بھارت کی ریاست جھاڑ کھنڈ کے 40 سالہ چھوٹو برائیک کی کہانی تو آپ نے پڑھ ہی لی ہوگی جس کی تین بیویاں ہیں۔ یہ چاروں مل کر بھیک بھی مانگتے ہیں اور کاروباری ادارے بھی چلاتے ہیں! چھوٹو کی ماہانہ آمدن 6 لاکھ روپے تک ہے جس میں بھیک کا حصہ 50 ہزار تک ہے۔ اس کی کئی دکانیں ہیں جن میں برتنوں کی ایک بڑی دکان بھی شامل ہے۔ یہ دکان اس کی ایک بیوی چلاتی ہے۔
جھاڑ کھنڈ بھارت کی انتہائی غریب ریاست ہے۔ وہاں کے ایک ریلوے اسٹیشن پر چھوٹو مانگتا ہے اور روزانہ ہزار بارہ سو روپے بٹور لیتا ہے۔ اب ذرا ذہن پر زور دیجیے۔ کہاں تو بھارت کا شدید افلاس زدہ معاشرہ اور اُس میں بے روزگاری کا عذاب اور کہاں بھیک مانگنے والوں کے مزے! یہ ہے معاشرے کا کھلا تضاد۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے چھوٹو کے بارے میں سبھی کو بہت کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر اب بھی اُسے بھیک دینے والوں کی تعداد کم نہیں ہوئی!
اب ممبئی سے خبر آئی ہے کہ وہاں ماسو نام کا بھکاری روزانہ رکشا میں سوار ہوکر بھیک مانگنے کے مقام پر پہنچتا ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ صاف ستھرے کپڑے اتار کر گندے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنتا ہے۔ اور ایک کپ چائے پینے کے بعد ''کام‘‘ شروع کردیتا ہے۔ ماسو کو علاقے کے لوگوں کے علاوہ دوسرے علاقوں سے آنے اور وہاں سے گزرنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ اس کے بارے میں بھی میڈیا پر بہت کچھ آچکا ہے۔ پھر بھی اُسے بھیک مل رہی ہے! اور یہ سب کچھ ایسے معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو اُس کے منہ میں پانی ٹپکانے والا بھی مشکل سے ملتا ہے!
ممبئی ہی کے بھرت جین کے بارے میں بھی سب جان چکے ہیں کہ بھیک مانگ مانگ کر اُس نے بھی امبانی خاندان کی برابری کرنے کی تیاری شروع کردی ہے! وہ میڈیا سے گفتگو میں کھل کر کہہ چکا ہے کہ اس کی ماہانہ ''آمدن‘‘ 80 ہزار روپے تک ہے! ممبئی بھارت کا مہنگا ترین شہر ہے۔ پہلے اس بات پر غور کیجیے کہ ممبئی میں لوگ اپنا مکان خریدنے کی کوشش میں زندگی کھپا دیتے ہیں اور یہ خواب پھر بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پاتا اور پھر یہ حقیقت ملاحظہ فرمائیے کہ بھرت جین بھیک کی بدولت اس شہر میں دو دو کمروں والے دو اپارٹمنٹس کا مالک بن چکا ہے!
بھارت کی ریاست مہا راشٹر کے شہر سولا پور کے سمبھاجی کالے بھی ''بھکاری برادری‘‘ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ سمبھاجی کالے اپنے تین اہل خانہ کے ساتھ ''کام‘‘ کرتے ہیں یعنی صبح ہوتے ہی کشکول تھام کر بھیک مانگنے نکل پڑتے ہیں۔ اور پورا گھرانہ یومیہ سات ہزار سے زیادہ بٹور لیتا ہے!
اِن تمام بھکاریوں میں پٹنہ کے پپو کا جواب نہیں۔ اشتہار والا پپو تو صرف پاس ہوا تھا، یہ پپو فرسٹ آیا ہے۔ پپو کروڑ پتی ہے۔ کئی بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں۔ اے ٹی ایم کارڈ بھی بنوا رکھے ہیں۔ بچے انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں۔
یہ تو ہوا ایک غریب دیش کے مہان بھکاریوں کا احوال۔ ہمارے ہاں بھی معاملات زیادہ مختلف نہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو دن بھر اتنی محنت کرتے ہیں کہ جسم تھکن سے چُور ہو جاتا ہے مگر ضرورت کے مطابق یافت پھر بھی نہیں ہوتی۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں تو کسی نہ کسی طور کامیابی حاصل ہو جاتی ہے مگر زندگی کا معیار بلند کرنا نصیب نہیں ہوتا۔ اور پھر اس حقیقت پر غور فرمائیے کہ دوسری طرف وہ لوگ بہت مزے سے جی رہے ہیں جنہیں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پیر ہلانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرنا پڑتی! کچھ کیے بغیر وہ آسانی سے اپنی تن آسانی کا بھرپور صِلہ پالیتے ہیں۔ انہیں کو دیکھ کر کسی کا یہ لاجواب مصرع ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے ع
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں!
انتہائی عبرت ناک اور طُرفہ تماشا اگر کوئی ہے تو یہ کہ اگر کوئی بدن توڑ محنت کرنے کے بعد اپنی واجبی اجرت طلب کرتا ہے تو لوگ اُسے اس کا حق دینے میں ڈنڈی مار جاتے ہیں اور انہیں خوشی خوشی نوازتے ہیں جو ہاتھ پھیلائے سامنے آ کھڑے ہوں۔
بھیک مانگنا کیا ہے؟ ذہنی پیچیدگی؟ کردار کی کجی؟ مزاج کی بے راہ روی؟ نفسیات کے ماہرین سے پوچھیے تو وہ بھیک مانگنے کو شدید نوعیت کے ذہنی مرض سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ کوئی سلیم العقل اور سلیم الحواس انسان کسی بھی طور بھیک نہیں مانگ سکتا۔ اور یہ کہ جس میں غیرت پائی جاتی ہو اُن کا دستِ سوال اِتنے ناز نخروں کے ساتھ اور لجائے ہوئے انداز سے دراز ہوتا ہے کہ تب تک مصیبت کے زمانے کا اچھا خاصا وقت گزر چکا ہوتا ہے!
عمرانیات و نفسیات کے ماہرین کی آراء بہ سَر و چشم۔ سیدھی سی بات ہے کہ کوئی بھی غیرت مند اور سلیم الطبع شخص بھیک کیوں مانگے گا۔ ہاں، بھیک منگوانے میں بنیادی عامل تن آسانی ہے۔ کسی کو ذرا سی دعا دینے سے بہت کچھ مل سکتا ہے تو محنت کی اوکھلی میں پورے وجود کا سَر دینے کی ضرورت کیا ہے!
بھیک مانگنے کا مسئلہ اپنی جگہ مگر اِس سے زیادہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لوگ بھیک دیتے ہی کیوں ہیں؟ اور خاص طور پر ایسی حالت میں کہ اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہو کہ جسے بھیک دی جارہی ہے وہ مستحق بھی نہیں! بھارت کے جن پانچ بھکاریوں کا ذکر ہم نے کیا ان کے بارے میں ایک بھارتی ویب سائٹ پر فیچر پڑھا تھا۔ یعنی یہ پانچوں مہاشے گداگری کے اسٹیج کے ''جانے مانے‘‘ اداکار ہیں! لوگ اِنہیں جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں مگر پھر بھی بھیک دینے سے باز نہیں آتے۔ یہ ہے اصل بیماری۔ کسی سے کہیے کہ اپنی محنت کا ایک روپیہ کنویں میں پھینک دو تو وہ برہم ہوکر آپ کی عقل کو کوسنے لگے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی کے مستحق نہ ہونے کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہوئے بھی اُسے اپنی محنت کی کمائی سے کچھ دینا کنویں والا ہی معاملہ نہیں؟ ایسے ہی مواقع پر کہا جاتا ہے ع
کمال انہوں نے کیا اور ہم نے حد کر دی!
پاکستان ہو، بھارت یا پھر خطے کا کوئی اور ملک، نفسی ساخت ایک ہی ہے۔ اگر بھیک مانگنا ذہنی یا فکری پیچیدگی ہے تو بھیک دینا بھی محض ذہنی کجی ہے، اور کچھ نہیں۔ اب اِس سے بڑھ کر ذہنی کجی اور کیا ہوگی کہ جو محنت کرے اُسے پورا معاوضہ دیتے ہوئے موت آئے اور کسی کو عملاً کوئی فیض نہ پہنچانے والا سامنے آکر ہاتھ پھیلائے تو اُسے خوشی خوشی نوازا جائے؟
انسان بھی عموماً دو معاملات میں بھیک دیتا ہے۔ یا تو اِس خیال سے کہ مصیبت ٹل جائے گی۔ یا پھر یہ کہ اگر آمدن میں حرام کا عنصر زیادہ ہے تو ضمیر پر سے تھوڑا بہت بوجھ اتر جائے گا! تیسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ بھیک دیتے وقت انسان خود کو شہنشاہ اور ہاتھ پھیلانے والے کو رعایا تصور کرتا ہے! اگر پانچ دس روپے دینے سے لمحہ بھر ہی کو سہی، بادشاہت نصیب ہوتی ہو تو سودا بُرا نہیں! شعور، حقیقت پسندی اور غیرت سے کام نہ لینے والے ''بھکاری پرور‘‘ معاشروں میں ایسے ہی تماشے دکھائی دیتے ہیں۔