تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-01-2018

’’ریسکیو کامیڈی‘‘

بیشتر معاملات میں پورے خطے کی اجتماعی نفسیات بہت حد تک ایک ہے۔ سرکاری مال کو شیرِ مادر سمجھ کر پی جانے کی ''تابندہ روایت‘‘ ہمارے ہاں بھی موجود ہے اور پڑوس میں بھی۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور خطے کے دیگر ممالک میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور پایا جاتا ہوگا تاہم پاکستان اور بھارت میں مزاج کی یکسانیت اِس قدر ہے کہ حدِ فاصل کھینچنا کبھی کبھی انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ 
سرکار کی ملکیت والی ہر چیز کو ہمارے ہاں بھی عوام باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں اور بھارت میں معاملہ زیادہ مختلف نہیں۔ ہماری طرح وہاں بھی جو ادارے عوام کی خدمت کے لیے قائم کیے جاتے ہیں وہ بالآخر ایسی حالت کو پہنچا دیئے جاتے ہیں کہ عوام کے تلوے چاٹنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا!
بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہاں ایک سال قبل عوام کی خدمت کے لیے U.P.100 کے نام سے ایک ریسکیو سروس شروع کی گئی تھی۔ کسی بھی ہنگامی حالت میں عوام کی مدد کے لیے تیار رہنے والی خصوصی پولیس فورس نے ایک سال کے دوران عوام کی بھرپور مدد کی ہے۔ یہ تو ہوئی معمول کی بات ہے۔ غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس ریسکیو سروس کو عوام نے اپنے ذاتی مقاصد یا مفادات کے لیے بھی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ 
عوام کو سہولت یہ دی گئی تھی کہ وہ کسی بھی ہنگامی حالت میں بلا جھجھک اس ریسکیو سروس کو فون کریں اور اپنی الجھن دور کرنے میں فوری مدد پائیں۔ بس، انگلی تھمانے کی دیر تھی۔ عوام نے پہنچا تھام لیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ خصوصی فورس کے قیام کے اغراض و مقاصد تو ایک طرف رہ گئے اور لوگوں کی فرمائشیں پوری کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 
ایک سال کے دوران ریسکیو سروس سے رابطہ کرنے والوں نے جو مسائل بیان کیے اُن کا ریکارڈ رکھا جاتا رہا ہے۔ اب یہ ریکارڈ سامنے آیا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کسی بھی معاملے میں کس طور حد سے گزر جاتے ہیں۔ ابتداء میں ریسکیو سروس والوں میں غیر معمولی جوش و خروش اور خدمت کا جذبہ تھا۔ ''تم نے پکارا اور ہم چلے آئے‘‘ کی تصویر بنے وہ لپک لپک کر عوام کی مدد کرتے رہے۔ عوام نے جب دیکھا کہ مفت میں ''خدّام‘‘ ہاتھ آئے ہیں تو کیوں نہ کھل کر خدمت لی جائے۔ اور ویسے بھی انہیں تنخواہ عوام کے پیسوں سے ادا کی جاتی ہے یعنی وہ عوام کی خدمت کے پابند ہیں! 
اب جبکہ اتر پردیش کی ریسکیو سروس نے ایک سال کے دوران درج کرائی جانے والی شکایات کا ریکارڈ طشت از بام کیا ہے تو کچھ اندازہ ہوا ہے کہ لوگوں نے اپنی مشکلات بیان کرنے کے معاملے میں بھی کیسی کیسی کامیڈی فرمائی ہے! آئیے، U.P.100 کے کھاتے میں ڈالی جانے والی چند کامیڈی آمیز شکایات کا جائزہ لیں۔ 
ایک صاحب نے صبح کے لمحات میں شکایت درج کرائی کہ اُن کی بیگم چائے بناکر نہیں دے رہیں! ریسکیو والے حیران تو ہوئے مگر خیر پریشان حال شہری کی مدد کو پہنچے، خاتون خانہ کا غصہ ٹھنڈا کیا، میاں بیوی میں صلح کرائی، بیوی کے ہاتھوں شوہر کو چائے پلوائی اور خود بھی چائے پانی کی منزل تک پہنچے! 
ایک اور صاحب نے فون کرکے بتایا کہ اُن کی بیگم سوتے وقت دروازہ کھلا رکھتی ہیں۔ استفسار کیے جانے پر اُن صاحب نے بتایا کہ بیگم کو سوتے میں چلنے کی بیماری ہے۔ کہا گیا کہ دروازہ آپ خود بند کردیا کریں۔ انہوں نے کہا نہیں کرسکتا کیونکہ جاگنے پر وہ پٹائی کریں گی! اب چونکہ ایک شریف آدمی کو پٹائی سے بچانا لازم تھا اس لیے ریسیکو ٹیم بتائے ہوئے مقام پر پہنچی اور محترمہ کا ضمیر بیدار کرتے ہوئے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ دروازہ بند کرکے سویا کریں گی! 
ایک صاحب نے ریسکیو سروس کو بتایا کہ بھینس گھر کی چھت پر چڑھ گئی ہے، اُسے اتارنے میں مدد کی جائے! اہلکار پریشان ہوگئے کہ اب کیا سرکاری مشینری سے بھینسیں اتارنے کا کام بھی لیا جائے گا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ چارا دکھاکر بھینس کو نیچے لے آئیے۔ شکایت کنندہ نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ بھینس کو مارا تھا اس لیے اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے! چارا دکھانے پر وہ چارا کھانے کے بجائے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے! خیر، اہلکار پہنچے اور سنگ دل محبوب نما بھینس کو کسی نہ کسی طرح مناکر نیچے لائے! 
ایک بار فون آیا کہ خاتون خانہ نے لوٹے اور تھالی کو بجا بجاکر پورا گھر سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بچوں کو بھی سونے نہیں دے رہیں۔ اہلکار بتائے ہوئے پتے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر میں جھگڑا ہوا تھا اور خاتون خانہ نے شوہر کو سزا دینے کے لیے یہ انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ خیر، کسی طور خاتون کو بہلا پھسلاکر شوہر سے صلح پر آمادہ کیا تاکہ شور و غل کا ماحول ختم ہو اور بچوں سمیت گھر کے تمام افراد (اور اہل محلّہ) سکون سے سوسکیں۔ 
معاملہ بھینس تک محدود نہیں رہا۔ ایک صاحب نے فون کرکے فرمائش کی کہ فوراً آکر ایک بندر کو سزا دی جائے۔ استفسار کیا گیا کہ ایسا کیوں ضروری ہے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مندر میں گئے تھے۔ وہاں فرش پر کیلوں کا گچّھا پڑا تھا۔ انہوں نے سوچا اس میں سے دو کیلے توڑ لیں تاکہ اہل خانہ کو بھگوان کے پرساد کے روپ میں پیش کریں۔ ابھی انہوں نے کیلوں کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ایک بڑا بندر کہیں سے آیا اور پہلے ان کی پتلون کھینچی، پھر کئی تھپڑ رسید کرکے کیلوں کا گچّھا دبوچ کر چمپت ہوگیا۔ اہلکاروں نے اُن کی رام کہانی سُن کر کہا کہ اب ہم کیا کرسکتے ہیں تو وہ صاحب برہم ہوکر بولے ''ایک بندر نے انسان کو تھپڑ مار کر اُس کی عزت مٹی میں ملادی اور آپ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں! کیا اب انسانوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا کرے گا؟‘‘ 
سنا ہے ریڈیو کے فرمائشی پروگرام ٹائپ کی اس ریسکیو سروس سے اتر پردیش کی وکیل برادری بہت نالاں ہے۔ اُس کا استدلال ہے کہ یہ سروس اپنے فرائضِ منصبی تو ادا کر نہیں رہی اور میاں بیوی کے جھگڑے ختم کراتی پھر رہی ہے۔ وکیل برادری کا استدلال ہے کہ اگر یہی حال رہا یعنی ریسکیو اہلکار میاں بیوی کے درمیان صلح کرواکر گھریلو ماحول خوشگوار بناتے رہے تو فیملی کورٹس بند کرنا پڑیں گی! بات تو ٹھیک ہے۔ یہ تو وکیل برادری کے پیٹ پر لات مارنے والی بات ہوئی، عدالتیں بند ہونے پر تو جج برادری کے پیٹ پر بھی لات پڑسکتی ہے! 
مگر لوگ بھی کیا کریں؟ ریسکیو سروس مشکل سے چھڑانے کے لیے ہوتی ہے نا۔ بس، لوگ بھی مشکل میں پڑتے ہی فون کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ریسکیو سروس والے بھی یہ سوچ کر مطمئن رہتے ہوں گے کہ چلو، فارغ تو نہیں بیٹھنا پڑ رہا، کچھ کام تو مل رہا ہے۔ اور کہیں کہیں مٹھائی اور ناشتہ پانی بھی مل جاتا ہے! اِسے کہتے ہیں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved