دو واقعات ایسے ہیں کہ جنہیں دماغ سے کھرچنا بھی چاہوں تو بار بار اس قوم کے غصے میں بپھرے ہجوم اور گھروں کو آگ لگاتے، لوٹ مار کرتے اور چیختے چلاتے نوجوان یاد دلاتے رہتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں جس مکروہ اور غلیظ معاشرے کو ایک مقدس مذہبی حیثیت سے ہندومت نے جنم دیا تھا وہ آج بھی ہماری رگ وپے میں سرایت کیا ہوا۔ جس نفرت، حقارت اور تعصّب کا اظہار شودروں کے ساتھ ویدوں اور پھر ان پر عمل کرنے والے برہمنوں ، کھشتریوں اور ویشوں نے کیا وہ اس معاشرے کی کریہہ شکل ہے۔ شودر اور دلت یہ دو گر وہ ایسے تھے کہ جب کلکتہ کے دیہات میں 17ویں صدی کے آغاز میں عیسائی مشنریاں قائم ہوئیں تو انہی لوگوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے پیغام میں اپنے لیے عافیت سمجھی۔ شروع شروع میں یہ عیسائی مشنریاں عیسائیت کا پیغام لے کر نہیں گئی تھیں بلکہ کوآپریٹو سو سائٹیوں کے ذریعے معاشرے کے ان پسے ہوئے طبقات کو انہوں نے ایسے روز گار فراہم کرنے شروع کیے جن سے ان کو یہ احساس ہو کہ وہ اس معاشرے میں صرف تین اعلیٰ طبقات کی خدمت کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ یوں تو تاریخ کے صفحات پر عیسائیت کا تعارف بر صغیر میں 52ء میں حضرت عیسیٰ کے ایک پیرو کار کی کیرالہ کے علاقے موذیری میںآمد سے ہوتا ہے جہاں انہوں نے یہودیوں تک حضرت عیسیٰ کا پیغام پہنچایا۔ ہندوستان میں قدیم ترین گرجا گھر اسی علاقے میں ہیں۔ فرانسیسی ہسپانوی، ولندیزی اور پر تگال افواج برصغیر میں آتی رہیں اور اپنے ساتھ عیسائیت کے مبلغ بھی لاتی رہیں۔ رومن کتھولک، پروٹسٹنٹ اور بیپٹسٹ چرچ اس سر زمین پر مختلف علاقوں میں کھلتے رہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ کی تعلیمات پر لبیک کہنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کی نسلیں ہندو مذہب کے نسلی تعصب کی صدیوں بھینٹ چڑھتی رہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی آبادیاں عام لوگوں سے علیحدہ ہوتیں، جنہیں مندروں کے قریب تک پھٹکنے کی اجازت نہ ہوتی اور جن کے لیے مخصوص قسم کے پیشے تھے جنہیں وہ اختیار کر سکتے تھے۔ گھروں کی صفائی ستھرائی اور کوڑا کرکٹ اٹھانا ان لوگوں کا مقدر تھا۔ انگریزوں کی ہندوستان میں حکومت کے بعدیہاں عیسائی مشنری سکولوں اور ہسپتالوں کی وجہ سے ان لوگوں کے حالات بدلے لیکن معاشرے کی رگوں میں ذات پات کا جو زہر سرایت ہو چکاتھا وہ نہ بدل سکا۔ یوں تو مسلمانوں کی برصغیر آمد کے بعد صوفیاء نے جب اسلام پھیلانا شروع کیا تو یہاں کے شودر اور دلت بھی متاثر ہوئے لیکن اسلام کا پیغام ہرذات اور گروہ کے افراد تک پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ راجپوتوں، جاٹوں اور گوجروں کے گروہ در گروہ اسلام میں شامل ہوئے۔ یہ اسلام کی حقانیت کے قائل تو ہوگئے لیکن اپنے اندر سے ذات پات کی ہندوانہ مذہبی تقسیم اور اُس کی بنیاد پر جنم لینے والے تعصب اور تکبر کو نہ نکال سکے۔ ادھر عیسائیت میں داخل ہونے والے مظلوم طبقات انگریز کے زوال کے بعد دونوں ملکوں میں اقلیت بن گئے۔ ایک جگہ مسلمان اکثریت اور دوسری جگہ ہندو اکثریت اور دونوں نسلی برتری اور تکبر میں بپھرے ہوئے۔ ادھر عیسائیت کے پرستاروں پر جوبیتی وہ ایک المناک داستان ہے لیکن میرے ملک میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں نے اس مظلوم اورمجبور طبقے کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کی کہانی بھی درد ناک ہے۔ عیسائیوں میں سے اگر کوئی اسلام قبول کرلیتا تو اسے مسلمان کا درجہ نہ دیا جاتابلکہ اُسے مصلّی کہا جاتا… ایک ایسا لفظ جو حقارت سے بولا جاتا ہے۔ یہ اُس رسول رِحمتﷺ کی اُمت کر رہی تھی جو اسلام قبول کرنے والے کو ایسا پاک صاف ، طاہر اور مطہر قرار دیتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، یعنی اُس کے تمام گناہ دُھل چکے، صاف ہو چکے اور اُس کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔ لیکن ہم اپنے خون میں رچے اُس ذات پات میں جکڑے تعصبات کا کیا کرتے جو اس برصغیر میں ہماری نسلوں کو لوریوں کی طرح سنائے گئے تھے اور جنہیں مذہبی تقدس کا درجہ حاصل تھا۔ انہی تعصبات میں ڈوبا ہوا میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے۔ ہمارے محلے میں شانتی نام کی ایک خاتون صفائی کا کام کرتی تھی۔ اس وقت سیوریج اور فلش سسٹم نہیں تھے، اس لیے یہ کام اور بھی مشکل اور اذیت ناک تھا۔ اللہ نے اسے حسن ایسا دیا تھا کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان اسے دل دے بیٹھا۔ شانتی نے اسلام قبول کیا اور شادی کر لی۔ محلے کے اوباش نوجوانوں کے لیے وہ سامانِ نظر اور تفننِ طبع کا باعث تھی لیکن اب ایک گھر کی زینت بن گئی۔ میرے لیے یہ انتہائی حیرت کی بات تھی کہ اس خاتون کو عدالت میں گھسیٹنے، تھانوں میں بلوانے ، اُس پر طرح طرح کے مقدمات قائم کروانے میں مسلمان پیش پیش تھے۔ میں گیارہ بارہ سال کا بچہ تھا اور میرے سامنے یہ غصے سے اُبلتے ہوئے لوگ اُس کے کردار پر گفتگو کرتے اور ایسی تضحیک آمیز کہ آج اس عمر میں یاد آتی ہے تو طبیعت پر گرانی طاری ہو جاتی ہے۔یہ عورت تو ان کے اللہ اور رسولؐ کے فرامین کے مطابق ان سب سے افضل تھی۔ اس مکروہ معاشرے نے اُس پر عرصۂ حیات اتناتنگ کیا کہ دونوں میاں بیوی گجرات چھوڑ کر چلے گئے اور مجھے عمر بھر کی ایک اذیت دے گئے۔ دوسرا واقعہ اُس زمانے کا ہے جب میں اسسٹنٹ کمشنر پشین تھا۔ بلوچستان کے پشتون اور بلوچ معاشرے میں صفائی کا کام کرنے والے سو فیصد عیسائی ہیں اور وہ بھی پنجابی بولنے والے۔ یہ ہے وہ ’’پنجابی استعمار‘‘ ہے۔ جو ہر بلوچ لیڈر کی زبان پر ہوتا ہے اس ’’استعمار‘‘ میں نائی ، دھوبی، ترکھان، جولا ہے اور صفائی کرنے والے شامل ہوتے ہیں۔ پشین کے ڈپٹی کمشنر کا ایک عیسائی ڈرائیور مسلمان ہو گیا۔ اس بیچارے کے ذمے دفتر کے اہل کاروں نے کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی لگا رکھی تھیں جن میں اپنے عیسائی ہم مذہب لوگوں کے کوٹے میں ملنے والی شراب ان ’’عظیم‘‘ مسلمان اہل کاروں تک پہنچانا بھی شامل تھا۔یوں بھی باقی ڈرائیوروں کی نسبت اُس کا مرتبہ و مقام ویسا نہ تھا۔ باقی تو اعلیٰ نسل کے پشتون تھے اور پھر مسلمان بھی۔ وہ بھی مسلمان ہوگیا اور اگلے دن ڈپٹی کمشنر کا یہ ڈرائیور تھا نیدار کے پاس مٹھائی لے کر گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ بہت اذیت ناک ہے۔تھانیدار اپنی پشتون اور مسلمان غیرت میں غصے سے تلملایا، ایک زور دار تھپڑ اُس کے منہ پر رسید کیا اور کہا آگے مسلمان کم تھے جو ایک تُو بھی ان میں شامل ہو گیا ہے۔ مٹھائی کا ڈبہ اٹھا کر پھینکا اور کہا اس مٹھائی کو عیسائیوں میں تقسیم کر دو۔ وہ ڈرائیورجس کیفیت میں آنسو بھری آنکھوں سے میرے سامنے آیا میں آج تک اس کو نہیں بھول سکا۔ کیا ہم بحیثیت قوم اُس رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کہلانے کے مستحق ہیں جونجران کے عیسائیوں کو اپنی مقدس ترین مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ جب لاہور کی جوزف کالونی میں لوٹ مار ہو رہی تھی تو وہ جن کا خون اس اُمت پر حرام ہے (کہ ان ذمیوں کی حفاظت ان کے ذمے ہے)۔ اس قوم کے کتنے علماء تھے جو مسجدوں سے دوڑ کر نکلے ہوں، انہوں نے لائوڈ سپیکر کھول دیے ہوں کہ ہمارے پیارے رسولؐ کی اُمت چند غنڈوں کی وجہ سے بدنام ہو رہی ہے ان کو روکو، ان مظلوم لوگوں کے سامنے ڈھال بن جائو۔ کوئی نہیں‘ شاید کوئی نہیں۔ پھر ہم سوال کرتے ہیں کہ ہم پر رحمتیں کیوں نازل نہیں ہوتیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved