تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-01-2018

سُرخیاں‘ متن اور شہزاد احمد

میرے شروع کئے گئے ترقیاتی کام شفاف 
انداز میں مکمل کئے جائیں : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میرے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبے شفاف انداز میں مکمل کئے جائیں‘‘ اگرچہ کافی سارا کام یہ منصوبے شروع ہوتے ہی کر لیا گیا تھا کیونکہ شفافیت وہی بہتر رہتی ہے جو شروع شروع میں کر لی جائے تاکہ باقی کام تسلی سے کروایا جا سکے لیکن اس کے باوجود جو تھوڑی بہت شفافیت رہ جاتی ہے وہ تکمیل کے دوران کی جا سکتی ہے کیونکہ شفافیت آخری ادائیگی تک برسرکار رہتی ہے کہ اس کے بغیر کام چل کیسے سکتا ہے‘ ہیں جی؟ جبکہ میں نے وزیراعظم کو بھی اس سلسلے میں خاص ہدایت کر دی ہے کیونکہ انہیں خود بھی شفافیت کا کافی تجربہ حاصل ہے اور ایل این جی کے معاملے میں وہ اس کا شاندار مظاہرہ بھی کر چکے ہیں اور بعض چُغل خوروں کی شکایت پر اس شفافیت کا اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے جس میں ہمارے بعض دیگر شرفاء بھی شامل تھے کیونکہ شفافیت ماشاء اللہ معاملہ ہی ایسا ہے کہ اس میں ہر کوئی حصہ ڈالنا عین سعادت سمجھتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک مشاورتی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
احتجاجی عناصر قوم کا وقت ضائع نہ کریں : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سازشی عناصر قوم کا وقت ضائع نہ کریں‘‘ کیونکہ قوم کے پاس اب وقت رہ ہی کتنا گیا ہے جو زیادہ سے زیادہ دوچار ہفتے ہی ہو گا کیونکہ اس کے بعد جو جھاڑو پھرنے والا ہے وہ سارا کوڑا کرکٹ صاف کر دے گا اس لیے براہ کرم باہر کی ہوا تھوڑی اور کمانے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''دیگر صوبوں میں بھی ہسپتال اور شہید بلاکس بننے چاہئیں‘‘ کیونکہ شہیدوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جن میں شہید بچے بطور خاص شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''زینب کے قاتلوں کو بلاتاخیر قانون کے شکنجے میں لایا جائے‘‘ اگرچہ قانون کا شکنجہ بہت کمزور اور ڈھیلا پڑ چکا ہے کیونکہ ساری پولیس تو قوم کے حکمرانوں کی سکیورٹی میں لگی رہتی ہے جو کہ سب سے زیادہ مقدم ہے کیونکہ اگر حکمران ہی نہ رہے تو قوم کہاں جائے گی اس لیے ہم خاکساروں کی سکیورٹی خود قوم کی سکیورٹی ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ آپ اگلے روز سروسز ہسپتال لاہور میں تعمیر ہونے والا غازی علم دین شہید بلاک کا افتتاح کر رہے تھے۔
میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی تشہیر کیخلاف
پالیسی موجود ہے : مریم اورنگزیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ'' میڈیا پر نفرت انگیز‘ فرقہ وارانہ مواد کی تشہیر کے خلاف پالیسی موجود ہے‘‘ صرف اس پر عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا کیونکہ پالیسی بنانا اور اس پر عمل پیرا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے اور اس طرح دیگر معاملات پر بھی پالیسیاں موجود ہیں لیکن اسی وجہ سے ان پر عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا جبکہ حکومت کو اپنے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی جو کہ بجائے خود ایک ہمہ وقتی کام ہے اور جس میں سے دیگر کاموں کے لیے وقت نکالنا جوئے شیر لانے سے کسی طور بھی کم نہیں ہے اور اہل ہنر اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسے پروگرامز کی اجازت نہیں دی جاتی جن سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہوں‘‘ کیونکہ حکومت کے اپنے پروگرام ہی ایسے ہیں جو معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات میں جوابات دے رہی تھیں۔
افغانستان میں پاکستان نہیں‘ بھارت ہے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''افغانستان میں پاکستان نہیں‘ بھارت ہے‘‘ اور افغانستان کی طرح وہ پاکستان میں بھی آ سکتا ہے اگرچہ ہمیں تو ہمارا حصہ ملتا ہی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے‘‘ اور خاکسار کو اس کا علم ساڑھے چار سال گزرنے کے بعد ہی ہوا ہے کیونکہ جب سے سابق وزیراعظم کا سایہ ہمارے سر سے جدا ہوا ہے‘ خارجہ پالیسی کا کہیں نام و نشان ہی نظر نہیں آتا جبکہ اس سے پہلے ہر طرف خارجہ پالیسی ہی نظر آتی تھی کیونکہ وزارت خارجہ اور دفاع کو سابق وزیراعظم خود چلا رہے تھے اور وہ چلتی نظر بھی آتی تھیں اور جن میں خاکسار کے بلامعاوضہ مشورے بھی شامل ہوا کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں‘‘ حالانکہ ایک موقعہ آیا تھا جب امریکہ وزیراعظم بنانے میں میری مدد کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''چین کی حمایت ایک طرف لیکن وہ پاکستان کے لیے گولی نہیں چلائے گا‘‘ اور یہ بات ایک استخارے کے دوران مُجھ پر منکشف ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو فرما رہے تھے۔
مُلک دلدل میں‘ ادارے نوازشریف کو روکنے میں لگے ہیں : اچکزئی
محمود خاں اچکزئی نے کہا ہے کہ ''مُلک دلدل میں ہے اور ادارے نوازشریف کو روکنے میں لگے ہیں‘‘ جبکہ یہ مُلک دلدل میں پھنسایا بھی نوازشریف ہی نے ہے اور اب اسے دلدل سے نکالنے لگا تھا کہ اداروں نے الٹا ایسے نکال باہر کیا جیسے مکھن میں سے بال نکالتے ہیں حالانکہ یہ بال مکھن میں اچھی طرح اپنے پائوں جمائے ہوئے تھا لیکن اداروں نے پائوں کی بجائے اُسے سارے کا سارا ہی نکال دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''داخلہ‘ خارجہ پالیسی میں ہمیں شریک نہیں کریں گے تو خرابی پیدا ہو گی‘‘ اگرچہ شامل کر لیں گے تو وہ اور طرح کی خرابی ہو گی جسے دُور کرنا کسی کے بھی اختیار میں نہیں رہے گا کیونکہ میرے خیالات عالیہ سے ہر کوئی اچھی طرح سے واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مُلک پر خطرے کے بدترین بادل منڈلا رہے ہیں‘‘ حالانکہ ملک اچھے بادلوں سے بھی خالی نہیں ہے جو صرف گرجتے ہی نہیں برستے بھی ہیں اور پھر کسی کو کہیں بھی پناہ نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ''اس طرح ملک کیسے چلے گا ‘‘حالانکہ اگر ہماری حکومت ہو تو یہ پڑے پڑے بھی چل سکتا ہے آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں حکومت کے پالیسی بیان کے بعد تقریر کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں شہزاد احمد کے دو شعر :
کون کہتا ہے کہ دریا میں روانی کم ہے
میں جہاں ڈوب رہا ہوں وہاں پانی کم ہے
دُور سے میں نے اُسے دیکھ کے پہچان لیا
اُس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا‘ کیسے ہو
آج کا مطلع
ہے نئی طرزِ فُغاں اور شور کرتا شور ہے
یہ بھی گویا میرے اندر سے گزرتا شور ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved