی بیماری ہے ۔ چوہدری صاحب نے کہا: ساری دنیا سے علاج کرایا لیکن اس کا کوئی علاج ہے ہی نہیں ۔ میں نے نوٹ کیا کہ چوہدری صاحب ٹشو سے منہ صاف کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیتے تھے کہ وہ زمین پر گر جائے۔ ٹشو کو میز پر رکھنے میں جتنی توانائی صرف ہوتی، اسے وہ بچا رہے تھے ۔ یہ بات حیران کن تھی کہ اس خوفناک بیماری کے باوجود وہ ایک بالکل نارمل زندگی گزار رہے تھے ۔ مشرف دور میں ، ٹی وی پر ان کے بولنے کے انداز کا مذاق اڑایاجا تا۔ انہوں نے کبھی یہ بتانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی کہ وہ کس بیماری سے نبرد آزما ہیں ۔ 
میں سوچتا رہا ۔ خدا نے اس زمین پر زندگی پیدا کرنے سے پہلے بہت سی حفاظتی تہیں اتاری ہیں ۔ چاند پر جہاں دن میں درجہ ٔ حرارت 100 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے ، وہاں رات کا درجہ ٔ حرارت منفی 100ڈگری تک گر جاتاہے ۔ کرّہ ٔ ارض پہ بھاری آب و ہوا (Atmosphere) اور پانی کی موجودگی زمین کو ایک دم شدید گرم اور شدید سرد ہونے سے بچاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ہر جاندار کے جسم میں ایک قدرتی مدافعاتی نظام رکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ کسی بیماری علاج نہیں بھی کراتے ، اکثر وہ بھی آخر کار لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔زخم لگ جائے تو خون میں جمنے کا نظام رکھا گیا ہے ۔ اگر آپ ایک لا علاج بیماری کا شکارہوجائیں تو آپ کی ساری دولت بھی آپ کو آسودگی واپس نہیں دلا سکتی ۔ 
سچی بات تو یہ ہے کہ جو جاندار چیز بھی ایک دفعہ پیدا ہوتی ہے ، اسے بہرحال تکلیف سے گزرنا ہوتا ہے ۔ فرض کریں کہ آپ کی زندگی میں کبھی کوئی تکلیف نہیں آئی۔ ماں باپ، بہن بھائی، تعلیم، شادی ، بچے ، ہر چیز عمدہ ترین ۔ اگرچہ ایسا ہوتا تو نہیں لیکن پھر بھی فرض کر لیجیے ۔ اس کے باوجود ایک نہ ایک دن آپ نے مرنا تو ہے اور موت جیسی تکلیف دہ چیز اور کیا ہوگی ۔ موت کی انتہائی تکلیف کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا ہوتا ہے ، خواہ وہ کتنا بڑا پھنے خان ہو ۔ اس سے پہلے عموماً ایک تکلیف دہ بڑھاپا ہوتا ہے ۔ آپ اس سے بچ نہیں سکتے ۔اگر آپ پیدا ہو چکے ہیں تو زندگی کی یہ جنگ آپ کو لڑنا ہی پڑے گی ۔
اور آپ جانتے ہیں کہ ہماری جلد میں درد ، گرمی اور سردی محسوس کرنے کی صلاحیت کیوں رکھی گئی ہے ۔ اس لیے کہ ہر جاندار اپنی حفاظت کی کوشش کرے ۔ اگر جسم سے درد کے احساس کی دماغ کو ترسیل روک دی جائے تو بے شک آپ کا جسم دو ٹکڑے کر دیا جائے ، آپ کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوگی ؛حتیٰ کہ بچّہ جنتی ہوئی عورت سوئی رہتی ہے ۔ 
پسِ تحریر: طویل عرصے سے سیاست پر کچھ لکھا تو نہیں لیکن آج ہاتھ میں سخت کھجلی محسوس ہو رہی ہے ۔بلوچستان کا بحران وزیرِ اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے استعفے پر منتج ہو چکا ہے ۔ جمعرات کے روز اخبارات میں لکھا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے لیگی قیادت کو یہ بحران حل کرنے میں جمعیت کے آٹھ ارکان کی حمایت پیش کی تھی ۔شرط صرف یہ تھی کہ ان آٹھ ارکان کو پچیس پچیس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ یعنی کل دو ارب روپے اورجمعیت کو بلوچستان کی گورنر شپ دے دی جائے ۔ وزیرِ اعلیٰ کے استعفے سے بحران تو ختم ہو گیا لیکن مولانا ایک بار پھر اپنا ہنر دکھانے میں کامیاب رہے ۔ مشرف کی سترھویں ترمیم ہو ، زرداری صاحب یا پانامہ لیکس کی زد میں آئے ہوئے نواز شریف ، تاریخ گوا ہ ہے کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے مولانا صاحب نے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیااور نہ آئندہ کریں گے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved