گریڈ بائیس کے ایک قابلِ احترام وفاقی افسر سے مل کر آرہا ہوں۔خبر کی تلاش میں اُن سے پوچھا: کیا چل رہا ہے ؟ بولے: اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا خوف سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو نہ ہوتا تو پتہ نہیں ہم سب مل کر ملک کا کیا حشر کردیتے۔ دل جلے افسر نے ’’حشر‘‘ کے لیے جو گالی استعمال کی، کاش میں یہاں لکھ سکتا۔ میں نے کہا: بعض لوگ چیف جسٹس پر اعتراضات بھی کرتے ہیں، خصوصا ارسلان افتخار سکینڈل سامنے آنے کے بعد ان پر تنقید بڑھ گئی ہے۔ بولے: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ ویسے‘ جب بیٹا جوان ہوجائے تو پھر باپ کو اس کے اچھے برے کام کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ میں تو وہ بتارہاہوں جو میں دیکھ رہا ہوں۔ چیف جسٹس کی وجہ سے لوٹ مار کچھ کم ہورہی ہے۔ لوگ ڈر جاتے ہیں کہ کہیں نوٹس نہ ہوجائے۔ ایران پائپ لائن منصوبہ چل پڑا ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ 2005ء میں ایران نے پاکستان کو گیس کے جن نرخوں کی پیشکش کی تھی، موجودہ ڈیل اس سے تقریباً دو گنا پر ہوئی ہے۔ یہ مہنگی ڈیل اس وقت کی گئی جب ایران سے گیس نہ لینے کے لیے ہر طرف سے امریکی دبائو ہے اور ایران عالمی مارکیٹ میں گاہک تلاش کر رہا ہے ۔ پہلے بھارت کو اس ڈیل سے باہر کیا گیا اور پھر ہمارے تاریخی دوست چین سے کہا گیا‘ اپنے بنک کو روک دیں کہ پائپ لائن کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کا قرضہ نہ دے۔ ہمارے روایتی دوست نے یہی کیا۔ اس کے باوجود جو نرخ لگایا گیا وہ پہلے سے دگنا ہے۔ وسطی ایشیا کی ایک ریاست کو ایران نے پاکستان کے بعد گیس فروخت کی اور پاکستان سے کم ریٹ پر کی۔ پاکستانی بیوروکریسی کے چند ایماندار افسروں نے ’چوں چاں‘ کرنے کی کوشش کی تو ایران کی طرف سے بتایا گیا کہ اب نرخ کم نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کی منظوری پارلیمنٹ دیتی ہے جو اب ممکن نہیں۔ یوں ڈبل ریٹ لگوا کر ہم خوش خوش لوٹ آئے ہیں۔ دیکھیں‘ گیس عوام تک کس بھائو پہنچتی ہے۔ ایک ارب ڈالر اکٹھا کرنے کے لیے گزشتہ ایک سال سے پاکستانی عوام اس پائپ لائن کے لیے علیحدہ ٹیکس بلوں میں ادا کررہے ہیں۔ گویا ٹیکس کی ادائیگی گیس آنے سے پہلے شروع ہو چکی ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبے پر مزید کوئی بات کی تو وفاقی وزیر خورشید شاہ ناراض ہوجائیں گے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ٹی وی شو کے دوران پاکستان میں توانائی بحران کا ملبہ مجھ پر گرا دیا تھا۔ ان کے بقول اس رپورٹر کے فائل کیے گئے دو سال پرانے ایل این جی سکینڈل کی وجہ سے ملک میں توانائی کا بحران آیا۔ شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر کچھ وزیروں نے اس کھیل میں کچھ مال کمالیا ہوتا تو نہ بحران آتا اور نہ ہی ڈیل منسوخ ہوتی۔ مطلب یہ کہ اگر ملک میں روشنی چاہتے ہو تو ہماری چونچ گیلی ہونے دو۔ اُس وقت وفاقی وزیر نوید قمر یہ ڈیل کرا رہے تھے۔ میری خبر پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور ایک ماہ کی سماعت کے بعد یہ ڈیل ختم کردی کیونکہ اس میں بہت لوگ مال بنا رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اس ڈیل کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ سیکرٹری تجارت ظفر محمود کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنائی گئی جس نے اپنی رپورٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کی جو انہوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی کیونکہ وہ انکوائریوں پر ایکشن لینے کی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ذمہ دار حکام کے خلاف ایکشن ہوجاتا تو آج 46 ارب روپے کے ایک اور ایل این جی سکینڈل کا معاملہ پھر سپریم کورٹ میں نہ پہنچا ہوتا۔ یہ کام بہت بہادر، بہت بیوقوف یا بہت کرپٹ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ حکومت جانے میں ایک ہفتہ رہ گیا تو راتوں رات وزرات پٹرولیم 46 ارب روپے کی ڈیل کابینہ کی اقتصادی کمیٹی میں لے آئی اور اپنی پسندیدہ پارٹی کے لیے منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کی چونچ ایسی گیلی ہورہی ہے جو آپ کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ اربوں روپے اِدھر اُدھر ہورہے ہیں۔ لگتا ہے انگریزوں کا دور لوٹ آیا ہے‘ تنی ہوئی گردن کے ساتھ گھوڑے پر سوار، سر پر گرمی سے بچنے کے لیے ایک ہیٹ پہنے، انگریز بہادر کسی وفادار کو حکم دے رہا ہے کہ اپنے گھوڑے پر بیٹھو اور شام تک جتنا اسے دوڑا سکتے ہو اسے دوڑائو اور جتنا علاقہ طے کر لو گے وہ سب تمہارا ہوگا۔ اس طرح کا حکم موجودہ وزیروں کو بھی کہیں سے مل چکا ہے کہ ان چند دنوں میں جو لُوٹ سکتے ہو لُوٹ لو‘ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ چار ارب روپے تو گیارہ مارچ کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر ایم این ایز کو جاری کرائے گئے ہیں۔ یہ اربوں روپے تین دن میں کس طرح ترقیاتی کاموں پر خرچ کیے جائیں گے؟ کیا تین دنوں میں ٹینڈرز طلب کر کے ٹھیکیداروں کو کام سونپ دیا جائے گا اور دوسرا فائل ورک مکمل کر کے ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔ یہ کام تو کوہ قاف کے جنات بھی نہیں کر سکتے۔ وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا اور ڈاکٹر عاصم حسین نے مل کر کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے مسلسل تین دن تک جاری رہنے والے اجلاس میں جو ہاتھ دکھائے ہیں وہ مدتوں یاد رہیں گے۔ سیکرٹری کابینہ نرگس سیٹھی بھی بے بس نظر آئیں اور ایک رسمی سا خط لکھ کر خاموش ہو گئیں۔ نرگس سیٹھی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ جب تک وہ پرنسپل سیکرٹری ہیں، وزیراعظم دوسری دفعہ جیل نہیں جائیں گے کیونکہ وہ قواعد سے ہٹ کو کوئی کام نہیں ہونے دیں گی اور جو کام کرنے ہوں گے وہ اپنے طریقے سے کرا بھی لیں گی۔ گیلانی مطمئن ہو گئے اور اب عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں؛ تاہم اب تک دوبارہ اڈیالہ جیل نہیں گئے جہاں اس دفعہ مشکلات زیادہ ہوں گی کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت سے جیل جانے اور وزارت عظمیٰ سے ہٹ کر جیل جانے میں بہت فرق ہے۔ یقین نہیں آتا تو نواز شریف سے پوچھیں جو آج بھی اپنی شام غریباں کا آغاز بارہ اکتوبر کی شام سے کرتے ہیں جب ان کے پیارے جرنیلوں نے انہیں ہتھکڑیاں لگائی تھیں! زرداری صاحب اور گیلانی صاحب سمجھدار تھے کہ فوج کے ساتھ طے کی گئی ریڈ لائن کبھی کراس نہیں کی اور اگر کی بھی تو گیلانی صاحب نے فوراً معافی مانگ لی۔ تاہم چینی اخبار کو دیے گئے انٹرویو سمیت کچھ معاملات میں انہیں آج تک معافی نہیں ملی اور وہ بھگت رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دی گئی تھی تو ہر آنے جانے والے کو فخر سے بتایا کرتے تھے کہ جناب اب 2013ء تک سب محفوظ ہیں۔ وزیراعظم، صدر، آرمی چیف اور چیف جسٹس سب نے 2013ء تک رہنا ہے۔ خدا کی قدرت دیکھیں‘ باقی تو سب موجود ہیں لیکن یہ بات کرنے والے وزیراعظم کی کرسی پر موجود نہیں رہے۔ حکومت کے آخری دنوں میں جاری لُوٹ مار دیکھ کر وفاقی افسر کہتے ہیں کہ شکر کریں ابھی چیف جسٹس کا کچھ خوف باقی ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved