تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     13-01-2018

وہ ایک صفحہ کونسا ہے؟

ہمارے ہاں آئے روز کہا جاتا ہے ''ریاست کے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں‘‘۔ ہمیں نہیں معلوم وہ ایک صفحہ کون سا ہے، جس پر ہماری ریاست کے تمام اکابر یکجا ہیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہی ہے، تو روز اس کے تکرار کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ ایک کہاوت ہے ''جب کوئی کہے: مجھ پر یقین کرو تو شک ہونے لگتا ہے اور جب قسم کھاکر یقین دلائے تو جھوٹ کا یقین ہو جاتا ہے‘‘۔ سو‘ بار بار کا تکرار شبہات میں اضافہ کرتا ہے اور پھر ظاہری قرائن اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ جہاں تک موجودہ یکجائی کا تعلق ہے، یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مہربانی سے ہے۔ اسی کو انگریزی میں ''Blessing in disguise‘‘ اور فارسی میں ''عدُو شرّے بر انگیزد کہ خیر ما دراں باشد‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی دشمن کوئی شر پیدا کرتا ہے اور ہمارے لیے اُس میں سے خیر کی صورت برآمد ہو جاتی ہے۔ سو یہاں بھی صورتِ حال یہی ہے۔ ہم تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کی تنظیمات کے لوگ جب اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت سے مکالمہ کرتے ہیں تو میں حکمرانوں سے کہتا ہوں ''ہمارا یہ اتحاد آپ کی مہربانی سے ہے، ہم اپنے اپنے انداز سے کام کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو محض بیرونی دبائو پر بلاضرورت چھیڑ چھاڑ کی سوجھتی ہے اور احساسِ تحفّظ ہمیں یکجا کر دیتا ہے‘‘۔کاش کہ حقیقت میں لفظاً اور معناً ہماری ریاست کے تمام ستون پارلیمنٹ یعنی مقننہ، ایگزیکٹو یعنی منتظمہ، عدلیہ اور دفاعی ادارے اس طرح یکجا ہو جائیں کہ قول و فعل اور فکر و عمل میں کوئی تضاد دور دور تک نظر نہ آئے۔ ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کی فضا قائم ہو۔ مصنوعی بے اعتمادی پیدا کرنے یا تھوڑی بے اعتمادی کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے میں ہمارے میڈیا کے کچھ حصے کا بھی بہت بڑا دخل ہے کیونکہ یہ اس کی کاروباری ضرورت ہے۔ خواہ اس کی قیمت ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں برداشت کرنا پڑے۔ سو مجھ ایسے کم فہم کو آج بھی اُس ایک صفحے کی تلاش ہے، جس پر ہمارے وطنِ عزیز کے تمام اساتین (Pillars) حقیقت میں یکجا نظر آتے ہوں۔ آپ اسے ہماری لا علمی یا کم علمی پر محمول کر سکتے ہیں۔
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار آج کل عوامی مفاد کے کاموں (یعنی صاف پانی، پائوڈر کا خالص دودھ، خالص دوائیں، میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کا معیار بہتر بنانے) میں جُتے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سب کچھ ٹھیک کرکے دم لیں گے۔ اُن کی خدمتِ عالیہ میں بصد ادب عرض ہے کہ انتہائی اخلاص و نیک نیتی کے باوجود ایک آدمی سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتا۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ جنابِ شہباز شریف نے یہی شِعار اختیار کر رکھا ہے لیکن انجامِ کار میں اُنیس بیس یا اٹھارہ بیس سے زیادہ کا فرق نظر نہیں آتا۔ حقیقی تبدیلی اور بہتری تب آتی ہے جب ریاست کے تمام ادارے، نظامِ حکومت کے تمام محکمے اور شعبے اور بااختیار سرکاری اہلکار اپنی اپنی جگہ ٹھیک ٹھیک کام کر رہے ہوں اور اُن سب کی اصلاح کا مدار نظامِ عدل کی اصلاح پر ہے۔ کاش کہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان سب سے نچلی عدالت سے لے کر عدالتِ عظمیٰ تک کی اصلاح کو اپنی تمام کاوشوں اور تگ وتاز کا محور بنائیں، سپریم کورٹ آف پاکستان اور تمام ہائی کورٹس کے معزز جج صاحبان کو مختلف علاقے تفویض کریں جہاں وہ نچلی سطح پر جاکر نظامِ عدل کی خرابیوں کا جائزہ لیں اور اصلاح کا عمل شروع کریں۔ 
اسلام تعلیم دیتا ہے ''اور اللہ بندوں کے حال کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔ (آل عمران: 20)‘‘۔ اسلام‘ قانون سے زیادہ اخلاقی قوت سے اصلاحی عمل شروع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (1) ''اور جو اپنے رب کے حضور جوابدہی کے تصور سے لرز جائے، اُس کے لیے دو جنتیں ہیں، (الرحمن:46)‘‘۔ (2) ''بے شک جو لوگ اپنے رب کے جلال سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ (کسی کو) شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں اس حال میں خرچ کرتے ہیں کہ اُن کے دل ( اس یقین کے ساتھ) ترساں رہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (المؤمنون: 57-60)‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا (1) ''جو شخص اللہ کی خشیت سے رویا، وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ دودھ واپس تھن میں چلا جائے اور (مجاہد کا) اللہ کی راہ میں اڑتا ہوا غبار اور جہنم کا دھواں یکجا نہیں ہو سکتے۔ (ترمذی:1633)‘‘، (2) ''رسول اللہﷺ مجلس سے اٹھتے ہوئے اپنے اصحاب کو اس دعا کی تعلیم فرماتے ''اے اللہ! ہمیں اپنی ایسی خشیت عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل ہو جائے۔ (ترمذی: 3502)‘‘۔
یحییٰ بن ایوب الخزاعی بیان کرتے ہیں حضرت عمرؓ بن الخطاب کے زمانہ میں ایک عبادت گزار نوجوان تھا جو مسجد میں نمازِ باجماعت کا پابند تھا، حضرت عمرؓ اس سے بہت خوش تھے۔ اس کا ایک بوڑھا باپ تھا، وہ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے باپ کی طرف لوٹ آتا تھا، اس کے راستہ میں ایک عورت کا دروازہ تھا جو راستے میں کھڑے ہو کر اسے ورغلاتی رہتی۔ ایک رات وہ اس کے پاس سے گزرا، وہ اس کو مسلسل بہکاتی رہی حتیٰ کہ وہ اس کے ساتھ چلا گیا اور وہ اُسے لے کرگھر میں داخل ہو گئی، اس نوجوان کے دل میں اچانک اللہ کی یاد تازہ ہو گئی اور اس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوگئی ''بے شک جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں، جب انہیں کوئی شیطانی خیال ورغلائے تو وہ خبردار ہو جاتے ہیں اور بروقت ان کی چشمِ بصیرت وا ہوجاتی ہے۔ (الاعراف: 201)‘‘۔ پھر وہ نوجوان بے ہوش ہو کر گر گیا۔ اس عورت نے اپنی باندی کو بلایا اور دونوں نے مل کر اس نوجوان کو اٹھایا اور اسے گھر کے دروازے کے باہر چھوڑ آئیں۔ پھر واپس گھر نہ لوٹنے پر اُس کے والد اُس کی تلاش میں نکلے تو اُسے ایک دروازے پر بے ہوش پایا، پھراُس کے گھر والے اُسے اٹھا کر گھر لے گئے۔ پس رات گئے جب وہ ہوش میں آیا تو اس کے باپ نے پوچھا: بیٹے! تمہیں کیا ہوا تھا؟ اس نے کہا: خیر ہے، باپ نے پھر پوچھا تو پورا واقعہ بیان کرتے ہوئے جب وہ اس آیت پر پہنچا تو پھر بے ہوش ہوکر گر گیا۔ انہوں نے اسے ہلا جلا کر دیکھا تو وہ وفات پا چکا تھا۔ انہوں نے اس کو غسل دیا، کفن پہنایا اور جنازہ پڑھا کر دفن کر دیا۔ صبح ہوئی تو اس کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی، وہ اس کے والد کے پاس تعزیت کے لیے آئے اور فرمایا: تم نے مجھے خبر کیوں نہ دی؟ اس کے باپ نے کہا: رات کا وقت تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہمیں اس کی قبر پر لے چلو، پھر حضرت عمرؓ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کی قبر پر گئے اور اُسے مخاطَب کر کے کہا: اے نوجوان! اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کے حضور جوابدہی کے تصور سے لرز جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں، کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ اس نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا: اے عمر! مجھے میرے رب عزوجل نے دو جنتیں دو بار عطا فرمائی ہیں۔ (مختصر تاریخ دمشق، رقم:114، ج:19، ص: 190-191)‘‘۔
الغرض اسلام افراد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے کیونکہ اُس کی تحریک انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے لیکن جب معاشرہ ازحد بگڑ جائے، تو پھر قانونی نظام کو حرکت میں لانے اور تعزیرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہلِ مغرب نے اس حوالے سے اپنے نظام کو دانا و بینا بنا دیا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں سب پاکیزہ خصلت لوگ ہوتے ہیں، بشری اور اخلاقی کمزوریاں اُن میں ہم سے زیادہ ہوتی ہیں لیکن انہیں معلوم ہوتا ہے کہ قانون شکنی کی صورت میں وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ گرد و پیش پر نظر رکھنے کے لیے انہوں نے ہر ایک کی حرکات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ رکھنے کا ایک مربوط نظام وضع کیا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سیف سٹی پروجیکٹ کے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن کہیں کوئی واردات ہو جائے تو پتا چلتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ بند رہی، وہ ناکارہ تھے کیونکہ ایک مرتبہ نصب کرنے کے بعد ان کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملی بھگت سے کسی بڑی واردات سے پہلے اُس علاقے میں بجلی بند کر دی جاتی ہو۔
اصل کرنے کا جو کام ہے وہ نظامِ عدل کو نیچے سے لے کر اوپر تک شفاف، بے لاگ، سیاسی تسلّط سے آزاد اور دانا و بینا بنانا ہے۔ جب نظامِ عدل ہی گل سڑ جائے،کرپشن کی دیمک اُسے چاٹ کھائے تو اس طرح کے اقدامات سے کوئی جوہری تبدیلی نہیں آتی۔ حقیقی تبدیلی کے لیے دو ہی راستے ہیں: خدا ترسی پیدا کرو یا نظام کو دانا و بینا بنا دو۔ ہمارے ہاں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں اور اب الیکٹرانک میڈیا کا بے انتہا شور و غوغا بھی غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ جس چیز میں بلیک میلنگ کا عنصر شامل ہو جائے، اُس کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔
ہونا یہ چاہیے کہ عزت مآب چیف جسٹس، پاکستان کے نیک نام، دیانت دار اوراچھی ساکھ رکھنے والے سینئر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنائیں، وہ میڈیکل کالجوں کی منظوری کے لیے پی ایم ڈی سی کے معیارات کو دیکھیں اور پھر اس بات کا جائزہ لیں کہ ان معیارات کو کہاں کہاں نظر انداز کر کے طب کی تعلیم کو پاکستان کی سب سے زیادہ منفعت بخش صنعت بنا دیا گیا ہے۔ پھر یہ ٹیم میڈیکل کالجوں کے لیے نئے معیارات مقرر کرے، معیاری ٹیچنگ ہسپتال نہ رکھنے والے میڈیکل کالجوں کے الحاق کو یکسر منسوخ کرے اور زیادہ سے زیادہ فیس کی حد مقرر کرے۔ اُس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کڑا نظام ہو، ورنہ ڈاکٹر کم اور قصاب زیادہ پیدا ہوں گے۔ نرسری سکول سے لے کر یونیورسٹیوں تک پورے پرائیویٹ نظامِ تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے ایک جامع کمیشن کی ضرورت ہے۔ اس کمیشن کے لیے مناسب فنڈ قائم کیا جائے، پورے نظام کی اوور ہالنگ کی جائے اور ہر کام کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved