(آخری قسط)
قصور کا حالیہ سانحہ اتفاقیہ نہیں۔ اگر یہاں بانیٔ پاکستان‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہدایات کے مطابق نظام قائم کر دیا جاتا تو آج ہم سنگاپور اور ملائیشیا کے عوام کی طرح پُرامن اور خوش حال زندگی گزار رہے ہوتے۔ ہم اپنے وسائل‘ بود و باش اور طرزِ زندگی کو دیکھیں تو موازنہ کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پاکستان میںکیا نہیں ہے؟ زمین اناج اگاتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے چند ہی برسوں بعد ہماری کپاس‘ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جایا کرتی تھی۔ ہماری افرادی قوت‘ حکومتوں کی آمدنی سے زیادہ زرمبادلہ بھیجتی ہے۔ ہمارے صحرائوں اور پہاڑوں میں قدرت کے خزانے لامحدود ہیں۔ بلوچستان میں برسوں سے ایک بیرونی کمپنی سونا نکالتی چلی آ رہی ہے۔ اندازے کے مطابق ہر چھ مہینے میں وہاں سے ایک ٹن سونا نکال کر باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ سوئی گیس ختم کر کے بھی بلوچستان کے صحرائوں میں اندھا دھند وسائل پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم بلوچستان کے صحرائوں کو پانی پہنچا کر کاشت کاری شروع کر دیں تو وہاں سے بھی بے شمار قیمتی فصلیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ وہاں بارشوں کا پانی اس قدر آتا ہے کہ اگر اسے ذخیروں میں محفوظ کر لیا جائے تو ہم نصف سے زیادہ بلوچستان کو سیراب کر سکتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ انگریزوں کے ٹوڈیوں نے قائداعظمؒ اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد‘ اپنی حکمرانی سے پاکستانی عوام کو غلام اور بے بس بنا کر رکھ دیا۔ ابتدا میں انگریز کا چھوڑا ہوا نظام‘ عوام کے لئے کسی قدر اچھا تھا مگر جیسے ہی طالع آزما فوجی جرنیلوں نے پاکستان پر قبضہ جمایا‘ ہماری بے چارگی اور غلامی کے ادوار شروع ہو گئے۔ پاکستان کے جتنے حکمران بھی اپنے آپ کو جمہوری کہتے ہیں‘ اصل میں وہ فوجی حکمرانوں کے خدمت گزار تھے۔
یہ تاریخ زیادہ طویل نہیں۔ایوب خان نے قیامِ پاکستان کے صرف گیارہ سال بعد ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ آتے ہی فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تمام اداروں پر اپنے ساتھیوں اور فرمانبرداروں کی حکومت قائم کر ڈالی۔ بیوروکریسی کو اپنا غلام بنا لیا اور فوج کے بڑے بڑے افسروں کو انتظامیہ پر مسلط کر دیا۔ ابھرتے ہوئے صنعت کاروں کو اپنا پٹھو بنا کر‘ آمرانہ نظام کی طاقت اور غلامی کی دیرینہ ریاستی مشینری کا آزمودہ نسخہ جدید طور طریقوں سے مسلط کر دیا۔ ملوں میں مزدوروں کو بہت معمولی تنخواہ ملتی لیکن جو فیکٹریاں اور ملیں ورثے میں آئیں‘ وہاں پر متحدہ ہندوستان کی روایت لے کر ہمیں ملنے والے ٹریڈ یونین سسٹم کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا۔ جب ٹریڈ یونینز ہوا کرتی تھیں تو مزدوروں کے کئی حقوق بھی ہوتے تھے۔ ان کی ماہانہ تنخواہ مقرر ہوتی۔ ملوں کے قریب کوارٹر بنا کر دئیے جاتے۔ مل کی طرف سے راشن پر خوراک ملا کرتی۔ بچوں کے لئے سکول کھولے جاتے یا سکولوں میں داخل کرا دیا جاتا لیکن آمرانہ طرز حکومت کے زیر سایہ سرمایہ داروں کے اختیارات‘ ریاستی طاقت کے مساوی کر دئیے گئے۔ جب سرمایہ دار‘ محنت کشوں کے انسانی حقوق گنوانے کے بعد‘ غلامی کی سطح پر آ گئے تو پہلا حملہ ٹریڈ یونینز پر کیا گیا۔ ٹریڈ یونین میں سرگرم حصہ لینے والے ایک یونین لیڈر نے‘ جب مزدوروں کی تنظیم کو زیادہ مؤثر کرنے کی کوشش کی تو لائل پور کے ایک صنعت کار نے اسے اٹھا کر‘ اپنی مل کی چمنی میں پھینک دیا‘ جہاں بھڑکتی ہوئی چمنیوں کے نیچے دہکتے الائو کے اندر یوں جلا دیا‘ جیسے پتنگا‘ شمع کے شعلے میں آتے ہی بھسم ہو جاتا ہے۔ یہ تھا آمریت کے سائے میں پروان چڑھنے والا حکمران طبقہ‘جس کی حکمرانی کو ہم جمہوریت کہتے ہیں۔
فوجی آمروں کے زیر سایہ صنعتی اداروں میں ایک نیا نظام ابھرا۔ سرمایہ دار کسی مزدور یا ٹریڈ یونین کی آواز تک سننے کے روادار نہیں تھے۔ انہوں نے جمہوری نظام کی آڑ میں اپنے کارندوں‘ کاروباری ایجنٹوں‘ مالدار تاجروں اور دکانداروں کا ایک نیا طبقہ کھڑا کیا۔ کاشت کاروں کی تنظیموں اور آڑھتیوں کا آزادانہ تنظیمی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے‘ انہیں اپنا ایجنٹ بنا لیا۔ سرمایہ دارانہ روایات کے عین مطابق‘ دیہات اور شہروں میں غنڈوں کے ٹولے پھیلا دئیے گئے‘ جن کی مرکزی کمانڈ بیوروکریسی‘ اور نا م نہاد منتخب نمائندوں کو حکومتی اختیارات دے کر ان کے تحفظ کا انتظام کر دیا گیا۔ آج پاکستانی عوام کسی طرح بھی آزاد قوم کی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ پوری طرح سے ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ کاحصہ بن گئے۔ پہلے فوجی جنرل براہ راست حکمران ہوا کرتے تھے۔ اب یکے بعد دیگر آنے والی آمریتوں نے نام نہاد انتخابی عمل کے ذریعے‘ اپنے پٹھوئوں پر مشتمل سیاسی نظام تیار کر لیا ہے۔ اس کی آسان سی مثال یہ ہے کہ سب سے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بن کر‘ انہیں سیاسی نظام سے مکمل طور پر باہر کر دیا۔ مادرِ ملت کو ریاستی نظام سے نکال کر کے ایک نیا جابرانہ نظام تیار کیا اور اس کا نام بنیادی جمہوریتیں رکھا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے جعلی انتخابات میں منتخب ہونے والوں کو سرکاری طاقت‘ وسائل اور مسلح ادارے فراہم کر دئیے گئے۔ یہ تھا ریاست کا زور بازو‘ جس کے نیچے حکومت میں عوامی نمائندگی کا اثر و رسوخ ختم کر دیا گیا۔ (ختم)