شاعر خُدا جانے کِس دُنیا کی مخلوق ہیں اور کِس عالم میں رہتے ہیں۔ خود چاہے بے راہ رَوی کا شکار ہوں مگر، ’’از خود نوٹس‘‘ کے تحت، قوم کو راہ دِکھانا اپنا فریضہ گردانتے ہیں! منزل تک جانے والی راہ پر چلنا یا نہ چلنا قوم پر منحصر ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شاعر راہ دِکھاتا ہے اور قوم ٹھینگا! یہ تو شُعراء کا احسان ہے کہ دور و نزدیک کے رشتہ داروں کی طرح قوم کے کِسی بھی رویّے کا بُرا نہیں مانتے اور راہ نُمائی کا فریضہ ترک نہیں کرتے! آں جہانی برج نرائن چکبستؔ نے کہا تھا ؎ یہ سَودا زندگی کا ہے کہ غم اِنسان سہتا ہے وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مَر جانا! سَمجھانا اُن کا کام تھا اور نہ سمجھنا اہلِ وطن کا! شاعر کا خیال یہ تھا کہ اِنسان غم اُسی وقت سہتا ہے جب زندگی کا سَودا سَر میں سمایا ہوا ہو۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو جینے سے بہت آسان مَر جانا ہے۔ چکبستؔ تو یہ کہہ کر پرلوک سِدھار گئے مگر قوم کا پرنالہ وہیں بہتا رہا۔ کیسا سَودا، کہاں کا سَودا؟ زندگی کا سَودا سَروں میں سمایا بھی نہیں اور سانسوں کا تسلسل بھی برقرار رہا! زندگی کی جو شرط چکبستؔ نے بیان کی تھی وہ آج بھی جُوں کی تُوں ہے۔ لوگ شرط پوری کیے بغیر بھی جی رہے ہیں۔ زندگی سے محبت کیے بغیر مَر جانے کو آسان چکبستؔ نے جانا ہوگا، اُن کے کلام سے فیض یاب ہونے والوں نے نہیں! شُعراء خدا جانے کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔ اگر سب اُن کی باتوں پر چلیں تو دُنیا کا چلنا محال ہو جائے! چکبستؔ کے مقابلے میں آں جہانی نریش کمار شادؔ نے ایسا مشورہ دیا جو آسانی سے اپنایا جاسکتا تھا اور اپنایا گیا۔ شادؔ فرماتے ہیں ؎ اے ہم نشیں! اذیّتِ فرزانگی نہ پوچھ جس میں ذرا بھی عقل تھی، دیوانہ ہوگیا! اِسے کہتے ہیں روانی ہی روانی میں حرفِ آخر کہہ جانا، حتمی تصویر کھینچ کر قلم توڑ دینا! کون ہے جو اپنے ذہن کے ناتواں کاندھوں پر زندگی بھر عقل اور شعور کا بوجھ اُٹھاتا پھرے؟ مرتے دم تک پوری آگہی کے ساتھ دن کو رات اور رات کو دن کرنے کا کِس کو یارا ہے؟ کم ہی ہیں جن کے سَر میں یہ سَودا سماتا ہے۔ صَد شُکر کہ نریش کمار شادؔ کے مشورے کی روشنی میں ہم میں سے بہتوں کو عقل آگئی ہے یعنی عقل سے کام لینا ترک کرچکے ہیں! زمانے کی روش دیکھتے ہوئے خود کو بدلنے والوں یعنی عقل سے کام نہ لینے کا مُصمّم اِرادہ کرنے والوں میں ہمارے احباب بھی شامل ہیں اور اِن میں مرزا تنقید بیگ نمایاں ہیں۔ میڈیا کی ترقی نے اِنہیں اور کچھ سکھایا ہو یا نہ سکھایا ہو، عقل کو سات سلام کرکے سُکون سے زندگی بسر کرنے کا ہُنر بخوبی سکھا دیا ہے! ویسے مرزا نے زندگی کے کِسی بھی دَور میں اپنے ذہن کو کبھی زیادہ تکلیف نہیں دی۔ شادی کے بعد سے، یعنی یہی کوئی چالیس سال سے (!)، مرزا نے سوچنے کا کام پُورا کا پُورا اہلیہ پر چھوڑ رکھا ہے! اِس بات کو تھوڑی سی حقیقت پسندی سے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی دن بعد سے گھر کے تمام فیصلے اہلیہ کرتی آئی ہیں یا یہ کہ ازواجی زندگی کی ہَما ہَمی نے مرزا کو سوچنے کے قابل چھوڑا ہی نہیں! مرزا کو ہم نے بیشتر معاملات میں انتہائی مُشکل فیصلے خاصی آسانی سے کرتے دیکھا ہے۔ آپ سوچیں گے اِس کا راز کیا ہے۔ راز واز کیسا؟ بات یہ ہے کہ مرزا دِماغ کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال سے گریز کرتے ہیں اور فیصلے کر گزرتے ہیں! ’’راسخ النتیجہ‘‘ مسلمان ہیں یعنی کچھ بھی کر جاتے ہیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں! لُطف دیکھیے کہ بالعموم بھنور سے صاف نکل آتے ہیں۔ یعنی قدرت بھی اُنہیں سوچنے کی طرف آنے کی تحریک نہ دینے پر تُلی ہوئی ہے! ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، ذہن استعمال نہ کرنے والوں کو خاصے سُکون سے زندگی بسر کرتے دیکھا ہے! سرکاری دفاتر میں ذہن کے عدم استعمال کے خوشگوار نتائج کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے! سرکاری ملازمین کے معمولات پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ اُن کی زندگی میں کِس قدر سُکون اور توازن ہے۔ جو ذہن پر زور نہیں دیتے اُنہیں فُرصت کے لمحات خوب میسر آتے ہیں۔ وہ ماحول سے معقول حد تک محظوظ بھی ہوتے ہیں اور محفوظ بھی رہتے ہیں! ہماری ریاستی مشینری بھی کچھ اِس نوعیت کی ہے کہ جو ذہن کو بہتر انداز سے استعمال نہ کر پائیں اُنہیں مایوسی کے گڑھے میں گِرنے سے صاف بچالیتی ہے۔ اگر کوئی کچھ نہ کر پائے، ذہن کو ذرا بھی حرکت نہ دے پائے تو ہرگز نہ گھبرائے کہ کم از کم سرکاری اسکول ٹیچر بننا تو اُس کا استحقاق ہے! اور بعض حالات میں تو یہ فرض کے مساوی ہے! آسانی یہ ہے کہ ناقص کارکردگی کی صورت میں رپورٹ کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ معصوم بچے بے چارے کہاں سمجھ پاتے ہیں کہ اُنہیں جو کچھ پڑھایا جانا چاہیے وہ پڑھایا جارہا ہے یا نہیں! ع جو مل گیا اُسی کو مُقدّر سمجھ لیا! میرزا نوشہ کو بھی بہتر اور پُرسُکون زندگی کے نُسخے سُجھانے میں کمال حاصل تھا۔ فرماتے ہیں ؎ بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے! مفہوم یہ ہے کہ جب زندگی بسر کرنے کے معاملے میں کچھ نہ بن پڑے تو فرزانگی ترک کیجیے اور بے خودی کو گلے لگا لیجیے۔ کام کاج سے جان چُھوٹ جائے گی اور لوگ ہوش و خِرد سے بیگانگی پر کِسی اور عالم کی مخلوق گردانتے ہوئے خواہ مخواہ احترام کریں گے! جو لوگ اِس دُنیا میں عقل استعمال کرتے ہیں، ذہن کو بروئے کار لاتے ہیں اُن کا معاملہ یہ ہے کہ ع اُس کو چُھٹّی نہ مِلی جس نے سبق یاد کیا! اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ نریش کمار نے تخلّص شادؔ کیوں رکھا تھا! عقل مندی تو اِسی میں ہے کہ عقل استعمال نہ کی جائے اور دیوانگی اپناکر شاد رہا جائے! جو ہر معاملے میں عقل سے کام لیتا ہے وہ بالآخر اپنا کام تمام کر بیٹھتا ہے۔ میڈیا کا شعبہ اِس معاملے میں بہت سفّاک ہے! جو بھی اُصولی رہا وہ سُولی چڑھا! جس نے عقل اور اُصول کے مطابق لِکھا وہ اچھا خاصا غیر مطبوعہ ترکہ چھوڑ کر دُنیا سے گیا! اب یہی دیکھیے کہ ایک زمانے تک سرکاری ٹی وی پر لوگ ذہن کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ڈرامے لکھتے رہے۔ مگر مِلا کیا؟ اِتنا معمولی سا معاوضہ جسے بُلبُل کے اشکوں ہی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے! اور ذرا اِس حقیقت پر غور فرمائیے کہ فی زمانہ لوگ ذہن استعمال کرنے کے بارے میں سوچے بغیر ڈرامے اور شو لکھ رہے ہیں اور مال بنا رہے ہیں! لُطف یہ ہے کہ بے ذہنی کا ہر نمونہ رجحان ساز قرار پاتا ہے! بے دِماغی سے کیا جانے والا کچھ اور سیٹ کرے نہ کرے، ٹرینڈ تو سیٹ کر ہی دیتا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved