کیا اچکزئی اور امریکی سی آئی اے کے غصے کی اصل وجہ وہ آہنی باڑ بنتی جا رہی ہے جو افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد ورفت روکنے میں دیوار کا کام دے گی؟ ۔کوئی معمولی سی عقل اور فوجی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص پاکستانی فوج کی جانب سے پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ مضبوط اور مربوط قسم کی طویل آہنی باڑ اور اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ قلعہ نما سرحدی چوکیوںکی تعمیرات کا عمل دیکھ لے تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے گا کہ ان آہنی دیواروں اور سرحدی چوکیوں کی تکمیل کے بعد پاکستان اور افغانستان سے غیر قانونی آمدورفت تقریباً ختم ہو کر رہ جائے گی اور ان باڑوں کے ساتھ نصب کئے جانے والے سی سی ٹی وی کیمروں سے دشوار گزار سرحدوں کے چپے چپے کی نگرانی کی جا سکے گی ۔۔۔اور اس آہنی باڑ کی تعمیر سے امریکہ، نیٹو اور ان کے اتحادیوں کا وہ شکوہ اور خوف ختم ہو کر رہ جائے گا کہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک یا دہشت گردوں کی افغانستان آمد و رفت جاری ہے۔ امریکہ اور یورپ کے تھنک ٹینکس اور امریکی یونیورسٹیوں کے ڈین اور پروفیسر حضرات اگر ایک نظر آ کر ان آہنی باڑوں کو دیکھ لیں تو ان کے لیکچرز میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور جھوٹ کی ڈگڈگی میں اعتدال آ جائے گا۔ پاکستان کی آئی ایس پی آر اگر منا سب سمجھے تو اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سفارت کاروں اور انٹرنیشنل میڈیا کو آہنی باڑوں کی تنصیب اوراس پراجیکٹ کی تفصیلات کا براہ راست مشاہدہ کراتے ہوئے ان سے پوچھ سکتی ہے کہ اس پراجیکٹ کی تکمیل سے آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی کیلئے ہر قسم کے دہشت گردوں کی آمدورفت کے آگے آہنی دیوار کھڑی کرنے والے ملک کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس کے ہاتھ کیوں روکے جا رہے ہیں۔ نئے سال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کولیشن سپورٹ فنڈز کے نام سے پاکستان پر دھوکے بازی اور پیسہ ہڑپ کرنے کا الزام ایسا ہی ہے جیسے جوئے میں مقابل کا سب کچھ جیتنے والے کو یہ دکھ ستاتا رہے کہ اس کے کپڑے کیوں نہیں اتارے؟۔ امریکہ جارج بش اور اوباما کے '' نا مکمل آپریشن ‘‘ کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنی سولہ سالہ افغان جارحیت کو لے کر ایک نئے انداز اور نئے نام سے ٹرمپ کے حکم سے افغانستان میں کو دنے جا رہا ہے لیکن اس مرتبہ اس کے ارادے اور منصوبے وہ نہیں جو نائن الیون کے بعد تھے بلکہ اس بار وہ پاکستان کی بجائے بھارت کو استعمال کر رہا ہے جس طرح عراق میں تباہی و بربادی پھیلانے کے بعد ایک جانب داعش کی کمر تھپتھپائی تو دوسری طرف ایران کو سامنے کر دیا لیکن اس مرتبہ نام تو وہ افغانستان کا استعمال کرے گا لیکن بھارت کے ذریعے اپنا کام بلوچستان اور سی پیک کے خلاف کرائے گا کیونکہ چین اور پاکستان کا گوادر منصوبہ ان دونوں کا مشترکہ دشمن ہے ۔
کلنٹن ،بش ،اوباما سے ٹرمپ تک سبھی امریکی صدور پاکستان پر فاٹا سے دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کا واویلا تو کرتے ہیںبلکہ اس سلسلے میں سینیٹر جان مکین گروپ اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا لب و لہجہ تو اکثر اس قدر احمقانہ اور سخت ہو تا تھاکہ پاکستان کی فوجی قیادت جواب میں ان سے پوچھتی کہ جناب والا ۔۔ چترال سے ملحق افغان سرحد سے وہ مسلح جتھے جو آئے دن پاکستان کے شہریوں اور سکیورٹی اداروں پر حملہ کرنے کیلئے آرہے ہیں یہ کہاں سے آتے اور واپس جا کر کدھرغائب ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ امریکہ ، نیٹو اور ایساف کی فوجیں جو افغانستان کے ایک ایک چپے کی حفاظت کر رہی ہیں انہوں نے چترال سے افغانستان سے ملحق پچاس کلومیٹر کے علاقے کو پاکستان پر حملہ آوروں کی گزر گاہ بنائے رکھا ہے؟ ۔
پاکستان دنیا کی ہر اس طاقت سے جو دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ بلوچستان اور قبائلی علا قوں سمیت وزیرستان میں اسلحے کے انبار کہاں سے آ رہے ہیں؟۔ یہ کن لوگوں کو سپلائی کئے جا رہے ہیں جو بلوچستان سمیت پاکستان کی املاک، شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پرآئے روز حملے کر رہے ہیں؟۔ کیا سمجھ لیا جائے کہ NDS /RAW امریکہ کی مشترکہ نگرانی میں کارروائیاں کر رہی ہیں؟۔
نائن الیون سے آج تک افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کیلئے امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ کوئی مشترکہ حل کیوں نہیں نکل سکا ؟۔ فروری2006 میں آرمی ہائوس کے کانفرنس ہال میں جنرل مشرف نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے اپنی پریس کانفرنس میں سوال کیا تھا کہ امریکہ پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ اور بائیو میٹرک تنصیب کیلئے پاکستان کی مدد کیوں نہیں کر رہا؟۔ جنرل مشرف نے کہا تھا پاکستان کی بار بار درخواستوں کے با وجود پاک افغان سرحد پر انتہائی حساس سات یا آٹھ مقامات پر 38کلومیٹر لمبی باڑ کیوں نہیں لگائی جاتی؟ امریکہ اس پر میرا مخالف کیوں ہے؟۔ جنرل مشرف نے سامنے بیٹھے ہوئے امریکی میڈیا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی 350 کلومیٹرکے قریب سرحد پر باڑ لگانے کیلئے امریکہ اور نیٹو کے اعلیٰ حکام سمیت واشنگٹن انتظامیہ سے ہر ملاقات میں مطالبہ کرتارہا ہوں کہ وہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر الیکٹرک باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ بائیو میٹرک سسٹم نصب کر یں لیکن امریکہ اور نیٹو نہ جانے کیوں سنی ان سنی کرتے رہے؟۔اس وقت تک افغانستان میں اپنی ٹھونسی ہوئی جنگ پر امریکہ کھربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اس کے اور اتحادی فوجوں کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں، کیا وہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمدو رفت روکنے کیلئے پاک افغان سرحد پر یہ باڑ نہیں لگوا سکتا تاکہ امریکی اور نیٹو افواج کا کم سے کم نقصان ہو ؟ ۔
کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے اور سوال اس وقت یہ نہیں کہ باڑ لگانے کی اجازت کسی طرف سے ملتی ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آمد و رفت کو کس طرح روکے؟۔پاکستان کی فورسز اور پر امن شہریوں پر آئے روز خود کش حملے اور بارودی سرنگوں کے دھماکے نا قابل برداشت ہو چکے ہیں،بات اس وقت پاکستان کی سالمیت کی ہے اور اس میں تو ذرا سا بھی شک نہیں رہ جاتا کہ بلوچستان ہو یا وزیرستان، سوات ہو یا خیبر پختون خوا، وہاں کے عوام پر کئے جانے والے ان سب حملوں کے پیچھے پاکستان دشمن بیرونی طاقتیں مصروف عمل ہیںجنہیں امریکہ کی مکمل حمایت اور سر پرستی حاصل ہے۔
اگر اسرائیل کو اپنے تحفظ کیلئے غزہ اور دوسرے علا قوں میں باڑ لگانے کا حق ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں؟۔ اگر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو وزیرستان اور بلوچستان میں کیوں نہیں؟۔ اگر بھارت آج سے 30 سال پہلے سکھوں کی خالصتان تحریک کے خلاف پنجاب کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد پر آہنی باڑ لگا سکتا ہے ۔۔۔اگر بھارت اپنے زیر نگیں ممالک نیپال اور بنگلہ دیش کی سرحدوں پر باڑ لگا سکتا ہے تو امریکہ اور نیٹو افغانستان میںمشکوک مداخلت روکنے کیلئے آہنی باڑ اور بائیو میٹرک سسٹم کیوں نہ لگا سکے؟۔ حضور والا ہم باڑ نہیں اپنے گھر کی دیوار تعمیر کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی سلامتی زیا دہ عزیز ہے ۔