کسی بانکے کے 6یار تھے۔ 6پیاروں کے آسرے پر اس نے گائوں میں دشمن دار سے پنگا لے لیا ۔ سوجا ہوا منہ ، بہتی ہوئی نکسیر، آنسوئوں کی جھڑی سے تردامن لے کر گھر پہنچا۔ توسب سے ٹیڑھے یار نے کہا کس کی جرأت ہوئی جو 6یاروں کے پالتو پر ہاتھ اُٹھائے۔ غیرت مند یار نے بانکے کو مرہم پٹی کے لئے حکیم کے پاس لے جانے کی بجائے ساتھ پکڑا ۔بانکے کے کُھنّے سینکنے والے کا دروازہ کھٹکا دیا۔ اندر سے 6فٹ دو انچ کا سینڈو برآمد ہوا جسے دیکھ کر سورما گرتے گرتے بچا۔ سینڈو نے پوچھا کدھر آئے ہو۔ کہنے لگا بھائی جان اللہ آپ کو صحت اور سلامتی سے نوازے آپ کے کسرتی جسم کی شہرت سن کر کورنش بجا لانے حاضر ہوا تھا۔ ہمارے بانکے ریاض اور جدّہ کو رنش بجا کر واپس پہنچے تو آتے ہی پاکستان کے گھریلو حالات درست کرنے کے لیے دو اعلانات کردئیے ۔ پہلا یہ کہ ہمیںپہلے اپنا گھر درست کرنا پڑے گا۔ کوئی پوچھے سرکار پچھلے36سال سے آپ جوگی تھے ۔ بن واس کاٹا ہے یا کشٹ۔ کس کوکہہ رہے ہو کہ اپنا ہائوس اِن آرڈر کرلو۔ 10سال سے سب سے بڑے صوبے کا حکمران چھوٹا سورما ہے ۔ اور پانچویں سال میںمرکز کی حکومت ہائوس آف شریف کی باندی توپھر یہ ہائوس ان آرڈر رکھنا کس کی ذمہ داری تھی اور ابھی تک کس کی ذمہ داری ہے۔ دوسرا سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جونہی مودی ، ٹرمپ، اشرف غنی پاکستان کے خلاف بولیںفوراً آپ کو ہائوس اِن آرڈر کرنے کا دورہ کیسے پڑ جاتا ہے۔ رہی قومی غیرت کے طائر لاہوتی کی پروا ز تو وہ کب کی لینڈ کرچکی ہے۔ نا اہل وزیر اعظم نے آخر کار ڈان لیکس کے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔ پنجاب ہائوس میں یک طرفہ مگر ہاتھ سے لکھی ہوئی پریس کانفرنس کے دوران کہا میں جب کہتا ہوں ہائوس اِ ن آرڈر کرو تو مجھ پر ڈان لیکس کا الزام لگ جاتا ہے ۔ اس طرح دو سال تک ڈان لیکس کو غلط کہنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کے ہم نوا نے ڈان لیکس کے سارے حقائق پر از خود تصدیق کی مہر لگا دی ۔ نااہل وزیر اعظم نے تقریباًہزارویں بار اپنے خلاف برپا سازش کاپھر سے انکشاف کیا ۔ تازہ انکشاف میں انکشاف کی اگلی قسط کا یہ اعلان بھی شامل ہے کہ اگر کوئی مزید تازہ سازش ہوئی تو موصوف باسی سازش کی کڑھی میں اُبال لے آئیں گے۔ قوم انتظار میں ہے نااہل وزیر اعظم جلدی کریںاور اپنے خلاف ہونے والی ساری سازشوں کے ثبوت سامنے لے آئیں ۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ نااہل وزیر اعظم سازش کے ثبوت پیش کرنے کے لئے کون سا فورم منتخب کریں گے۔ یہ فیصلہ ان کے غیر سازشی لانگریوں نے کرنا ہے۔ اس لئے یار لوگ خیال کے غیرسرکاری گھوڑے دوڑا سکتے ہیں۔ ویسے بظاہر سازش کے ثبوت پیش کرنے کے 3فورم ہی ہوسکتے ہیں۔ پہلا پاکستان کی سپریم کورٹ جہاں سازش کے خلاف جانے کا وسیع تجربہ نااہل وزیر اعظم کی جیب میں پڑا ہے۔ دوسرا میڈیااور تیسری پارلیمنٹ۔ جو میاں کی رخصتی کے بعد مدت پوری کرنے کی بجائے عدت پوری کرنے کے انداز میں زینب کی موت پر بھی کونے میں بیٹھی رہی۔
فی الحال حشر سامان برادران نے قصور میں ایک نیا حشر بپا کر رکھا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ قصور کے نمائشی طور پر معطل ہونے والے ڈی پی او کے ماضی اور قصور کی ڈی سی صاحبہ کی کارکردگی کو دونوں نے زینب کے قتل کے بعد (IN THE LINE OF DUTY ) چلنے کی بجائے (in the line of promotion ) چلنا پسند کیا ۔ تنخواہ پنجاب کے لوگ دیتے ہیں اور حکم غنڈہ راج کا مانتے ہیں ۔ ذرا اس کا نتیجہ دیکھ لیں زینب کے قاتل آزاد ہیں۔ لیکن قصور کے جو بے قصور بیٹے جسٹس فار زینب کے لیے نکلے تھے وہ حکمرانوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دئیے۔
یہ اہلِ دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خِشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
آسان اُردو میں شاعر کی فریاد یہ کہ ا چھی حکمرانی کا بندوبست تو دیکھئے پتھر اور اینٹ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن کتے آزاد ہیں۔ اس اچھی حکمرانی کی د س سالہ تازہ قسط کے زمانے میں پولیس کی اتنی نئی قسمیں بنائی گئیں کہ جن کے نام بھی یاد رکھنا مشکل ہے ۔ ہر نئی پولیس کی نئی وردی، نئے اوزار اور نئی گاڑیاں آتی ہیں۔ لیکن ان ساری قسموں کی پولیس مل کر بھی نہ عوام کو تحفظ بہم پہنچا سکی۔
نہ عزتِ نفس اور نہ ہی انصاف۔ اس ڈاکو راج میں ابھی 10 دن پہلے لاہور کی ڈالفن پولیس کے اہلکاروں کو خالی ہاتھ ڈاکو لوٹ کر چلتے بنے ۔ اس سے پہلے فیصل آباد کی پستول بردار ڈالفن بھی خالی ہاتھ ڈاکوئوں سے ہاتھوں ہاتھ لّٹی گئی ۔ اب تو عوام کو لگتا ہے جو بچا تھا وہ لٹُانے کے لیے آئے ہیں کی چلتی پھرتی تصویر پولیس سے تحفظ کی توقع رکھنے کی بجائے وہ براہ راست ضلع کے بڑے بھائی جان سے مال و جان کی امان مانگیں ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جس شخص کے 10-12 گھروں کی دیواروں کی اونچائی غریب کے کوارٹر کی دیوار سے پانچ گنا زیادہ ہے غریب آدمی کے خرچ پر امیر حکمران کے تحفظ کے لیے تین فٹ چوڑی کنکریٹ کی دیوار بنائی گئی ۔ جس کے اُوپر لگے تار میں غریب کے خون پسینے کی کمائی سے کرنٹ دوڑتا ہے۔ اور جس کے اندر رہنے والے ایک آدمی کی حفاظت کے لیے غریب 3000 لوگوں کوروزانہ بھاری تنخواہ دیتے ہیں ۔ خود تین وقت کی روٹی کھائیں نہ کھائیں امیر حکمرانوں کی حفاظت پر لگے ہوئے لشکر کا لنگر تینوں پہر چلتا رہتا ہے ۔ دردناک حقیقت تو یہ ہی ہے کہ اس ایک آدمی کے لیے لگنے والے مال سے ہر مہینے ایک نیا ہسپتال تعمیر ہوسکتا ہے ۔
مصاحبوں ، درباریوں ، لانگریوں ، لفافوں وغیرہ، وغیرہ ،وغیرہ پر اٹھنے والا خرچ اور خرچ کا حساب تب کھلے گا جب ایساآڈیٹر آیا جو سرکار کا اہلکار ہوگا کرپشن سرکار کا گماشتہ نہیں۔ دنیا کی تازہ تاریخ میں کوئی ایسا ملک ڈھونڈنا شاید مشکل ہو جس کے حکمرانوں کے اقتدار میں وسائل چوری ہو جائیں ، بچیاں بے آبرو ہو جائیں ، کسان بد حال ہو جا ئیں ،عوام مہنگائی سے نڈھال ہو جائیں ا و رغریب کے لیے کھانے پینے کا قال ہو ۔ جب کہ حکمران خاندان کے بچے بچے کا سات سمندر پار مال ہی مال ہو ۔ ایسے میں ساتھ ساتھ کرپشن کے قافلہ سالار کا دل بھی ملال ہو۔ قوم انتظار میں ہے کہ دشمنوں کی وہ فہرست کب منظرِ عام پر آئے گی جس میں برف خانے سے محلات بنانے والے کا دل دکھانے کے ذمہ دارظالموں کے نا م لکھے ہوں گے ۔
ابھی تک کسی پاکستانی ڈاکٹرکو یہ اعزاز نہیں ملا کہ وہ نا اہل شریف کے دکھی دل کا ایکسرے دیکھ سکے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دکھیارا خود ہی دل کے زخموں والی ای سی جی کھول کر رکھ دے ۔ کسی کا نام لیے بغیر خفیہ ، خفیہ دھمکیاں کسی کام کی نہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے چھوٹے گاڈ فادر کا آدھی رات کے بعد قصور کی زینب کے گھر دورہ۔
دنیا کی تازہ تاریخ میں کوئی ایسا ملک ڈھونڈنا شاید مشکل ہو جس کے حکمرانوں کے اقتدار میں وسائل چوری ہو جائیں ، بچیاں بے آبرو ہو جائیں ، کسان بد حال ہو جا ئیں ،عوام مہنگائی سے نڈھال ہو جائیں ا و رغریب کے لیے کھانے پینے کا قال ہو ۔ جب کہ حکمران خاندان کے بچے بچے کا سات سمندر پار مال ہی مال ہو ۔ ایسے میں ساتھ ساتھ کرپشن کے قافلہ سالار کا دل بھی ملال ہو۔ قوم انتظار میں ہے کہ دشمنوں کی وہ فہرست کب منظرِ عام پر آئے گی جس میں برف خانے سے محلات بنانے والے کا دل دکھانے کے ذمہ دارظالموں کے نا م لکھے ہوں گے ۔