تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-01-2018

ذرا ملتان تک

ایئر پورٹ پورٹر نے مجھے حیران کر دیا۔ کہنے لگا: پی آئی اے بچانی ہے تو صرف تین بسیں اور دو ٹریکٹر دے دیں۔ اس وقت اسلام آباد ایئر پورٹ پر فلائٹس کی تاخیر اور سامان رکھنے اور اُتارنے میں بد نظمی عروج پر ہے۔ لوگ ذلیل ہوتے ہیں اور بے عزت بھی۔ جن لوگوں کو ایئر پورٹ سروسز فراہم کرنے کے ٹھیکے ملے ہیں وہ ٹھیکے دینے والوں کو سروسز فراہم کرتے ہیں‘ ٹکٹ خرید کر پی آئی اے کو پیسے دینے والوں کو نہیں۔ 
اتنی دیر میں مَیں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ فلائٹ PK-681 کا طے شدہ ٹائم‘ 3:20 کو گزرے ہوئے 2 منٹ ہو چکے تھے۔ ایک اے ٹی آر طیارے‘ جس کے بارے میں حکومتی وزیروں نے کئی دفعہ کہا کہ اس کو گرائونڈ کر دیا گیا ہے‘ کی فلائٹ تھی۔ ملتان تک موسم صاف تھا‘ اس لیے فلائٹ ہموار رہی۔ میں مختلف مقدموں میں پیش ہونے کے لیے 1987ء سے ملتان ہائیکورٹ جاتا رہتا ہوں۔ لیکن پہلی دفعہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر جو باتیں سننے کو ملیں‘ بالکل وہی گفتگو پی آئی اے کے لوگوں نے ملتان ایئر پورٹ پر بھی کیں۔ اُن لوگوں نے کہا: پی آئی اے بچائیں۔ دوسرے بولے: اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے قومی فلیگ کیریئر خریدنے والے کرسی پر قائم نہیں رہیں گے‘ پی آئی اے کا ادارہ چلتا رہے گا۔ اسے لوٹنے والے اب نہیں چل سکتے۔ ملتان ایئر پورٹ پر ایک نوجوان نے ایک نیلے ہوائی جہاز کی طرف ہاتھ کر کے کہا: پی آئی اے کے خرچے پر چل سکتا ہے تو پھر کوئی چلانا چاہے تو پی آئی اے کیوں نہیں۔ ایئر پورٹ سے کینٹ کے ایک ہوٹل میں گئے۔ یوں لگا جیسے ملتان کے منہ سے آم چھن رہے ہیں‘ اور لاہور کی طرح ملتان کے منہ کو بھی جنگلہ، سریہ اور کنکریٹ لگ گیا ہے۔ شام کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کی لیڈی ڈاکٹرز کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ایم بی بی ایس فائنل ایئر کی طالبات تھیں۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے پُرعزم۔ 
اگلے دن صبح لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بینچ کورٹ نمبر ایک میں مقدمہ کی تاریخ پیشی کے لیے جناب جسٹس شاہد وحید کی عدالت میں گئے۔ گاڑیوں کی بے ہنگم پارکنگ دیکھ کر یوں لگا جیسے یہاں بھی ملتان کو لاہور کی نظر لگ گئی ہے۔ دیوانی سائیڈ کے اعلیٰ دماغ کے جج صاحب کی ارجنٹ لسٹ میں 49 مقدمے لگے تھے۔ جسٹس شاہد وحید نے بڑے سلیقے اور تحمل سے وکلا کو سنا۔ میں نے اپنی بحث ختم کی۔ وکلا کی خاصی تعداد گپ شپ لگانے اور سیلفیاں بنانے کے لیے جمع ہو گئی۔ کچھ دن پہلے ملتان کے احتجاجی وکلا خبروں میں رہے۔ اُن کے ذریعے پتا چلا کہ جوڈیشل کمپلیکس کو شہر سے باہر کھیتوں اور جنگلی حیات کے علاقوں میں شفٹ کیا گیا تھا۔ ایک نوجوان وکیل نے نئے جدید کمپلیکس کی تصویر اپنے موبائل پر دکھائی۔ میں حیران ہوا کہ فیصلہ ساز کس قدر بے رحم ہیں‘ جن کو اتنی بھی پروا نہیں کہ ملک کے سارے بڑے شہروں کی بہت سی بار ایسوسی ایشنز پر خونیں حملے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں وکیلوں کو اٹھا کے چھوٹی موٹی موجود سکیورٹی سے بھی باہر پھینک دینا بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ملتان ہائیکورٹ میں مقدمے کی تاریخ نکلنے سے پہلے ہی میں نے سٹاف کو بتا رکھا تھا کہ شاہ شمس تبریز کے مزار پر فاتحہ کے لیے جائوں گا۔ 
بار سے نکل کر پہلے دولت گیٹ کا رُخ کیا۔ راستے میں شہری ترقی کے اداروں کی کارکردگی دیکھ کر عجیب سی کیفیت ہوئی۔ کمہار چوک سے پہلے کئی تاریخی عمارتیں ہوا کرتی تھیں‘ جنہیں میگا کمیشن اور میگا کرپشن کے ناگ نے نگل لیا۔ مجھے لندن یاد آیا‘ جہاں ایک ہزار سالہ پُرانی عمارتیں اب بھی اپنی پوری آب و تاب سے کھڑی ہیں۔ پھر دھیان مکہ شریف اور مدینہ شریف کی طرف چلا گیا‘ جہاں ہائی رائیز بلڈنگ پرانے محلوں اور آبادیوں پر لہرا رہی ہیں۔ ان محلوں اور آبادیوں میں سے ہر ایک کی اپنی ایک تاریخ تھی۔ بالکل یروشلم جیسی‘ جہاں اسرائیل پوری طاقت سے مسلم تاریخ کے نشان مٹانے کے جتن کر رہا ہے۔ گزشتہ سال شہید ٹیپو سلطان کی آخری تلوار دیکھنے کے لیے سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کے قلعے تک کا سفر طے کیا تھا‘ جہاں میں اور انجینئر جلال الدین صاحب ایک سکاٹش ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے گئے۔ 70 سال کے پیٹے میں ایک جوڑا اس ریسٹورنٹ کو چلاتا ہے۔ میں نے اُن سے ایڈنبرا کا مطلب پوچھا۔ اُنہوں نے انتہائی پیار سے بڑا خوشگوار جواب دیا۔ بولے: سکاٹش زبان میں ایڈنبرا دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ایڈن یعنی جنت اور براگ یعنی آبادی۔ ان دونوں کو ملا کر آپ اسے وزیر آباد یا اسلام آباد کے وزن پر جنت آباد کہہ سکتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ سے واپس آتے ہوئے میں نے براگ نام سے موسوم کئی آبادیاں دیکھیں۔ 
بات ہو رہی تھی قدیم ورثہ محفوظ رکھنے کی۔ دولت گیٹ میں برادرم شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کی شادی پر مبارک باد دینے گئے۔ یہ شادی میں اٹینڈ نہیں کر پایا تھا‘ جس کی وجہ یہ بنی کہ اُس ہفتے اور اتوار کے دن چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کراچی میں اہم مقدمات کی سماعت رکھی‘ جہاں مجھے لازماً جانا تھا۔ مقامی دوستوں نے گائیڈ کا کردار ادا کیا‘ اور ہمیں شاہ شمس تبریزی کی آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔ دن کا پہلا پہر تھا‘ اس لیے رش برائے نام تھا‘ ہاں البتہ تیز رفتاری سے بنائی گئی مشہورِ زمانہ میٹرو بس نے شہر کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے۔ ایک چوک میں گورنمنٹ شہباز شریف ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال کا بورڈ لگا نظر آیا۔ یہ کیسی بے شرمی ہے کہ مال ملتان کا اور بورڈ اپنے خاندان کا۔ ملتان کے مشاہیر، ہیرو اور شہدا یا اُن کے وارث یہ حق نہیں رکھتے کہ کسی ممتاز، مقامی ہستی کے نام پر یہ ادارے بنائے جائیں۔ اور اگر کسی کو اتنا ہی شوق ہے کہ وہ اپنے نام پر ادارے بنانا چاہتا ہے‘ تو وہ دیال سنگھ کی طرح، گلاب دیوی کی طرح، گنگا رام کی طرح اور میئو جاتی برادری کی طرح اپنا خرچہ کرے‘ اور حلال کے پیسوں سے عوام کے لیے ہسپتال بنائے، کالج تعمیر کرے اور چاہے تو لنگر خانہ بھی۔ ایران کے زیرِ حراست سابق صدر احمدی نژاد نے اپنا سیاسی سفر تہران کے میئر کی حیثیت سے شروع کیا تھا۔ دو بار ایران کا صدر منتخب ہونے کے بعد احمدی نژاد پہلی بار لوگوں کو بکریاں چراتے نظر آیا۔ احمدی نژاد ٹریفک انجینئر ہیں۔ انگلی اُٹھا کر پروجیکٹ کا اعلان کرنے والے کاش میگا کمیشن اور کِک بیک کی بجائے سٹی ٹرانسپورٹ کا خیال کرتے‘ لوگوں کو سفری سہولت دیتے، کنکریٹ کے جنگل سے ذہنی عذاب اور نفسیاتی تنائو نہیں۔ ملتان جنوبی پنجاب کا ایسا شہر ہے جو کئی حکمرانوں کا دارالخلافہ رہا۔ مگر اس کی تقدیر نہ بدل سکی۔ تقدیر بدلنے کے دعوے داروں کے البتہ دن ضرور پھر گئے۔ 
وہی حالات ہیں فقیروں کے 
دن پھرے فقط وزیروں کے 
گزشتہ سال شہید ٹیپو سلطان کی آخری تلوار دیکھنے کے لیے سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کے قلعے تک کا سفر طے کیا تھا‘ جہاں میں اور انجینئر جلال الدین صاحب ایک سکاٹش ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے گئے۔ 70 سال کے پیٹے میں ایک جوڑا اس ریسٹورنٹ کو چلاتا ہے۔ میں نے اُن سے ایڈنبرا کا مطلب پوچھا۔ اُنہوں نے انتہائی پیار سے بڑا خوشگوار جواب دیا۔ بولے: سکاٹش زبان میں ایڈنبرا دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ایڈن یعنی جنت اور براگ یعنی آبادی۔ ان دونوں کو ملا کر آپ اسے وزیر آباد یا اسلام آباد کے وزن پر جنت آباد کہہ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved