گذشتہ سے پیوستہ اتوار کو ہمارے ایک قومی انگریزی روزنامے میں ہمارے دوست شاعر اور نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے۔ اُنہیں میں نے بھارتی اس لیے نہیں لکھا کہ وہ بیک وقت بھارتی بھی ہیں اور پاکستانی بھی جیسے کہ دونوں ملکوں کے ادیب بھارتی بھی ہیں اور پاکستانی بھی۔ ملک یعنی برصغیر کو ہم تقسیم کر چکے ہیں جو ایک مجبوری بھی تھی اور بہتری بھی اُسی میں تھی۔ ادب کو ہم بھارتی اور پاکستانی میں تقسیم نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ایسا کرتے ہیں تو میرؔ اور غالبؔ سے لے کر اقبالؔ تک‘ سبھی بھارتی کہلائیں گے کہ وہ پیدا بھی بھارت میں ہوئے اور مرے بھی۔
باعث تحریر یہ ہے کہ جب اُن سے شاعری کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے چار پانچ نظم گوئوں کا نام لیا اور بس‘ حالانکہ پاک و ہند میں غزل پورے زوروشور سے کہی جا رہی ہے‘ نہ صرف یہ بلکہ ہمارا پورے کا پورا شعری اثاثہ غزل کی شکل میں ہے‘ چنانچہ غزل ایک صنف سخن ہی نہیں ہمارا کلچر بھی ہے‘ حتیٰ کہ شاعری میں ہاتھ سیدھے کرنے کے لیے بھی غزل ہی کا سہارا لیا جاتا ہے جبکہ پاک و ہند کی شاعری میں آج بھی 95 فیصد حصہ غزل کا ہے‘ اس لیے ہماری غزل کو اگر شاعری کی ماں کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا‘ جبکہ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ہماری شاعری میں کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔
شمیم حنفی صاحب سرحد پار کے ان چار پانچ نقادوں میں شامل ہیں جن کے لکھے ہوئے لفظ کو واقعی اہمیت حاصل ہے۔ اور ان کی طرف سے غزل کو اس طرح نظرانداز کرنا کچھ عجیب سا ہی لگتا ہے جبکہ وہ خود بھی غزل ہی لکھتے ہیں اور اُن کی نظم ہماری نظر سے کبھی نہیں گزری اور نہ ہی اس کا ذکر اذکار کہیں سُننے میں آیا ہے بلکہ پورے بھارت کے مشاعروں پر بھی غزل ہی چھائی نظر آتی ہے‘ اس لیے بھی کہ غزل ہمارے خون میں رس بس چُکی ہے اور اس تناظر میں ڈاکٹر صاحب کا غزل کو اس طرح نظرانداز کرنا کچھ اچھا نہیں لگا کیونکہ سوال اُن سے شاعری کے بارے میں کیا گیا تھا‘ نظم یا غزل کے حوالے سے نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ غزل ان کے معیار کے مطابق نہ لکھی جا رہی ہو تو اس صورت میں بھی غزل کو گول ہی کر جانے کی بجائے وہ غزل پر اپنی مایوسی کا اظہار کر سکتے تھے۔ یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے غزل کے حوالے سے میرا نام کیوں نہیں لیا‘ بلکہ انہوں نے تو کسی بھی غزل گو کا نام نہیں لیا۔ میرے بارے میں تو وہ اپنی رائے کا اظہار اپنے مضمون بعنوان ''عجب نہیں کہ ترا چاند ہے ستارہ مجھے‘‘ میں کھُل کر کہہ چکے ہیں جس کا اختتامیہ اس طرح سے ہے :
''اپنی قوت ایجاد کے معاملے میں وہ غالبؔ کے بعد ہمارے سب سے زیادہ جاذب نظر غزل گو ہیں۔ صرف معمولات اور تجربے یا اظہار کے متوقع منطقوں پر قناعت کے نتیجے میں اچھے شعرخواہ کہہ لیے جائیں‘ مگر انہیں غیر معمولی اور ہماری حیرتوں کو جگانے والی شاعری کے دائرے میں جگہ شاید کبھی نہیں مل سکے گی۔ اس سطح پر ظفر اقبال اپنے تمام معاصرین سے آگے ہیں‘‘۔
اب اس سے بڑھ کر کوئی اور کیا کہے گا۔ یہ نظم کے خلاف کسی بُغض یا مقابلے کی بھی بات نہیں ہے۔ خود میں نے کتاب بھر نظمیں کہہ رکھی ہیں بلکہ یہ غزل اور نظم کا کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ‘ اور بھی کسی حد تک اسے غزل گو اور نظم گو کا مقابلہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ نظم اور غزل کے ایک دوسری سے آگے بڑھنے کی خواہش اور کوشش بجائے خود دونوں کے حق میں جاتی ہے‘ بلکہ میں تو نثر ی نظم کے بھی حق میں ہوں اور اپنے مضامین میں اس کا اظہار بھی کر چکا ہوں!
حق تو یہ ہے کہ غزل گوئوں ہی نے نظم کو گلے سے لگایا جو کبھی آزاد تھی اور کبھی نثری۔ ہماری نظم کی روایت تو ایک طرح سے اقبال کے بعد کہیں نظر نہیں آتی یعنی مختصر اضافے کی طرح یہ بھی درآمدی تحفے ہیں اور براہ راست مغرب سے آئے ہیں۔ سو‘ مغرب والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو سراسر ہماری نظم ہے‘ آپ کی نظم کہاں ہے؟ لیکن یہ طعنہ بھی ہمیں نظم سے دُور نہیں لے جا سکتا۔ اس کے ذریعے شاعر کو کھُل کر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا موقعہ ملتا ہے جو غزل جیسی تنگ نائے کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ میں نے ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ غزل دل کی شاعری ہے جبکہ نظم میں دل اور دماغ دونوں کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ تاہم‘ یہ بھی ہے کہ نظم اور بالخصوص نثری نظم کو ابھی تک‘ چند اور محض چند‘مستثنیات کو چھوڑ کر کوئی جینوئن اور بڑا شاعر دستیاب نہیں ہوا ہے اور اسے اپنی پہچان بنانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا‘ اور یہ اُس جانب رواں دواں بھی ہے۔
سو‘ غزل اساسی طور پر محبت کی شاعری ہے‘ اور جب تک لوگ عشق و محبت میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ غزل بھی کہی جاتی رہے گی۔
سو‘ غزل کو نظرانداز کرنے یا اسے جلی کٹی سُنانے سے نظم کا بھلا نہیں ہو گا کہ غزل اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور نظم کو بھی اپنے پر کھڑا ہونے دیا جائے۔ ہمارے ایک کرم فرما ستیہ پال آنند جہاں بھی جائیں اپنی گفتگو کا آغاز ہی اس طرح سے کرتے ہیں کہ میں غزل کا مخالف ہوں اور اس طرح وہ (بھی) غزل کو زندہ رکھے ہوئے ہیں‘ خود ڈھیروں غزلیں کہہ بھی رکھی ہیں اور اب بھی یہ گناہِ عظیم ترک نہیں کیا ہے۔
غزل کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا ہر شعر ایک مکمل نظم کی حیثیت رکھتا ہے اور غزل میں اگر خوشعر ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک آدھ قاری کے ڈھب کا بھی نکل آئے جبکہ نظم میں یہ سہولت نہیں ہے قاری کو اسے پوری کی پوری پڑھنے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے اور مایوسی کی صورت میں اسے ضیاع وقت کا نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے جبکہ غزل کا مطلع پڑھ کر ہی آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ غزل آپ کو پڑھنی ہے یا نہیں‘ چنانچہ اس کی ایک اور خُوبی اس کا اختصار بھی ہے۔ مختصر نظم بھی جو صحیح معنوں میں مختصر ہو قاری کو نسبتاً زیادہ پسند آتی ہے۔ مُنیر نیازی اور علی محمد فرشی کی‘ خاص طور پر ابتدائی نظمیں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ غزل کی مخالفت کی بات اگر ہوتی ہے تو صرف نظم گوئوں کی طرف سے‘ جبکہ کسی غزل گو کو نظم کے خلاف بات کرتے نہیں دیکھا گیا۔ اسے غزل گوئوں کی خوداعتمادی کا بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ غزل کا ماحول اور فضا نظم کے قریب آتی جا رہی ہے اور اس کا مطلب بھی ہم وجودیت ہے‘ لڑائی جھگڑا نہیں اور حق تو یہ ہے کہ میری جانب سے غزل کے اس دفاع کی غزل کو ضرورت بھی نہیں تھی بلکہ اسے اپنے دوست شمیم حنفی کے لیے ایک یاددہانی ہی سمجھا جائے!!
آج کامطلع
عزت وہ کیا کرائیں گے عزت کئے بغیر
پھل کھانا چاہتے ہیں جو محنت کئے بغیر