تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     15-01-2018

تمام تر مشکلات کے باوجود… (2)

گورنر ہائوس لاہور میں ہونے والی ملاقات اچانک ختم ہوئی تھی۔ اگلے ہی روز پروفیسر خالد آفتاب کو جی سی کا پرنسپل بنا دیا گیا۔ میاں نواز شریف کو یقین تھا کہ ایسی دو ٹوک باتیں کرنے والا شخص ہی اس تباہ حال ادارے کا مداوا کر سکتا ہے‘ اور یہ وہ ادارہ تھا جہاں سٹوڈنٹ لیڈر ایک عشرے سے من مانیاں کر رہے تھے۔ پرنسپل صاحب کی رٹ عملاً ختم ہو چکی تھی۔ ڈسپلن نام کی چیز عنقا تھی۔ پروفیسر سٹوڈنٹ لیڈران سے خائف نظر آتے تھے۔ جنوری 1993ء میں خالد صاحب نے چارج سنبھالا تو پہلے ہی روز ایک طالب علم بغیر اجازت ان کے آفس میں داخل ہوا۔ ''تم کون ہو اور بغیر اجازت میرے دفتر میں کیوں آئے ہو‘‘ سوال ہوا۔ ''سر میں مسلم لیگ سٹوڈنٹ ونگ کا لیڈر ہوں اور آپ کو اپنی مکمل سپورٹ کا بتانے آیا ہوں‘‘ کھسیانے طالب علم نے پرنسپل صاحب کے سوال کا جواب دیا۔ تم میرے دفتر سے فوراً چلے جائو اور آئندہ عام سٹوڈنٹ کی طرح اجازت لے کر اس آفس میں آنا۔ پرنسپل صاحب نے ہدایت دی۔ طالب علم اپنا سا منہ لے کر دفتر سے نکل گیا۔ یہ میئر آف لاہور کا بیٹا تھا۔ دو دن ہی گزرے تھے کہ نیو ہوسٹل میں دو گروہوں کے درمیان فائرنگ ہوئی۔ باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوئی۔ پولیس ہوسٹل آئی تو فائرنگ کرنے والے فرار ہو چکے تھے۔ تمام ملزموں کو کالج سے فارغ کر دیا گیا۔ میئر آف لاہور کے بیٹے نے ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ سے بدتمیزی کی تو پرنسپل نے اس کے والد کو کالج بلا لیا اور اس کے بیٹے کو بھی طلب کر کے متعلقہ پروفیسر صاحب سے معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ اب پورے کالج کو خبر ہو گئی کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ وزیر تعلیم پنجاب نے نیو ہوسٹل میں فائرنگ کرنے والے طلباء کو معاف کرنے کا کہا تو خالد صاحب کا دو ٹوک جواب تھا کہ پھر آپ کوئی اور پرنسپل مقرر کر دیں‘ میں نکالے ہوئے طلباء کو واپس نہیں لے سکتا۔ ''سر جی بچوں سے غلطی ہو گئی ہے بس آپ ایک دفعہ معاف کر دیں‘‘ وزیر تعلیم کے ساتھ بیٹھے ہوئے چند نون لیگی ایم پی اے بولے‘ مگر خالد آفتاب اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ اب پنجاب کی سیاسی قیادت کو بھی علم ہو گیا کہ نئے پرنسپل صاحب اصولوں کے آدمی ہیں۔ ایسی صورت حال میں عام طور پر سیاست دان پرنسپل اور دیگر ''نافرمان افسروں‘‘ کے تبادلے کروا دیتے ہیں۔ الزام اکثر یہ ہوتا ہے کہ موصوف جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں اور منتخب عوامی نمائندوں کی تکریم نہیں کرتے۔ لیکن اس کیس میں وہ اپنا ''حق ٹرانسفر‘‘ بھی استعمال نہ کر سکے کہ ڈاکٹر خالد آفتاب کا تقرر خود پرائم منسٹر نے چند ہفتے پہلے کیا تھا۔
ڈسپلن بحال ہو چکا تو سفارش کے کلچر‘ کام چور اساتذہ‘ پنجاب یونیورسٹی کا جامد سلیبس اور ٹیوشن کلچر جیسے دیو ہیکل مسائل سامنے کھڑے تھے۔ہمارے کلچر میں سفارش کو بالکل جائز سمجھا جاتا ہے۔ انگلینڈ یا کینیڈا میں اگر آپ سفارش کرائیں تو کام نہیں ہوتا۔ وہاں کام میرٹ پر ہوتے ہیں اور یہی مغربی اقوام کی ترقی کا راز ہے۔ خالد صاحب کے چارج سنبھالنے کے بعد 1993ء کے موسم گرما میں داخلے مکمل طور پر میرٹ پر ہوئے۔ داخلے ہو چکے تو ایک روز ایک مولانا جُبہ و دستار پہنے ہوئے پرنسپل کے دفتر میں وارد ہوئے۔ ان کے برخوردار کا داخلہ کم نمبروں کی وجہ سے رہ گیا تھا۔ آتے ہی موصوف نے عربی عود کی شیشی پرنسپل کی میز پر رکھی‘ پھر فرمایا کہ میں یہ شاندار عطر مقامات مقدسہ سے لایا ہوں‘ آج شام بالکل ایسی ہی ایک شیشی گورنر صاحب کی خدمت میں پیش کروں گا۔ گویا مولانا بتا رہے تھے کہ میں کوئی عام مولوی نہیں ہوں‘ میری لاٹ صاحب تک پہنچ ہے۔ اس کے بعد مولانا نے مدعا بیان کیا تو پرنسپل صاحب بولے کہ داخلے مکمل ہو چکے ہیں اور آپ کے برخوردار کے مارکس بھی کم ہیں‘ لہٰذا میری طرف سے معذرت ہے۔ ''پرنسپل صاحب آپ خاموشی سے بچے پر شفقت فرما دیں کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا‘‘ مولانا گویا ہوئے۔ ''مگر مولانا‘ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی بات مخفی نہیں‘‘ ڈاکٹر خالد آفتاب نے جواب دیا۔ جب بات نہ بنی تو مولانا اپنی عطر کی شیشی اٹھا کر چل دیئے۔
جی سی میں متعین کیمسٹری کے ایک استاد رانا رشید کے لاہور میں کئی ٹیوشن سینٹر تھے۔ کالج کے تمام اساتذہ کو خط لکھا گیا کہ وہ گورنمنٹ کالج کے طالب علم ٹیوشن سینٹرز میں نہ لیں‘ مگر رانا رشید پھر بھی باز نہ آئے تو محکمہ تعلیم کو ان کے تبادلے کے لیے خط لکھا گیا۔ وزیر تعلیم مع تین ممبران اسمبلی پرنسپل صاحب کے دفتر میں آئے‘ اور خط واپس لینے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر خالد آفتاب نے خط واپس لینے سے معذرت کی اور پروفیسر رانا کو گورنمنٹ کالج چھوڑنا پڑا۔
کتاب ایسے کئی دلچسپ قصوں سے بھری پڑی ہے۔ ڈاکٹر خالد آفتاب ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھے افسانہ نگار کے طور پر ابھرے ہیں‘ لیکن زیرِ نظر کتاب تو پاکستان کے تعلیمی سیکٹر کی زبوں حالی اور معاشرے سے اعلیٰ اقدار کے رفوچکر ہونے کا نوحہ ہے اور مداوا بھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب نوحہ بھی ایسا لکھتے ہیں کہ قاری کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ گورنمنٹ کالج کی احیائے نو کے لیے ایسا ہی پُرعزم اور بے لوث شخص درکار تھا‘ جس نے خود اور اس کے بزرگوں نے جی سی کی عظمت رفتہ دیکھی تھی۔ خالد آفتاب کی سربراہی میں 1997ء میں جی سی کو اٹانومی ملی‘ اور 1999ء میں کالج اپنی ڈگریاں خود دے رہا تھا۔ کالج میں ایم بی اے‘ انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل بائیو ٹیکنالوجی‘ کلینیکل نفسیات‘ الیکٹریکل انجینئرنگ‘ علوم ریاضی کا بین الاقوامی سکول اور متعدد نئے شعبے متعارف کرائے گئے۔ تعلیمی اصلاحات کی مخالفت میں بزرگ پروفیسر آگے لگے تھے کہ سالہا سال سے بنے بنائے نوٹس استعمال کرتے آ رہے تھے۔ آئین نو سے وہ خائف تھے۔ مگر خالد آفتاب کو کوئی چیلنج بے حوصلہ نہ کر سکا۔ وہ اپنے وژن کے پیچھے یکسوئی سے چلتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام اولڈ راوین تھے اور غالباً سب سے لائق فائق راوین۔ میٹرک سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ہر امتحان میں اول آتے رہے۔ نوبل انعام کے حق دار ٹھہرے۔ اٹامک انرجی کمشن اور سپارکو کی تشکیل میں ان کا اہم رول تھا۔ نوبل پرائز لینے گئے تو خالص جھنگوی انداز میں شیروانی پگڑی اور کُھسہ پہن کر گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے تین سال جی سی میں فزکس بھی پڑھائی۔ 
ڈاکٹر خالد آفتاب نے سوچا کہ جی سی کے اس عظیم سٹوڈنٹ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نظریاتی فزکس میں ان کے نام کی چیئر شعبہ طبعیات میں قائم کی جائے۔ تجویز اسلام آباد بھیجی گئی کیونکہ اضافی فنڈز بھی درکار تھے۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اس پرپوزل کی 1996ء میں منظوری دے دی‘ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پرنسپل صاحب کو دھمکی آمیز خط آنے لگے۔ پنجاب کے ہوم سیکرٹری شہزاد حسن پرویز نے مشورہ دیا کہ آپ کی زندگی کو جہادی تنظیموں سے خطرہ ہے‘ لہٰذا آپ کالج اور گھر کے درمیان ایک سے زیادہ روٹ استعمال کریں اور اپنی کار پر مختلف اوقات میں مختلف نمبر پلیٹ لگایا کریں۔ (جاری)

ڈسپلن بحال ہو چکا تو سفارش کے کلچر‘ کام چور اساتذہ‘ پنجاب یونیورسٹی کا جامد سلیبس اور ٹیوشن کلچر جیسے دیو ہیکل مسائل سامنے کھڑے تھے۔ہمارے کلچر میں سفارش کو بالکل جائز سمجھا جاتا ہے۔ انگلینڈ یا کینیڈا میں اگر آپ سفارش کرائیں تو کام نہیں ہوتا۔ وہاں کام میرٹ پر ہوتے ہیں اور یہی مغربی اقوام کی ترقی کا راز ہے۔ خالد صاحب کے چارج سنبھالنے کے بعد 1993ء کے موسم گرما میں داخلے مکمل طور پر میرٹ پر ہوئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved