بادامی باغ کے سانحہ کے پیچھے دو عدد شرابیوں کے مابین ہونے والی ’’ٹُن جنگ‘‘ کے علاوہ قبضہ گروپ کے متحرک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ پنجاب حکومت اور پولیس انتظامیہ کی طرف سے بادامی باغ کے واقعہ کے حوالے سے جو موقف پیش کیاگیا ‘ اسے سپریم کورٹ نے تسلیم نہیںکیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ… جب بھی اقلیتوں پر حملہ ہوا پنجاب حکومت نے کچھ نہیںکیا۔ سپریم کورٹ نے سانحہ بادامی باغ پر پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قراردیاہے کہ پولیس بروقت اقدام کرتی تو سانحہ رونما نہ ہوتا ‘ آئی جی پنجاب ‘ سی سی پی او لاہوراورایس پی سٹی واقعہ کے ذمہ دار ہے ‘ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔سانحہ پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہاکہ حضور پاک ؐکی حرمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ‘ توہین رسالت کا قانون موجود ہے اس کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے‘ رپورٹ میں وجوہات اورذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا کوئی ذکر نہیںکیاگیا ‘ حکومتی رٹ کہاں گئی ؟ واقعہ کی وجوہات سامنے آنی چاہئیں ‘ زمین کا مالک کون ہے جو اس پر قبضہ حاصل کرناچاہتا تھا؟؟؟ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اہلکاروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ بیان کی گئی سٹوری پر کون یقین کرے گا ‘ سات تاریخ کا واقعہ ہے ‘ 36گھنٹے بعد کس نے لوگوں کو ہنگامہ آرائی کے لیے تیار کیا، کسی نے تو مظاہرین کو تیار کیاہوگا؟ایف آئی آر درج کرنے کے بعد علاقہ کیوں خالی کرالیاگیا، یہ کس کا مفاد تھا؟سپریم کورٹ کی طرف سے سانحہ بادامی باغ کے حوالے سے سوو موٹو ایکشن لینا ایک احسن اقدام ہے ۔عدالت عظمیٰ کی طر ف سے اٹھایا گیاسوال بہت ہی اہم ہے کہ وہ کون ہے جس نے مظاہرین کو اکٹھا کیا؟وہ کو ن ہے جس نے یہ سارا گھنائونا اور قبیح ڈرامہ ڈیزائن کیا؟ اگر ان سوالات کے جواب ڈھونڈ نکالے جائیںتو قوم کو اس شید ے پستول ، جیر ے بلیڈ اورگبر سنگھ کا پتہ چل جائے گاجس نے صرف 20کنال اراضی ہڑپ کرنے کی غرض سے پوری دنیا میںہماری عزت کو خاک میں ملادیا۔ سانحہ بادامی باغ کا سکرپٹ جس کسی نے بھی ’’تحریر‘‘ کیاہے وہ دماغ اور سوچ انتہائی گھٹیا،گھناونی اورغلیظ ہے‘ جس کے نزدیک دین، ایمان، عزت غیرت او ر حب الوطنی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بڑے دکھ سے کہناپڑتاہے کہ ایسے لوگ پاکستانی معاشرے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ پھل پھول بھی رہے ہیں۔ پاکستانی مسلمانوں کی کثیر آبادی غریب اورمتوسط طبقہ پر مشتمل ہے‘ جنہیں اللہ اور اس کے پیارے رسول ؐکی محبت اورشفاعت کے سوا دوسری کوئی نعمت میسر نہیں۔ محروم طبقات اپنے لیے روٹی روزی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ انہیںکوئی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ صحت، علاج معالجہ کے وسائل، تعلیم، پانی، بجلی، گیس، انصاف اورعزتِ نفس ان کے پاس کچھ بھی تو نہیں۔ اس کے باوجود جب بھی توہینِ رسالتؐ کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے یا کسی دوسرے واقعہ کو مخصوص مفادات کے تحت یہ رنگ دیا جاتاہے تو احتجاج انہی طبقات کے افراد کرتے ہیں۔ان معصومین کو بعض اوقات ایسے واقعات کے پیچھے غلیظ اورگھٹیا مفادات کا علم نہیںہوتا ‘ لیکن لوٹ مارکو ’’ہذا من فضل ربیِ‘‘ قرار دینے والوں کے دل ذرا بھی دہلتے نہیں کہ وہ روپیہ پیسہ کمانے کے لیے کس قدر قبیح عمل کررہے ہیں۔ بادامی باغ سانحہ سے جو اشارے مل رہے ہیںاس پر غور کیاجائے تو جو سین پارٹ سامنے ابھرتاہے وہ یہی ہے کہ یہ واردات قبضہ گروپ کی طرف سے کی گئی۔ بادامی باغ پرانے شہر سے ملحقہ ہے یہاں پر 20کنال زمین کامطلب اربوں روپیہ ہے۔جوزف کالونی اپنے محل وقوع کے اعتبار سے نیویارک سنٹرل سٹی کے علاقہ Manhattan(مین ہٹن) اورپیرس سٹی آف فیشن کے علاقہ Shanzelize(شانزے لیزے) سے کم نہیں۔ بادامی باغ جوزف کالونی کی ایک طرف مغل شہنشاہ شاہ جہاں کا تعمیر کردہ شاہی قلعہ ہے، تو دوسری طرف مینارِ پاکستان جسے یادگارِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اتنی اہم اوربیش قیمت لوکیشن دیکھ کر بڑے، بڑوں کی رال ٹپکتی ہوگی۔عدالت عالیہ نے درست فرمایاہے کہ کوئی تو ہوگا جس نے مظاہرین کا اکٹھاکیا اور وہ کون ہے جو اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتاہے؟ ہمارے شید ے میدے سیاستدان بیانات کے ذریعے اس واقعہ کو پنجاب اوروفاقی حکومتوں کے کھاتوں میںدرج کرنے میںجتے ہوئے ہیںمگر انہیں یہ ادراک نہیںکہ بیرونی دنیا میںپاکستان کو پیپلز پار ٹی اورمسلم لیگ نون کے حوالے سے نہیں جانا جاتا۔دنیا میںپاکستان کی پہچان ایم کیوایم اوراے این پی بھی نہیں۔ جس طرح ایک امریکی اپنے آپ کو ڈیموکریٹک اورری پبلکن نہیں بلکہ صرف امریکی کہلانا پسند کرتا ‘ اے کاش ہم بھی یہ سمجھ سکیں کہ ہم پاکستا نی ہیں ‘ ہمیں قاف، نون اورحقیقی پاکستانی کے برانڈ میںتقسیم نہ کیاجائے۔ باباجمیل چشتی کرائم رپورٹنگ کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے جو روزنامہ ’’دنیا‘‘کے رپورٹنگ سیکشن کے انچارج ہیں۔ بادامی باغ کے سانحہ کے حوالے سے ان کا کہناہے کہ جوزف کالونی میں’’گرینڈگیم‘‘ ہوئی۔ قبضہ مافیا نے ایک عیسائی اورمسلمان کو شراب پلاکر اس کھیل کا آغاز کیا۔مقامی پولیس نے جان بوجھ کر واقعہ کی سنگینی کونظر انداز کیا۔ایف آئی آر کاٹنے کے بعد صرف ایس ایچ او کی سطح پر جوزف کالونی کو خالی کرانے کے پیچھے ایک سیاسی جماعت کے رہنمائوں کا ہاتھ ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی کہاہے کہ اگر گوجرہ فسادات کے واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پرلایاجاتاتو بادامی باغ کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ایسے اشتہارات بھی دیکھنے میں آرہے ہیںجن میں جوزف کالونی میںمسیحی بھائیوں کے گھروں کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔بعض تصویروں میںپنجاب حکومت کے نمائندے پادری حضرات کے ہمرہ متاثرین میںچیک بھی تقسیم کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جوزف کالونی کے واقعہ میں متاثرین کی اشک شوئی تو کی جارہی ہے جو پنجاب، وفاق،ریاست، سمیت ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے ‘ لیکن شرمناک واقعہ کے ذمہ داران کو بے نقاب کیوں نہیں کیاجارہا؟ سپریم کورٹ نے صاف الفاظ میںکہاہے کہ پنجاب حکومت کی رپورٹ میںبادامی باغ کے واقعہ کی وجوہات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا ذکر نہیںکیاگیا۔بادامی باغ کے واقعہ سے اگرچہ پورے ملک کی بدنامی ہوئی لیکن پنجاب حکومت کی گڈ گورننس کی اونچی کلغی بھی کچھ نیچی ہوئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد جہاں پنجاب حکومت کی رٹ کے حوالے سے سوال اٹھائے جارہے ہیںوہاں یہ بھی کہاگیاہے کہ شریف حکومت اقلیتوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ بادامی باغ کے واقعہ سے موسیقار استاد نذر حسین اوران کی جواں سال اہلیہ عارفہ صدیقی کے گھر ڈکیتی کا واقعہ یاد آگیا۔بہت سال پہلے جب استاد نذر اور عارفہ کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی تو ملکہ ترنم نورجہاں نے از راہِ ہمدردی کہا تھا کہ… استاد جی ڈکیتوں کے خلاف پرچہ کٹوایاہے۔ استاد نذر‘ جو فنکار آدمی ہیں‘ نے کسی بکھیڑے میںپڑنے کی بجائے نورجہاں سے کہا: پرچے کودفع کریں میڈم جی ‘ ڈاکوگھر میں موجود نقدی اورزیورات تو لوٹ کر لے گئے ہیں…یہ کہتے ہوئے استاد نے آنکھ بھر کر اپنی خوبروبیوی عارفہ صدیقی کو دیکھا اورپھر یہ تاریخی جملہ ادا کیاکہ… شکر ہے عزت بچ گئی… بادامی باغ کے واقعہ پر تو پنجاب حکومت یہ بھی نہیںکہہ سکتی کہ… شکر ہے عزت بچ گئی!!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved