تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-01-2018

نئے فضائی بحران

بہت کچھ ہے جو انسان کی سرشت میں لکھ دیا گیا ہے۔ سوال صرف عمل کا ہے۔ سرشت کے جس حصے پر زیادہ عمل کیا جاتا ہے وہ زیادہ نمایاں ہوکر، ابھر کر سامنے آتا ہے۔ محنت کرنا بھی انسان کی سرشت کا حصہ ہے مگر اِس حصے کو بروئے کار لانے سے انسان بھاگتا ہے اور ہڈ حرامی کو گلے لگانے پر تُلا رہتا ہے۔ محبت کرنا بھی سرشت کا حصہ ہے مگر محبت کے مقابلے میں نفرت کو اوّلیت دے کر انسان اپنا بیڑا غرق کرنے کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ مل جل کر رہنے کا بھی ہے۔ اور بالخصوص گھریلو زندگی میں۔ لوگ اگر مل کر رہیں، ایک دوسرے کو خوش دِلی سے برداشت اور ہضم کرتے رہیں تو بہت سے بگڑے ہوئے معاملات بھی درستی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کا بہانہ تلاش کرنے کی خُو خاصے پرجوش انداز سے سرگرم و سرگرداں رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ جن باتوں سے خوشیاں کشید کی جا سکتی ہیں اُن سے بھی بالآخر صرف اور صرف رنجش ہی کشید ہو پاتی ہے۔
یکم جنوری کو بھارت کی پرائیویٹ ایئر لائن جیٹ ایئر ویز کی ممبئی سے لندن کی پرواز نمبر 9W119 میں ایک عجیب ہی واقعہ رونما ہوا۔ طیارہ لندن کی طرف محوِ پرواز تھا کہ کاک پٹ میں پائلٹ اور کو پائلٹ کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی۔ پھر تلخ کلامی اِتنی بڑھی کہ کو پائلٹ کاک پٹ سے باہر آ گئی۔ اُسے منانے کے لیے پائلٹ یعنی کیپٹن بھی باہر آیا اور کسی نہ کسی طرح منا کر واپس لے گیا۔ مگر پھر کچھ ہی دیر بعد دوبارہ جھگڑا ہوا۔ اس بار تلخ کلامی اتنی بڑھی کہ پائلٹ نے کو پائلٹ کو تھپّڑ رسید کر دیا۔ پائلٹ مرد تھا اور کو پائلٹ خاتون۔ تھپّڑ کھانے کے بعد کو پائلٹ روتی ہوئی کاک پٹ سے باہر آ گئی۔ باہر آ کر بھی وہ اپنے آنسووں پر قابو نہ پا سکی اور ہچکیاں لے لے کر روتی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پائلٹ کو مغلّظات بھی بکتی رہی۔ یوں کیبن کریو کے ارکان کے علاوہ مسافروں کو بھی بخوبی علم ہو گیا کہ کاک پٹ میں کچھ تو ایسا ہوا ہے جس کی پردہ داری بھی ضروری نہیں سمجھی گئی! کریو ممبرز نے صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر کو پائلٹ کے آگے ہاتھ جوڑے کہ وہ کاک پٹ میں جاکر دوبارہ سیٹ سنبھالے۔ اس بار پھر پائلٹ نے باہر آ کر کو پائلٹ کو منانے کی کوشش کی۔ اس دوران ایک بار پھر طیارہ کچھ دیر تک unmanned رہا یعنی اُس کے سسٹمز کو چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے ''ڈرائیونگ سیٹ‘‘ میں کوئی بھی انسان موجود نہ تھا! خیر‘ کو پائلٹ کو کسی نہ کسی طور رام کر کے دوبارہ کاک پٹ میں جانے اور سیٹ سنبھالنے پر رضا مند کر لیا گیا۔
طیارہ فضاء میں اور اُس کا کنٹرول سنبھالنے والے دونوں افراد میں جھگڑا؟ ایسے میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ شدید اشتعال کے عالم میں کوئی ایک غلط بٹن دب جانے سے عملے سمیت سینکڑوں افراد موت کی وادی کا سفر بھی کر سکتے ہیں۔ طیارے میں 324 مسافروں کے علاوہ 14 رکنی کیبن کریو بھی تھا! جیٹ ایئر ویز نے تمام متعلقہ ضوابط کی پاس داری کرتے ہوئے کیپٹن کو روسٹر سے ہٹا دیا۔ دوسری طرف ڈائریکٹوریٹ آف سول ایوی ایشن نے پرواز کے دوران سیٹ اور کاک پٹ چھوڑنے پر کو پائلٹ کا لائسنس معطل کر دیا۔
طیارے میں سب سے اہم افراد پائلٹس ہوتے ہیں۔ اُن میں احساسِ ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا چاہیے۔ اس پورے واقعے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ پائلٹ اور کو پائلٹ پارٹنرز کی حیثیت سے ساتھ رہتے ہیں! اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھر کا جھگڑا طیارے کے ساتھ اُڑ کر فضا میں داخل ہوا یعنی گھریلو ناچاقی کا کچرا کاک پٹ کی کچرا کنڈی میں ڈال دیا گیا!
اگر یوں گھریلو جھگڑے کاک پٹ تک پہنچنے لگے تو اُڑ چکے طیارے۔ پھر تو یہ بھی ہو گا کہ کوئی پائلٹ گھر سے لڑ جھگڑ کر طیارے میں سیٹ سنبھالے گا اور کسی بھی بات پر بھڑک کر، بدک کر ساتھی سے لڑ بیٹھے گا۔
دوسرا واقعہ بھی ایک بھارتی پرواز ہی کا ہے جو لاس ویگاس (امریکا) جا رہی تھی۔ پرواز کے دوران ایک خاتون نے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر راما مورتی پر نازیبا حرکت کا الزام لگایا۔ خاتون کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ قطار کی پہلی سیٹ پر راما مورتی کی بیوی بیٹھی تھی اور خود راما مورتی دونوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ جب وہ بیدار ہوئیں تو راما مورتی کو نازیبا حرکت کرتے ہوئے پایا۔
اِسے کہتے ہیں مِڈ ایئر کرائسز! اب خدا ہی جانے کہ وہ خاتون گھر سے لڑ جھگڑ کر آئی تھیں کہ سارا غصہ راما مورتی پر اتار دیا یا پھر راما مورتی کو گھر میں پیار نہیں ملا تھا اور وہ موقع دیکھ کر کہیں اور لگاؤ تلاش کر رہا تھا! فضائی سفر کے دوران کبھی کبھی اس نوعیت کا جھگڑا خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے اور تمام ہی مسافر شدید کشیدگی محسوس کیے بغیر نہیں رہتے مگر کیبن کریو کی مشکل یہ ہے کہ وہ کسی کو باہر جانے کا بھی نہیں کہہ سکتا!
دنیا بھر میں فضائی سفر کے دوران رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر غور کیجیے تو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو لڑنے کے لیے شاید زمین کم پڑگئی ہے یا پھر معاملہ یوں ہے کہ زمین پر لڑنے کا مزا جاتا رہا ہے۔ بہ قولِ غالبؔ ؎ 
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں‘ یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
کبھی کبھی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ فضائی سفر کے دوران ''طبع آزمائی‘‘ اب ٹرینڈ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ بیوی کی موجودگی میں نازیبا حرکت کا الزام! اگر یہ مان لیا جائے کہ راما مورتی ہر اعتبار سے بے قصور بھی تھا اور اُس کے اعلیٰ کردار کی گواہی دینے دس افراد بھی سامنے آ جائیں تب بھی یہ تو طے ہے کہ کسی نے جھوٹ بولا اور بے بنیاد الزام لگایا۔ یعنی معاملہ قصوروار یا بے قصور ہونے کا نہیں، فضائی سفر کے دوران کوئی انوکھا سا بحران اٹھ کھڑا ہونے کا ہے۔ ع
سکوں کہیں بھی میسّر نہیں ہے انساں کو
فضائی سفر مجموعی طور پر آج بھی ہر پہلو سے سفر کی مہذّب ترین شکل ہے۔ فضائی سفر کے لیے لوگ گھر سے خوب سج دھج کر نکلتے ہیں اور ایئر پورٹ پہنچتے ہی اُن کی چال اور طرزِ گفتگو دونوں میں حیرت انگیز حد تک خوشگوار تبدیلی رونما ہو چکی ہوتی ہے۔ ایئر پورٹ لاؤنج میں لوگوں کا طرزِ عمل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول کس طرح انسان کو انسان بنا دیتا ہے! اگر جگہ جگہ ایئر پورٹ لاؤنج بنا دیئے جائیں تو معاشرہ، طرزِ فکر و عمل کے اعتبار سے جنّت نظیر ہو جائے!
فضائی سفر کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے پر مامور اداروں کو ''مِڈ ایئر ہیومن کرائسز‘‘ کے پنپتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے حوالے سے بھی کچھ سوچنا چاہیے۔ طیارہ ڈھنگ سے اُڑ رہا ہو تو اطمینان کا سانس لیا جا سکتا ہے، لیکن اگر طیارے میں سوار افراد کچھ زیادہ اونچے اور بے ڈھنگے اُڑ رہے ہوں تو؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved