تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-01-2018

انکشاف

تاریخ بہرحال اپنے سینے میں کوئی راز بہت دن چھپا کر نہیں رکھتی۔ خلقِ خدا کو بہت دن دھوکے میں بھی رکھا نہیں جا سکتا۔ 
یقین تو اب تک مجھے بھی نہیں آ رہا مگر ذریعہ قابلِ اعتماد ہے۔ بدقسمتی سے ایک چھوٹی سی تکلیف نے آ لیا ہے۔ معمولی سی بیماری ہے‘ ڈاکٹر کا کہنا یہ ہے کہ دو تین دن میں نمٹ جائے گی۔ فی الحال سفر کے قابل نہیں‘ ورنہ پہلی پرواز سے کوئٹہ روانہ ہو جاتا۔ 
انکشاف اس قدر سنسنی خیز ہے کہ سیاسی حرکیات کا ادراک رکھنے والے اس قابلِ اعتماد دوست کی بجائے‘ برسوں سے جسے میں جانتا ہوں‘ کسی اور نے کیا ہوتا تو فوراً ہی میں مسترد کر دیتا۔ 
سب سے پہلے خواجہ سعد رفیق نے یہ بات کی تھی۔ شاید اس لیے نظر انداز کر دی گئی کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے پہ الزامات لگایا ہی کرتے ہیں۔ تین دن اِدھر‘ ان کا کہنا یہ تھا کہ بلوچستان کی بساط لپیٹنے میں‘ کرشمہ زرداری صاحب نے دکھایا ہے۔ پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ خواجہ سعد کی بات کو بعض اوقات سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں‘ حضرت‘ علامہ‘ ڈاکٹر‘ پروفیسر احسن اقبال نہیں۔ ایاز امیر کے بقول جو تجارتی راہ داری پر چینی افسروں کو لیکچر دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرسوں پرلے روز ایوان صدر میں ان کا خطاب سننے کی سعادت حاصل ہوئی تھی‘ اللہ کے فضل سے تکدر ابھی تک برقرار ہے۔ اگرچہ اس قدیم اصطلاح ''برخود غلط‘‘ کے معنی پوری طرح روشن ہو گئے۔ 
الزام کے مطابق‘ چونکا دینے والی اطلاع صرف یہ نہیں کہ زرداری صاحب نے‘ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی خریداری کی ہے۔ یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو سمیت کئی ارکان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا وعدہ کر چکے ہیں۔ بزنجو کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شامل ہو چکے۔ اعلان اس لیے نہیں کر رہے کہ ایسی صورت میں اپنی رکنیت برقرار نہ رکھ سکیںگے۔ ابھی ابھی کوئٹہ میں بات ہوئی تو کچھ اور ارکان کے نام بھی دوستوں نے بتائے۔ پوری طرح تصدیق کیوں کہ ہو نہ سکی اس لیے فی الحال خاموشی ہی بہتر ہے۔ بزنجو صاحب کا نام لیے بغیر کہانی لکھی جا سکتی تو اس سے بھی گریز ہی کیا جاتا۔
اگر یہ بات درست ہے تو زرداری صاحب‘ اپنی حریف (ن) لیگ سمیت بہت سے لوگوں کو اُلو بنانے میں کامیاب رہے۔ یہ بھی کہ عبدالقدوس بزنجو اور ان کے ساتھیوں نے کمال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ کسی ایک بھی فلم میں کام کئے بغیر‘ وہ سب کے سب آسکرایوارڈ کے مستحق ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ زرداری صاحب سے بزنجو کی ملاقاتیں‘ حب میں ہوئیںجو بلوچستان کا حصہ ہے‘ عملاً مگر کراچی کا۔ یہیں ان کا اچھا خاصا کاروبار ہے‘ جس کی نگرانی ان کے بھائی کرتے ہیں۔ ثناء اللہ زہری کے استعفے سے تین دن پہلے‘ ایک ٹی وی پروگرام میں حاصل بزنجو کے چہرے پر پھیلی ہوئی حیرت‘ اب یاد آتی ہے۔ بار بار وہ کہہ رہے تھے یہ سب کیسے ہو گیا۔ نون لیگ اچانک کیسے ٹوٹ گئی؟ آناً فاناً کئی سیاسی پارٹیاں کس طرح اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اچانک جمعیت علمائے اسلام اس قدر سرگرم کیوں ہوگئی۔ پھر یہ کہا کہ تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے امکانات نوے فیصد ہیں۔ ظاہر ہے کہ حاصل بزنجو کے ذرائع اخبار نویسوں کیا‘ بیشتر سیاست دانوں سے بھی بہتر تھے۔ وہ گھومنے پھرنے اور گھلنے ملنے والے آدمی ہیں۔ میں نے انہیں کبھی برہم ہوتے اور جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ جہاں دیدہ غوث بخش بزنجو کے فرزند ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی طرح ان کی بعض باتیں بھی‘ سوچ بچار کی مستحق ہوتی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اخبار نویس کی حیثیت سے‘ جتنا زیادہ میں اس موضوع پر سوچتا ہوں‘ اتنا ہی زیادہ شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ 
دو عدد فلسفے پیش کئے گئے۔ ایک یہ کہ وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری اور ان پر میاں محمد نوازشریف کی طرف سے مسلط کئے گئے حلیف‘ محمود اچکزئی سے ارکانِ اسمبلی بیزار تھے۔ اس قدر بیزار کہ عبدالقدوس بزنجو نے بغاوت کا عَلم بلند کیا تو بے دریغ ان کے ساتھ وہ شامل ہوگئے۔ کوئٹہ جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ بعض ممتاز شخصیات سے نیاز مندی بھی ہے۔ اپنی حد تک تو جانچ پڑتال کی اور اس پر یقین بھی آ گیا۔ 
ڈھکے چھپے انداز میں دوسرا موقف یہ تھا کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے۔ بہت غور کیا‘ بہت سوچا۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ خریداری اگر کرنی ہو تو بڑے پیمانے پر سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ ایک دو ارب روپے بلکہ شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اس طرح کا سرمایہ خاموشی سے کام کرنے والے غیرسیاسی لوگوں کے پاس نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس رائے کو مسترد کردیا۔ کوئٹہ جانا چاہیے تھا۔ زیادہ غور سے‘ زیادہ قریب سے چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ چونکا دینے والی بات یہ بھی تھی کہ سینیٹر عبدالقیوم سومرو کوئٹہ میں پائے گئے۔ وزیراعلیٰ کی گاڑی میں اگلی نشست پر۔ سومرو بہت ذہین آدمی ہے۔ زرداری صاحب کے دستِ راست‘ کسی متعین وجہ کے بغیر‘ وہ انگلی بھی کھڑی نہیں کرتے۔ عرفان صدیقی سبھی کو چکما دے جاتے‘ حتیٰ کہ میجر عامر کو مگر سومرو سے ان کے حصے میں فقط ایک ادھوری مسکراہٹ ہی آیا کرتی۔ ایسے موقع پہ لاہور والوں کا ایک محاورہ ہے ''سیر کو سوا سیر‘‘۔
اگر کھیلا تو زرداری صاحب نے اربوں روپے کا یہ جوا کیوں کھیلا؟ دینے والے اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ سینیٹ میں چیئرمین اور صدر پاکستان کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے۔ بے پناہ سرمایہ صرف کرکے زرداری صاحب قومی اسمبلی کی ساٹھ ستر سیٹیں جیت لینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ مرکز میں کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہ کر سکے گی۔ ان کے بغیر حکومت بنائی نہ جا سکے گی۔ یہ ان کے لیے سودے بازی کا وقت ہوگا۔ سندھ اور بلوچستان سے سینیٹ کی بیشتر سیٹیں جیت لینے کی صورت میںوہ ''ادی‘‘ کو صدر بنانا پسند کریں گے۔ چیئرمین سینیٹ کا اہم ترین منصب بھی۔ خواہ وہ رونے دھونے والے سینیٹر رضا ربانی کو سونپیں یا کسی اور کو۔ 
یہ کہانی لکھتے ہوئے بار بار سوچا کہ میں مغالطے کا شکار تو نہیں۔ معلومات فراہم کرنے والے میرے دوست دھوکے کا شکار تو نہیں ہوئے۔ سیاست میں بھی آخر False Flag Opration ہوتے ہیں۔ کام کوئی کر دکھاتا ہے‘ ذمہ داری کسی اور پہ آ پڑتی ہے۔ ذرائع کو اپنی صداقت پہ اصرار ہے؛ باایں ہمہ اگر ایسا ہے‘ حقائق اگر کچھ مختلف ہیں‘ کہانی اگر ادھوری ہے تو کوئی دن میں مکمل ہو جائے گی۔ پاکستان صحافت ایسی بھی بانجھ نہیں کہ سراغ ہی پا نہ سکے۔ پاکستانی سیاستدان اور دوسرے دانا‘ ایسے بھی دانا نہیں کہ مستقل طور پر خلقِ خدا کو فریب دے سکیں۔ 
اس علالت میں جو بیماری کم اور بوریت زیادہ ہے‘ آج فقط اپنی ناکردہ کاری کا اعتراف کرنا تھا‘ شرمندگی کا اظہار کرنا تھا۔ تاریخ بہرحال اپنے سینے میں کوئی راز بہت دن چھپا کر نہیں رکھتی۔ خلقِ خدا کو بہت دن دھوکے میں بھی رکھا نہیں جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved