دنیا بھر میں میڈیا، بظاہر، مجموعی طور پر ایک ہی ایجنڈے کا پابند ہے ... یہ کہ کوئی کچھ سیکھ نہ پائے! سیکھنے سے مراد ہے کوئی بھی ڈھنگ کی بات۔ باقی رہی ہیں بے ڈھنگی باتیں تو جناب اُن کا معاملہ یہ ہے کہ بے سِکھائے بھی انسان سیکھتا ہی جارہا ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن انسان کے بے ڈھنگے پن کے گراف میں بلندی کا باعث بن رہا ہے۔
محققین انسانوں کے بارے میں کی جانے والی تحقیق سے اُوب کر اب جانوروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے متعدد وقیع ادارے سرکاری سرپرستی میں کام کر رہے ہیں جن کا بنیادی کام جانوروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا اور جو جان لیا ہو اُسے دنیا کے سامنے لانا ہے۔ ایسا کرنے کی حتمی یا حقیقی غایت کیا ہے یہ بات تو ہم آج تک سمجھ نہیں پائے مگر ہاں اتنا ضرور ہے کہ جانوروں کے بارے میں کی جانے والی تحقیق نے ہمیں کئی بار شرمندہ ہونے پر ضرور مجبور کیا ہے۔ جانوروں سے متعلق دستاویزی فلمیں ریلیز کرنے کا کلچر جب سے عام ہوا ہے ہم تو سمجھ ہی نہیں پارہے کہ جانوروں کو نیچا دکھانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کریں۔ بات یہ ہے کہ جانوروں کی دنیا میں اب بھی بہت کچھ ایسا ہے جو انسانوں کی دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔ ایک لحاظ سے ہم جانوروں کو ''قدامت پسند‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اب تک ''سال خوردہ'' و ''از کار رفتہ‘‘ اقدار کو گلے سے لگائے جیے جارہے ہیں۔ انسانوں نے خیر سے بہت سی اقدار کو یوں چھوڑا ہے کہ اب پلٹ کر اُن کی طرف دیکھنے کا امکان کم و بیش معدوم ہے۔
جانوروں کی دنیا آج بھی پندرہ بیس ہزار سال پہلے کے دور میں سانس لے رہی ہے۔ زمانے کی ترقی نے جانوروں پر معمولی سے بھی اثرات مرتب نہیں کیے۔ بظاہر انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں کہ زمانے کی ترقی سے مستفید نہ ہوئے اور خود کو نہ بدلا تو لوگ کیا کہیں گے اور تاریخ میں اُن کا ذکر کس انداز میں ہوگا، مورخین کس کس طرح لتّے لیں گے!
افریقا کے جنگلات (نیشنل پارکس) میں بنائی جانے والی بہت سی دستاویزی فلمیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جانور آج بھی صرف پیٹ بھرنے کے لیے کھاتے ہیں، نیت بھرنے کے لیے نہیں! یعنی یہ کہ وہ اُسی وقت کھاتے ہیں جب بھوک لگی ہو اور پیٹ بھرنا مقصود ہو۔ وہ کسی بھی جانور کا شکار محض دل پشوری کے لیے نہیں کرتے۔ اور پیٹ بھر جانے کے بعد بالکل نہیں کھاتے۔ یہی سبب ہے کہ جنگل کی زندگی میں آپ کو بدہضمی کا شکار ہونے والے جانور خال خال ملیں گے۔ یہ عیّاشی صرف انسان نے اپنے مقدر میں لکھی ہے!
صرف بھوک لگنے پر خوراک کا انتظام کرنا اور پیٹ بھر ہی کھانا primitive یعنی ابتدائی دور کے انسان کا بھی وتیرہ تھا۔ اب دیکھ لیجیے کہ اُس نے کتنی ''پیش رفت‘‘ کرلی ہے کہ بلا ضرورت بھی بہت کچھ جمع کر رکھتا ہے اور جانور وہیں کے وہیں کھڑے ہیں!
''پس ماندگی‘‘ کی ایک اور علامت بھی ہم نے دستاویزی فلموں ہی میں دیکھی اور پرکھی ہے کہ خالص جنگلی ماحول میں جانور اپنی اپنی حدود کے پابند ہوتے ہیں۔ درندے اپنی دنیا میں رہتے ہیں اور چرند پرند اپنے اپنے حساب میں۔ کوئی کسی کو بلا جواز پریشان کرتا ہے نہ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، ''پرامن بقائے باہمی‘‘ کے اصول کے تحت جانور ایک دوسرے کو یوں قبول کرتے ہیں کہ فلمنگ میں مصروف انسان بھی پہلے حیران اور پھر شرمندہ ہو رہتے ہیں!
دو دن قبل ہم نے ایک نیوز ویب سائٹ پر چند تصاویر دیکھیں۔ ایک تصویر میں بڑی عمر کا چمپینزی چیتے کے بچے کو پیار کرتا دکھائی دیا۔ ایک تصویر میں بڑی جسامت والے کتے کے ساتھ چُوہا آرام کرتا نظر آیا۔ ایک تصویر میں چیتے اور کتے کو ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک تصویر میں عظیم الجُثّہ کتے کے قدموںمیں چند طوطے چہلیں کرتے دکھائی دیئے۔
یہ تمام مناظر دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ حیرت میں مبتلا ہوا جائے یا شرم سے منہ چھپالیا جائے۔ بہت سوچنے پر بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انسان کہاں ''پہنچ‘‘ گیا ہے اور جانور کہاں ''رہ‘‘ گئے ہیں۔ جانوروں میں اب بھی بہت کچھ ہے جو انتہائی primitive ہے۔ اُنہیں زمانے کی ہوا لگ ہی نہیں رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ''ٹائم زون‘‘ میں stuck ہوکر رہ گئے ہیں! کسی کا احساس کرنے کے معاملے میں جانور آج بھی پیش پیش دکھائی دیتے ہیں اور اس روش کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ''ترقی‘‘ کی دوڑ میں وہ پیچھے رہ گئے تو کیوں رہ گئے اور انسان اتنا آگے نکل گیا تو کیوں نکل گیا۔ بعض علمائے مغرب کے نزدیک انسان دراصل حیوان ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے میں جانوروں کے لیے حقیقی لمحۂ فکریہ اگر ہے تو یہ ہے کہ وہ پس ماندگی کا شکار کیوں ہوئے اور انسان اُنہی میں سے ہوتے ہوئے اِتنا آگے کیسے بڑھ گیا!
انسان کا کمال یہ ہے کہ ماضی کو یاد رکھتا ہے، اُس میں اچھا خاصا کھویا ہوا بھی رہتا ہے مگر اُس سے کوئی حقیقی اور بارآور سبق نہیں سیکھتا۔ جو لوگ گزرے ہوئے زمانوں میں گم رہتے ہیں اُن کی زندگی پر بھی گزرے ہوئے ادوار کی شرافت اور انسان دوستی کوئی واضح مثبت اثر مرتب کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہر دور کے انسان کی زندگی اداکاری سے عبارت رہی ہے۔ وہ اپنی خفیف سی بھی اصلاح نہیں چاہتا اور باقی دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ اصلاح کی طرف مائل ہونے میں کوئی بھی اُس کا ہمسَر نہیں ہوسکتا۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر ایک ''فساد فی الارض‘‘ قسم کی خرابی یہ ہے کہ انسان بیشتر معاملات میں محض خواہشات ہی کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے زندہ رہتا ہے۔ خوش فہمی یا خوش گمانی کی بنیاد پر وہ تمام معاملات کو اپنی طرف سے درست قرار دے بیٹھتا ہے۔ اور پھر جب حقیقت کی لہر اٹھتی ہے تو خوش گمانیوں کا ریتیلا محل آن کی آن میں ڈھے جاتا ہے۔
جانوروں کی دنیا میں آج بھی اصولوں اور حد بندیوں کا راج ہے۔ انسان جب اپنی کرنے پر آتا ہے تو کسی حد کو ذہن میں رکھتا ہے نہ ملحوظِ خاطر رکھنے پر متوجہ ہوتا ہے۔ مفاد پرستی جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے مگر کسی قدر احتیاط کے ساتھ۔ جانور آج بھی اپنی چند بوٹیوں کے لیے پورا بکرا داؤ پر لگانے کی ذہنیت سے بہت دور ہیں۔ جانوروں سے اگر آج کے انسان صرف یہی ایک بات سیکھ لیں تو بہت سی خرابیاں از خود نوٹس لیتے ہوئے دم توڑ دیں، دنیا جنت نشاں ہو جائے!
آج کے انسان کو جانوروں سے سبق سیکھنے پر مائل کرنے کے خواہش مند اپنی سی کوشش کر رہے ہیں مگر شاید اُنہیں یہ اندازہ نہیں کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ آج کا انسان اوّل تو کچھ دیکھنے پر آمادہ ہی نہیں۔ اور پھر جانوروں سے کچھ سیکھنا؟ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ جانوروں کی اصول پسند زندگی کو دستاویزی فلموں کے ذریعے محفوظ کرنے والوں سے ہم اِتنا ہی عرض کریں گے ؎
بیمارِ غم کو موت کی آتی ہیں ہچکیاں
چھوڑو یہ اہتمام، بڑی دیر ہو گئی!