پاکستانی پارلیمنٹ نے عمران خان کے خلاف قرارداد پاس کر کے‘ عوامی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے غریبوں کی آمدنی پر لات مارنے کی جو کوشش کی ہے‘ وہ ایک عوامی لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ عمران اگر کبھی الیکشن جیت کر بھاری اکثریت سے پارلیمنٹ میں اپنے نمائندے لے آئے تو پھر جو قراردادیں وہ پاس کرائیں گے‘ ان میں تو بچے بچائے غریب بھی مارے جائیں گے۔ ایک اہم پریس کانفرنس میں خان صاحب نے غریبوں کی آمدنی کی سراغ رسانی کر کے‘ ان کی رہی سہی آمدنی پر بھی لات مارنے کی کوشش کی ہے اور بے چارے خواجہ آصف کی پارٹ ٹائم آمدنی پر ایک ہی لات مار کے‘ ان کے کروڑوں روپے کے اثاثوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پہلے آپ غریبوں کی اس آمدنی کا مطالعہ کر لیں‘ جس کا خان صاحب نے انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے پنجاب پولیس پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے سابق وزیراعظم کی محبت میں‘ ان کی کروڑوں روپے کی دولت کا انتہائی ایمانداری سے تحفظ کیا۔ کانسٹیبل حنیف خان نے چار کروڑ بطور امانت رکھ کر ایک خوش حال شخصیت کو ایمانداری کے ساتھ پہنچا دئیے۔ اسی طرح عبدالرزاق کانسٹیبل نے پونے چار کروڑ روپے کی دولت‘ اپنے غریبانہ گھر میں محفوظ رکھی۔ رات رات بھر سردی‘ گرمی میں دولت کی حفاظت کی۔ گرمیوں کی دھوپ میں دروازے پر کھڑے ہو کر پہرہ دیا۔ اہل محلہ حیران تھے کہ یہ شخص سارا سارا دن اپنے گھر کا پہرہ دیتا ہے‘ نوکری کب کرتا ہو گا؟ خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی پولیس کے کانسٹیبل بھی چار چار کروڑ کی رقم کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے بچوں پر ایک پیسہ خرچ نہیں کرتے۔ ایک ڈرائیور پنوں ہے‘ جو پانچ کروڑ روپے کی حفاظت کرتا ہے۔ اتنی بھاری رقم کو اپنے پاس رکھ کر اس کے پیٹ میں درد ہو گیا۔ بار بار بیت الخلا جاتا اور جاتے ہوئے اپنے گھر میں کسی کو نہیں بتاتا تھا کہ بڑا سا جو شاپر باہر رکھا ہے‘ اس کے اندر کیا ہے؟ وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی بڑی رقم اپنے پاس رکھ کر وہ کتنے بڑے عذاب سے گزر رہا ہے۔ صحت اس کی خراب ہو گئی۔ بار بار بیت الخلا کے طوفانی دورے اسے کرنا پڑتے۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ بچوں کے لئے گوشت لے آئے لیکن پھر طاقتور مالک کا خوف اسے روک دیتا۔ ہماری پولیس کو قدرت نے کتنا مضبوط اور نا قابل شکست صبر دیا ہے؟
ایک اور اللہ کا بندہ‘ ندیم سرور کانسٹیبل بھی ہے‘ جسے کروڑوں میں رقم ملتی ہے۔ وہ اسے بحفاظت رکھتا ہے اور پھر اپنے مہربان مالک کو پہنچا دیتا ہے۔
عمران خان نے تہمت لگائی کہ یہ وہ رقم ہے‘ جو پہلے باہر جاتی ہے۔ اس کے بعد پولیس کانسٹیبلز کے نام سے پاکستان آ جاتی ہے۔ یہ پولیس والے اپنے باس کے کتنے وفادار ہیں کہ ان کے بچے بددعائیں دیتے ہیں۔ بچے بڑے شریر ہوتے ہیں۔ وہ گھر میں چھپائی گئی رقم پر نظریں گاڑ کے اندازہ کر لیتے ہیں کہ گھر میں کتنی دولت پڑی ہے؟ بچوں کو بھی پتا ہے کہ عوامی خدمت گار جتنی دولت غریبوں پر لگاتے ہیں‘ وہ ایمانداری سے ''مہربانوں‘‘ تک پہنچا دی جاتی ہے۔ پولیس کے ایک سپاہی سے زیادہ ایماندار کون ہو سکتا ہے؟ اچھے بھلے کھاتے پیتے آدمی کو بھی بغیر کسی رسید اور ریکارڈ کے کروڑوں روپے دے دئیے جاتے ہیں اور وہ ایک روپے کی خیانت کئے بغیر بھی رقم ''مہربانوں‘‘ تک پہنچا دیتا ہے۔
میاں نواز شریف صرف غریبوں کا ہی نہیں‘ اپنے وفادار ساتھیوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ‘ خواجہ آصف اپنے سرکاری منصب سے زیادہ رقم نہیں لے سکتے۔ بطور وزیر ان کی تنخواہ کم ہے لیکن اخراجات ضرورت سے کچھ زیادہ ہیں۔ ایک سابق خاتون رکن قومی اسمبلی کا خواجہ صاحب بہت خیال رکھتے ہیں۔ انہیں اسلام آباد کے ایک فارم ہائوس میں گزر اوقات کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ باورچی‘ گھریلو خدمات فراہم کرنے والے ملازمین اور گالف گرائونڈ کی دیکھ بھال کے لئے مالی موجود ہیں۔ ایک وزیر کے لئے محض تنخواہ میں اپنے اخراجات پورے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بندہ یا تو شریف ہو اور شرافت کے ساتھ دولت مند بھی۔ دولت مندی انسان کو اسمبلی کی رکنیت اور وزارتوں تک پہنچا دیتی ہے۔ خواجہ آصف صرف وزیر خارجہ ہیں۔ انہیں دبئی کی ایک کمپنی میں پورا کام کرنا پڑتا ہے۔ پانچ دنوں میں روزانہ 8 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب کو بیگم کے نام بھاری رقم امریکہ بھیجنا ہوتی ہے۔ آپ ہی سوچئے کہ جس شخص کو امریکہ میں اپنی بیوی کے لئے پورا بنگلہ لینا پڑتا ہو، امریکی ملازمین گھریلو خدمات کے لئے رکھے گئے ہوں تو ہمارا ایک معمولی سا وزیر‘ یہ سارے اخراجات کیسے پورے کر سکتا ہے؟ عمران خان نے خواہ مخواہ ہمارے وزیر خارجہ پر ''گھٹیا‘‘ الزام لگائے۔ اس سے اچھے الزام تو انہوں نے نااہل وزیراعظم‘ نواز شریف اور ان کے خاندان پر لگائے ہیں۔ بڑا عہدہ، بڑے محلات۔ پورے پورے ہوائی جہاز میں روز مرہ کی ٹریولنگ اور فراخ دلی کا یہ عالم کہ بڑے بڑے وکیلوں کو بھاری فیسیں دینا پڑیں تو ہمارے نااہل وزیراعظم کو میڈیا کے سامنے وکلا کی شکایت کرنا پڑتی ہے۔ 60,70 ارب روپے میں سے وکیلوں کی فیسیں زیادہ سے زیادہ دوچار کروڑ ہو سکتی ہیں۔ آخر ہمارے نااہل وزیراعظم کی بھی کوئی عزت ہے، کوئی رتبہ ہے، کوئی وقار ہے، کوئی شہرت ہے، وکیلوں کو چاہئے تھا کہ ان سے فیس ہی نہ لیتے۔ بھاری فیسیں دینے کا صدمہ ہمارے نااہل وزیراعظم ابھی تک فراموش نہیں کر پائے۔