تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-01-2018

بھیڑ، ہجوم یا ریوڑ؟

ہم کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں اِس سے بڑھ کر اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کیا ہیں اور کیا کیا نہیں ہیں۔ حقیقت اگر تلخ ہو تو کسی کے نہ ماننے سے شیریں نہیں ہو جاتی۔ پوری دیانت اور غیر جانب داری سے کام لیتے ہوئے بیان کیا جائے تو ہم بھیڑ، ہجوم یا ریوڑ ... کچھ بھی ہوسکتے ہیں، کسی بھی اعتبار سے، موجودہ حالت میں، قوم تو ہرگز قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ 
بات بات پر بِدکنا، بھڑک اٹھنا ہمارے اجتماعی مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ ہر معاملے کو ایشو میں تبدیل کرنے کی عادت ہمارے لیے فطرتِ ثانیہ ہوکر رہ گئی ہے۔ قدم قدم پر گمراہی کا اہتمامِ خاص ہے۔ بھٹکنا اور بہکنا ہو تو بہانے اور طریق ہزار۔ ڈھنگ سے جینا ہو تو ایک نہیں، ہزار مشکلات و مسائل راہ میں دیوار۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے ذہنی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ طے کرلیا گیا ہے کہ کسی بھی اہم معاملے میں ذہن کو زیادہ بروئے کار نہیں لانا یعنی اُسے ''ڈبّا پیک‘‘ حالت میں واپس لے جانا ہے! جو کچھ بھی معقولیت کے دائرے میں محسوس ہوتا ہو اُسے ترک کرنے میں عافیت محسوس کی جارہی ہے۔ گویا یہ خوف لاحق ہو کہ ذہن سے کام لینے کی پاداش میں کوئی بڑی مصیبت نازل ہو رہے گی۔ 
معاشرہ جس راہ پر گامزن ہے وہ یقینی طور پر کسی مطلوب و مقصود منزل تک لے جاتی دکھائی نہیں دیتی۔ شعوری یا لاشعوری طور پر سبھی نے ایسا کچھ بھی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو معقولیت سے قریب تر محسوس ہوتا ہو، کسی اچھے نتیجے کے برآمد ہونے کا امکان پیدا کرتا ہو۔ 
یہ ساری خرابی کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم نے دانش کے موتی ٹھکراکر جہل کے کنکر پسند کرنے کی روش پر چلنا قبول کرلیا ہے؟ ہر قدم پر یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم غیر محسوس طور پر صرف اور صرف تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ 
ساڑھے چار سال سے ایک تماشا چل رہا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو تھوڑی بہت عوامی نمائندگی رہ گئی ہے اُسے بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایک دوڑ سی لگی ہے کہ جمہوری کلچر کے نام پر جو کچھ بھی باقی بچا ہے اُسے کسی نہ کسی طور رخصت کیا جائے اور عوامی نمائندگی سے یکسر عاری نظام لایا جائے۔ ان ساڑھے چار برس میں سسٹم کو لپیٹنے کی بات بار بار کی جاتی رہی ہے۔ سیاسی استحکام کو یکسر ناپسندیدہ قرار دے کر اُس سے جان چھڑانے کے لیے غیر معمولی عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ 
سوال ایک بار پھر یہی ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے یا کیوں کیا جارہا ہے۔ اِس سوال کا جواب بظاہر کسی کے پاس نہیں۔ اب مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے میں بمشکل ساڑھے تین چار ماہ رہ گئے ہیں۔ ایسے میں سسٹم کو لپیٹنے کی فکر؟ ایک بار پھر تحریک؟ یہ کیسا تحرّک ہے جو کسی ٹھوس جواز کے بغیر ابھرتا اور پُھدکتا رہتا ہے؟ کچھ دن سُکون سے گزرتے ہیں کہ ''فرمائشی پروگرام‘‘ کے تحت نئے سیاسی ترانے فضاء میں گونجنے لگتے ہیں۔ ساڑھے چار برس کے دوران سسٹم کی اصلاح اور عوام کی خدمت کے بجائے اپوزیشن کی جماعتوں نے آرڈر پر مال تیار کرنے والی فیکٹریز کا کردار ادا کیا ہے۔ اہلِ وطن کو ایک خاص سمت لے جانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہ کوشش خاصی کامیاب بھی رہی ہے۔ 
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر معقول ریسپانس کی حد تک عوام کا معاملہ بھی عجیب ہی رہا ہے۔ سیاسی جغادریوں کو تو جو کچھ کرنا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ جیسی فرمائش ویسا عمل۔ اِس میں تاسّف کی گنجائش ضرور ہے، حیرت کا کوئی پہلو نہیں۔ آرڈر پر مال تیار کرنے کی سیاست نے ملک کو شدید عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ جنہیں کسی نہ کسی طور اقتدار تک پہنچنا نصیب ہو جائے وہ اُس سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور جن کے لیے اقتدار کھٹّے انگوروں جیسا ثابت ہو وہ چاہتے ہیں کہ جسے یہ ''نعمت‘‘ ملی ہے اُسے کام ہی نہ کرنے دیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو وہ نہیں سمجھتے۔ خاموش اکثریت محض تماشائی ہے۔ اُس کا متحرّک یا فعال نہ ہونا ہی سب سے بڑی الجھن ہے۔ یہ خاموش اکثریت اگر اپنے کردار کا ادراک رکھتی ہو اور اُسے ادا کرنے پر آمادہ بھی ہو تو پھر رونا کس بات کا ہے؟ 
عوام ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز کے باعث طرح طرح کے لایعنی معاملات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ٹی وی اسکرین کی طرف دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک کے تمام چھوٹے بڑے، بنیادی و غیر بنیادی مسائل حل کرلیے گئے ہیں اور اہلِ وطن کے پاس اب انٹرٹینمنٹ کے سمندر میں غرق ہو رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا! ہر معمولی بات پر ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے لوگوںکو بحث و تمحیص کا عادی بنایا جارہا ہے۔ ہر طرف ایک شور برپا ہے اور شور مچانے کو زندگی کی سب سے توانا علامت سمجھ کر گلے لگالیا گیا ہے۔ 
میڈیا کو عمدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی جارہی ہے کہ ہر معاملے میں صرف بولنا ہے اور جو جی یا منہ میں آئے بول جانا ہے۔ عوام نے بھی یہ قیاس کرلیا ہے کہ محض بولنا ہی تمام فرائض سے سبک دوش ہو رہنے کی واحد کارگر سبیل ہے۔ ایسا سوچنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ بلا ضرورت بھی بول جاتے ہیں اور یہ سوچ کر مطمئن ہو رہتے ہیں کہ اُنہوں نے حق ادا کردیا، اب تبدیلی آکر رہے گی۔ 
ٹی وی اسکرین پر بولنا اور بولتے ہی چلے جانا کچھ اور معاملہ ہے ... اور عمل کے میدان میں اتر کر کچھ کر دکھانا کارِ دیگر است۔ بولنا کبھی کرنے کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بات چند جغادری قسم کے بولنے والوں سے کہیں زیادہ عوام کو سمجھنا ہے۔ عمل دکھائی نہ دے رہا ہو تو بولنے کا کسی کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ بے ذہنی کے چمن میں بہار آئی ہوئی ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگ جانے کی ذہنیت غیر محسوس طور پر ہماری اجتماعی نفسی ساخت کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ کسی بھی معاملے کو ایشو میں تبدیل کرکے عوام کو دس دس پندرہ پندرہ دن تک کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے۔ عمران خان کی شادی کیا قومی ایشو ہے؟ کراچی میں ایک چُھرا مار موٹر سائیکل سوار کا معاملہ پوری قوم کی نفسی ساخت پر کئی دن تک مسلّط رکھا گیا۔ اب کئی دن سے اخبارات اور ٹی وی چینلز پوری دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستانی، خدا نخواستہ، جنسی رویّوں کے اعتبار سے دنیا کی سب سے گندی اور بھٹکی ہوئی قوم واقع ہوئے ہیں! بچیوں کو اغواء کرنے کے بعد زیادتی کے نشانہ بناکر قتل کردینا انتہائی قبیح فعل ہے اور اس کے مرتکب افراد کو کسی طور معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور اس حوالے سے غیر معمولی احتجاج بھی لازم ہے مگر ایسی فضاء پیدا کرنے سے یکسر گریز کیا جانا چاہیے کہ معاشرے میں سبھی ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا مل کر جس طرف ہانکیں اُس طرف چل نکلنے سے پہلے عوام کو کسی بھی بات کے سیاق و سباق پر تھوڑا بہت غور بھی کرنا چاہیے۔ بہ صورتِ دیگر بے ذہنی ہمیں قعرِ مذلّت میں گِراتی ہی رہے گی۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved