حالیہ وزیر نجکاری دانیال عزیز نے دوسرے شعبوں کی طرح اپنی وزارت کے معاملات میں بھی میرے خیال میں اپنی ناسمجھی کا ہی اظہار کیا ہے۔ جرمن خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دانیال عزیز نے اچانک پھر سے پی آئی اے کی نجکاری کے منصو بے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسرے معاملات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بھی نواز شریف پر اس وقت اندر کا وار زیادہ کاری ہو سکتا ہے۔ 2016ء میں پی آئی اے کو جس نجکاری کے وار سے مالیاتی سرمائے کی بلی چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی اس سے پورے زمانے کے سامنے عیاں ہوگیا تھا کہ یہاں کا مزدور بھی جب بغاوت پر اترتا ہے تو حکمرانوں کے ہوش اڑا دیتا ہے۔ تمام پروازوں کو گرائونڈ اور ملک میں تمام فضائی سفر کو جام کر دیا گیا تھا۔ حکمرانوں نے مختلف ہتھکنڈوں سے ہڑتال تو چند روز بعد تڑوا دی لیکن اس ادارے کی نجکاری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب پھر ایسے وقت میں نجکاری کا اعلان کرنا جب حکومت لرز رہی ہے اور بقیہ پانچ ماہ کا عرصہ بھی پورا کرتی دکھائی نہیں دیتی، اس بوکھلاہٹ کی نشاندہی کرتا ہے جس کا دانیال عزیز اور ان جیسے دوسرے حکمران شکار ہوگئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ مروجہ سیاست میں ہر کوئی نجکاری کو ہی نسخۂ کیمیا قرار دیتا ہے، پھر بھی ایسا ممکن نہیں ہے کہ حکمرانوں کو محنت کشوں کی جانب سے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ میڈیا پر بہت شور مچا ہوا ہے کہ پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے ادارے ''سفید ہاتھی‘‘ ہیں جن سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 319 ارب روپے سے تجاور کرچکا ہے اور حکومت کو ہی یہ بھرنا ہو گا۔ سٹیل مل کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نجکاری سے یہ ادارے بحال نہیں ہوں گے بلکہ ٹوٹ کر بکھر جائیں گے اور اس میں سب سے زیادہ نقصان ان کے محنت کشوں کا ہو گا جن کو کم از کم مستقل روزگار کی کچھ مراعات تو حاصل ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان اداروں میں ایک طویل عرصے سے کی جانے والی بھرتیاں مستقل ملازمتوں میں شامل نہیں ہوتیں بلکہ یہ ٹھیکیداری پر رکھے جانے والے ڈیلی ویجز مزدور ہیں جن کو پنشن، علاج وغیرہ جیسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اجرت دی جاتی ہے۔ نہ ملازمت کا تحفظ حاصل ہے نہ زندگی گزارنے کی کوئی خوش آئند ضمانت۔ کم و بیش تمام سرکاری اداروں میں اب زیادہ تر بھرتیاں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ہی ہو رہی ہیں۔
عام طور نجکاری کے حق میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں سرفہرست یہی ہے کہ مزدور بہت کاہل، کام چور اور کرپٹ ہیں ۔ خسارے کی بڑی وجہ ان مزدوروں کی 'بھاری‘ اجرتیں بتائی جاتی ہیں ۔ لیکن حقیقی صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ پی آئی اے میں لوئر سٹاف کی اجرتیں پی آئی اے کی کل تنخواہوں کا صرف 18 فیصد بنتی ہیں جبکہ82 فیصد خطیر رقوم مینجمنٹ کے موٹے بیوروکرویٹوں پر خرچ ہوتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پی آئی اے کو چلاتے مزدور ہیں اور کمائی یہ منیجر اور پی آئی اے سے منسلک نجی کمپنیاں لے جاتی ہیں جن کو ادارے کے بہت سے شعبوں کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ پچھلے 40 برسوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ سماجی سہولیات، صنعت اور سروسز کے شعبوں کی نجکاری نے محنت کشوں کے مسائل کو گمبھیر کیا ہے۔ جبکہ ان نجکاریوں سے سرمایہ دار حکمرانوں نے بے پناہ مال بنایا ہے۔ سامراجی اجارہ داریوں نے ان اداروں کا خون پیاہے۔
اگر ہم پاکستان اور ہندوستان میں نجی اور سرکاری شعبے کی معیشت میں کارکردگی کا جائزہ لیں تو 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں صنعتی اور سروسز کے اداروں کی بڑی تعداد سرکاری تحویل میں تھی۔ نہرو حکومت کے دوران ہندوستان کی 74 فیصد معیشت سرکاری شعبے میں تھی۔ اسی طرح یہاں ایوب خان کے دور میں ہوا بازی، ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ سے لے کر بھاری صنعت تک میں سرکاری شعبے کی بھاری مداخلت تھی۔ جاپان اور کوریا وغیرہ کی طرح پاکستان میں بھی اس دور میں ہونے والی تیز صنعت کاری نجی شعبے کی بجائے ریاستی سرمایہ کاری کا نتیجہ تھی۔ اس وقت 'پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن‘ (PIDC) کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا تھا جس نے میری اطلاع کے مطابق سیمنٹ سے لے کر شوگر ملوں تک میں ریاستی سرمایہ کاری کروائی تھی۔ اسی کی بدولت 1960ء کی دہائی کے آخر میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نمو 9 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔ لیکن نجی شعبہ بھی ساتھ ساتھ قائم تھا اور چونکہ یہ حکومتیں سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندہ تھیں اس لئے سرکاری شعبہ بتدریج نجی شعبے کو سہارا اور تقویت دینے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو بڑے پیمانے ہونے والی نیشنلائزیشن سے مزدوروں کو جو حقوق اور معاشرے کو جو سہولیات ملنا شروع ہوئیں ان کے عوض سرمایہ داروں کے منافعوں اور سامراجی لوٹ کھسوٹ میںکمی واقع ہوئی جس کا انتقام بعد بھی بھٹو سے لیا گیا۔ قومیائی ہوئی صنعتوں اور اداروں کی نجکاری ضیا الحق نے شروع کی۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھٹو کی پالیسیوں کی بجائے ضیاالحق کی اقتصادی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ بھٹو حکومت کی غلطی یہ تھی کہ اس نے نجی شعبے کا مکمل خاتمہ نہیں کیا‘ اور سامراجی اجارہ داریوں سمیت بہت سی صنعتوں اور اداروں کو نجی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں رہنے دیا تھا۔ یوں انقلاب اصلاحات میں زائل ہو گیا۔ اس کے اثرات واضح طور پر سامنے نہ آ سکے۔ بھٹو نے اس خطا کا اعتراف اپنی آخری کتاب میں واضح طور پر کیا‘ لیکن بینظیر نے بھٹو کا مشن مکمل کرنے کی بجائے تھیچر کی نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے تحت وزارت نجکاری تک قائم کی۔ نوا ز شریف کی مسلم لیگ تو اپنے آغاز سے ہی سرمایہ دار طبقے کی پارٹی تھی لیکن مزدوروں کی پارٹی نے بھی سرمایہ داروں کی پالیسیاں جاری رکھ کر جو مایوسی اور بدگمانی محنت کش طبقات میں پھیلائی اس کا خمیازہ یہ معاشرہ آج تک بھگت رہا ہے۔
جوں جوں سرمایہ دارانہ منافع خوری کا بحران شدت اختیار کرتا گیا شرح منافع کے حصول کے لئے انہوں نے وہ شعبے اور صنعتیں بھی نجی شعبے میں منتقل کروا لیں جو ماضی میں سرکاری شعبے میں رہ کر نجی شعبے کو بنیادیں اور سہارے فراہم کرتی تھیں۔ ان میں علاج اور تعلیم کے شعبے سر فہرست ہیں۔ یہ ریاستی سرمایہ داری اور اصلاح پسندی کے تاریخی استراد کا ثبوت ہے۔ آج یہاں پانی سے لے کر صفائی اور نکاس تک کے شعبے مقامی اور سامراجی کارپوریشنوں کی منافع خوری کے لئے استعمال ہو رہے ہیں‘ لیکن ایک بحرانی سرمایہ دارانہ معیشت میں سرکاری شعبہ اور نیشنلائزیشن بھی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ آج سرمایہ داری میں اتنی جان ہی نہیں ہے کہ سرکار اِن اداروں کو کسی منصوبہ بندی کے تحت خسارے پر چلا سکے۔ لیکن نجی شعبے میں محنت کشوں کے لئے ٹھیکیداری کے استحصال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے بیروزگاری، غربت اور مہنگائی بڑھی ہے۔ یہ نظام اب جس مہلک بیماری کا شکار ہے اس میں چند صنعتوں اور شعبوں کی نیشنلائزیشن سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ محنت کشوں کو پوری معیشت کے جمہوری کنٹرول کی لڑائی لڑنا ہو گی تاکہ ذرائع پیداوار کو سرمایہ داروں کی منافع خوری کی بجائے عام انسانوں کی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکے۔