تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     17-01-2018

نواب جوگیزئی محفل کی کہانی

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خوراک نواب وزیر احمد خان جوگیزئی سے میری پہلی ملاقات بیس برس قبل سیکرٹری زراعت ڈاکٹر ظفر الطاف کے ہاں ہوئی تھی۔ وہ گندم کے حوالے سے ایک اجلاس میں شریک ہونے آئے تھے۔ بلوچستان میں گندم کی کمی تھی۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے بلوچستان میں لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے قہر سے ڈرو! ہمیں اب چاول کھانے پڑ رہے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف بلوچستان کے حقوق کے بڑے علمبردار تھے اور بلوچ پشتون کسانوں کیلئے وہ بڑے سے بڑے لوگوں سے ٹکرا جاتے تھے اور اس کی سزا بھی بھگتتے تھے۔ ایک دفعہ وزیر خزانہ شوکت عزیز سے ای سی سی کے اجلاس میں الجھ پڑے‘ جب وہ ایک سمری لے کر گئے اور شوکت عزیز نے ان کی سفارشات ماننے سے انکار کر دیا۔ سفارش یہ تھی کہ بلوچستان میں پیاز کے کسان لٹ رہے ہیں، حکومت پاسکو کے ذریعے غریب بلوچ اور پشتون کسانوں سے سارا پیار خرید لے۔ شوکت عزیز بولے: پھر پاسکو کہاں بیچے گی؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ حکومت کو نقصان نہ ہو لیکن ہزاروں کسان لٹ جائیں، وہ خیر ہے۔ پھر کہا: حکومتیں کاروبار نہیں کرتیں بلکہ اپنے شہریوں خصوصاً کمزور طبقات کا خیال رکھتی ہیں۔ شوکت عزیز نے ٹالنے کیلئے کہہ دیا کہ دیکھیں گے۔ اس پر ظفر الطاف بولے: آپ کو اپنے سیکرٹری پر اعتبار نہیں تو آپ کیلئے کوئی نجومی لے آئوں جو آپ کو یقین دلائے کہ بلوچستان کے کسان لٹ رہے ہیں اور انہیں ہماری فوری مدد کی ضرورت ہے؟ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب سیکرٹری کی سیٹ سے ہٹا دیئے گئے ۔
ان کا دفتر سندھ بلوچستان اور خبیر پختونخوا کے مظلوم لوگوں اور سیاستدانوں سے بھرا رہتا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ یہ وہ واحد پنجابی بیورو کریٹ ہے جو ان محروم قوموں کے حالات جانتا ہے، ان کے علاقوں کا دورہ کرتا ہے اور ان کیلئے لڑتا ہے۔ انہوں نے بلوچستان کے کسانوں کیلئے کئی منصوبے بنائے لیکن انہیں ہر دفعہ اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
بات نواب جوگیزئی سے شروع ہوئی تھی۔ نواب جوگیزئی جب اسلام آباد اجلاس میں شریک ہونے آتے تو ان کا ڈیرہ بھی ڈاکٹر صاحب کا دفتر ہوتا۔ مجھے پہلی نظر میں ہی نواب صاحب اچھے لگے تھے۔ انہیں بلوچ کسانوں کیلئے لڑتے دیکھ کر اچھا لگا تھا۔ وہیں ان سے احترام کا تعلق پیدا ہوا۔ اب وہ اسلام آباد میں خاموش زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے دستر خوان پر کمال روایتی بلوچی کھانے ملتے ہیں۔ وہ سب کو کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اسلام آباد کے چند صحافیوں کو بلاتے ہیں۔ ان کے ہاں سیاست اور سماج پر شاندار گفتگو ہوتی ہے۔ نواب صاحب ایک روایت پسند انسان ہیں‘ مروت سے بھرے ہوئے۔ اکثر خاموش ہو کر سب کو سنتے رہتے ہیں۔ انہیں ہرگز اپنے آپ کو سیانا یا محفل کا ہیرو ثابت کرنے کا شوق نہیں ہے لہٰذا وہ گفتگو میں کم ہی کسی کو ٹوکتے ہیں۔
پچھلے ویک اینڈ پر نواب صاحب نے چند صحافی دوستوں کو بلایا ہوا تھا۔ نصرت جاوید، رانا جواد، حامد میر، محمد مالک، نوید معراج، ملک منظور موجود تھے۔ محفل میں کچھ خاموشی خاموشی سی تھی۔ محمد مالک جب محفل میں ہوں تو جان رہتی ہے۔ محمد مالک کمال گفتگو کرتے ہیں۔ ان سے چھیڑ خانی چلتی رہتی ہے۔ عامر متین دیر سے آئے تو محفل کو خاموش دیکھ کر حیران ہوئے۔ بولے: کیا بات ہے شاہ جی (نصرت جاوید) کے ہوتے ہوئے بھی محفل بوریت کا شکار؟ نصرت جاوید پھر بھی خاموش رہے۔ پھر مالک اور عامر متین نے نصرت کے اندر کے روایتی لاہوری کو جگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ نصرت جاوید اس وقت گوتم بدھ لگ رہے تھے جو نروان کی تلاش میں برگد کے درخت کے نیچے آلتی پالتی مارے چلہ کاٹ رہا تھا۔ پھر عامر متین نے محفل کو گرمانے کا بیڑا خود اٹھا لیا اور ایسا اٹھایا کہ سب لوٹ پوٹ ہو گئے۔ لاہور سے تعلق رکھنے و الے دوستوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں حس ِمزاح بہت ہے۔ نصرت جاوید ہوں، مالک، رانا جواد، حامد میر یا عامر متین۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت جگت اور گفتگو۔ حامد میر نے کہا وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ اب صحافیوں کیلئے کسی محفل میں جانا مشکل ہو گیا ہے۔ وہ ایک دعوت سے ہوکر آئے تھے، بولے: وہاں آپ کسی ایک سیاستدان سے بات کر رہے ہوں تو دوسرا سیاستدان آپ سے اس لیے ہاتھ نہیں ملاتا کہ آپ اُس سیاستدان کے ساتھ بات کرتے ہیں جس سے اس کا شدید اختلاف ہے۔ انہوں نے دو تین نام بھی گنوائے جن کے ساتھ وہ کھڑے تھے تو دوسرے سیاستدانوں نے انہیں سلام تک نہ کیا۔حامد میر بولے: یہ حال اب صحافیوں کا بھی ہو چکا ہے کہ وہ بھی اب ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ میں چپ رہا ورنہ یہ کہنے کو دل چاہا کہ اگر ہم لوگ دوبارہ موٹر سائیکل پر سوار ہو جائیں اور اپنی محنت ختم کرکے‘ ان کے بچے جمورے بن جائیں تو آج ہی ہم ان کے ڈارلنگ بن جائیں گے۔ اب کیا کریں اگر کچھ لوگ زندگی میں اچھے مواقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے یا اپنی محنت کا زیادہ معاوضہ نہ لے سکے تو ہمارا کیا قصور؟ سب حسد ہے، جلن ہے۔ اس کا علاج خدا کرے تو کرے۔ 
نصرت جاوید اب بھی درویشی کے موڈ میں تھے۔ خاموش۔ جو ہم سب کیلئے حیرانی کی بات تھی۔ آخر عامر متین نے ہی انہیں دوبارہ چھیڑنے کی کوشش کی کہ شاہ جی کیا بات ہے؟ آپ بھی ارشد شریف کی طرح محفل میں خاموش رہتے ہیں لیکن جونہی کیمرہ آن ہوتا ہے‘ آپ بولنے لگتے ہیں۔ ارشد شریف کا یہی وتیرہ ہے، کسی محفل میں ہو گا تو گھنٹوں چپ رہے گا۔ کیمرہ آن ہوتے ہی سنبھالا نہیں جائے گا۔ عامر متین کہنے لگا: شاید کیمرے کے سامنے بولنے کے آپ سب کو پیسے ملتے ہیں لہٰذا محفل میں چپ رہتے ہیں کہ کیا مفت میں بات کریں۔ سب نے قہقہہ مارا۔
عامر متین، نصرت جاوید، شاہین صہبائی، ضیاء الدین صاحب، محمد مالک‘ ان سب نے اسلام آباد کی سیاست کو کئی دہائیوں سے بڑے قریب سے دیکھا اور رپورٹ کیا ہے۔ یہ اپنے اپنے اخبارات کیلئے پارلیمنٹ کی ڈائری لکھتے تھے۔ انگریزی جرنلزم کے یہ سب بڑے نام ۔ اردو میں پارلیمنٹ کی ڈائریاں شوق سے پڑھی جاتی تھیں وہ حامد میر اور خوشنود علی خان کی ہوتی تھیں۔ جن میں اندر کی خبریں اور پارلیمنٹ کا حال احوال ہوتا تھا۔ ان سب کی پارلیمنٹ ڈائریاں ایک طرح سے نشہ بن چکی تھیں۔ اسلام آباد میں انگریزی اخبارات کا انتظار اس لیے کیا جاتا تھا کہ اگلے دن شاہین صہبائی کی ڈائری پڑھنے کو ملے گی کہ انہوں نے کس کے پڑخچے اڑائے ہیں۔ اس طرح عامر متین، ضیاء الدین، محمد مالک اور نصرت جاوید کی تحریروں کا انتظار کیا جاتا تھا۔
سیاستدان پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں ڈیرہ جمائے رکھتے۔ ایک طرف حکمران جماعت کے وزیر اور ایم این ایز صحافیوں میں گھرے ہوتے تھے تو دوسری طرف اپوزیشن ممبران کے ہاں رش ہوتا۔ زیادہ رش اپوزیشن والوں کے پاس ہوتا۔ صحافیوں کی دوستیاں ہوتی تھیں لیکن ان بڑے صحافیوں سے کم ہی توقع ہوتی کہ وہ رعایت کریں گے۔ عامر متین تو اکثر شاہین صہبائی کے بارے کہتے ہیں کہ بڑے سیاستدان اور حکمران انہیں رات کو کھانے پر بلاتے۔ اپنے تئیں وہ سمجھتے انہوں نے شاہین صہبائی کو رام کر لیا ہے لیکن اگلے دن ان کی ڈائری میں سب سے زیادہ رگڑا اسی میزبان کو ملتا۔ یہ سب پرانے دوست‘ پرانے دنوں کی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کو یاد کرتے رہے۔ نصرت جاوید سب سے پرانے ہیں۔ وہ اگر کبھی اپنی یادوں کی کتاب لکھیں تو کیا کمال شاہکار وجود میں آئے گا۔ بولے: اب تو ٹی وی نے سب رومانس ختم کر دیا ہے۔ کوئی خبر اب خبر نہیں رہی۔ کہاں ڈائری اور کہاں سکینڈلز اور اندر کی خبروں کا انتظار۔
نواب جوگیزئی سے عامر متین نے ایک بات پوچھی۔ وہ اتنی نازک خبر تھی کہ میرا خیال تھا نواب صاحب اتنی بڑی محفل اور وہ بھی صحافیوں کی موجودگی میں‘ اس کی تصدیق نہیں کریں گے۔ عامر کا پورا سوال سن کر بولے: آپ کی اطلاع درست ہے لیکن اس میں کچھ مزید تفصیل یہ ہے۔ اگر میں ہوتا تو وہ سوال ٹال جاتا یا کم از کم تصدیق نہ کرتا لیکن نواب صاحب نے اس محفل میں بہت رسک لے کر بھی جھوٹ نہیں بولا۔ 
اسلام آباد میں اب ایسی محفلیں برپا کرنے والے چند ہی وضع دار لوگ بچے ہیں۔ نواب جوگیزئی کے علاوہ میجر عامر، عامر متین، سابق کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ اس مختصر فہرست میں شامل ہیں۔ کبھی ارشد شریف کا دستر خوان بھی بڑا ہوتا تھا، اب یا تو اس کے پاس وقت نہیں رہا یا پھر وہ حکومتوں سے لڑنے میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اب پرانے دوستوں کی محفلیں رچانا ہی بھول گیا ہے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved