اسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ فلیپ پر چھپی اطلاع کے مطابق شاعر کی عمر بمشکل 24 سال بنتی ہے اور جس کی تصدیق پس سرورق شاعر کی تصویر سے بھی ہوتی ہے۔ اسے اگر چار سال کی بھی شاعری سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ موصوف نے 20 سال کی عمر سے ہی یہ کام شروع کر دیا تھا جو کہ ان غزلوں سے ہرگز ایسا نہیں لگتا کیونکہ کلام کی پختگی اور تقریباً بے عیب پیشکش خوش آئند ہونے کے ساتھ ساتھ حیران کن بھی ہے جس پر وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں اور ہماری سفارش یہ بھی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو یہ کتاب ڈاکٹر شمیم حنفی کو ضرور بھجوائی جائے تاکہ وہ غزل کے حوالے سے اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کر سکیں۔
انفرادیت‘ طُرفگی اور تازہ کاری کے حوالے سے کاشف حسین غائر کے بعد یہ دوسرا شاعر ہے جس نے انہی دنوں میں مجھے مسرور کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ کتاب میں کوئی دیباچہ‘ پیش لفظ یا سرورق کی تحریر موجود نہیں ہے جو شاعر کی خوداعتمادی کی دلیل ہے۔ انتساب امّی اور ابّو کے نام ہے۔ ٹائٹل پُرکشش اور پیشکش نہایت عمدہ۔ ظاہر ہے کہ شاعر لپ سٹک تو نہیں لگاتا لیکن تصویر میں ہونٹوں کی لالی دُور بھی کی جا سکتی تھی جو معمول سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ کتاب میں کُل 104 غزلیں ہیں‘ تاہم آخری پندرہ بیس غزلیں نکالی بھی جا سکتی تھیں جو نسبتاً کمزور ہیں‘ کچھ شعر دیکھیے :
اک‘ ایسی نہر سے ہم کو گزارا جا رہا تھا
جو آدھی تیرگی تھی اور آدھی روشنی تھی
کب تھک کے گروں اور میرے اوپر سے گزر جائے
اک راہگزر کب سے پڑی ہے میرے پیچھے
وہ دن بھی عبث لوٹ کے آیا میری خاطر
یہ شب بھی یُِونہی خوار ہوئی ہے میرے پیچھے
سُلگ رہا ہے کسی سرد آگ میں وہ شجر
جو ٹہنیوں کوہلائوں راکھ جھڑتی ہے
لپکتے ہیں اُنہی شاخوں کو ڈھونڈتے دھاگے
پڑے پڑے ہی کہیں کوئی شال ادھڑتی ہے
خاموش رہ! کہ پھر تری آواز سُن سکوں
نظروں سے دور جا کہ تجھے دیکھ پائوں میں
فاصلہ بڑھتا رہا‘ بڑھتا رہا آخرکار
میں کہیں رہ گیا اور رہ گئے وہ ہاتھ کہیں
قفسِ وصل میں سب شور ہمارا تو نہیں
پھڑ پھڑاتا ہے بہت طائر تنہائی بھی
میں نے تحفے میں نئے رنج کی چادر شارق
صرف لائی ہی نہیں‘ خود اُسے پہنائی بھی
تنگ آیا ہوا ہوں دُنیا سے
سوچتا ہوں کہیں چلا جائوں
کوئی دروازہ کھٹکھٹانے سے
تجھ کو روکا تھا یاد آنے سے
اک نظر ہی میں اسے دیکھ لیا ہے اتنا
آنکھ خالی بھی اگر ہو تو بھری کہلائے
اکیلا میں تھا اور ساری گلی کو بھر رہا تھا
کوئی انبوہ مجھ میں دھیرے دھیرے مر رہا تھا
ترے اُوپر گری تھیں میرے خوابوں کی فصیلیں
گری ہوں گی مگر تب تُو وہاں کیا کر رہا تھا
رہ بتدریج ہٹاتا گیا نظریں شارق
مرحلہ وار بگڑتی گئی صورت اپنی
ہنس پڑے ہیں تو سوچتے ہیں اب
ویسے ہنسنے کی بات تھی تو نہیں
جھانک نہ پایا کوئی دُھند کی دیوار سے
پھول کھلے رہ گئے‘ اوس پڑی رہ گئی
یونہی گرتی نہیں اشکوں کی سیاہی دل سے
اَن کہا لکھتی کبھی لکھا ہُوا کاٹتی ہے
گزرتے تھے بہت سے قافلے اکثر یہیں سے
کبھی آنکھوں سے دل تک راستہ سُنسان کم تھا
ہر اک سو دُھند تھی اور دُھند بھی اتنی تھی شارق
کہ نظروں کے پلٹ آنے کا بھی امکان کم تھا
نہ جانے کیسا مکاں بن رہا ہے سینے میں
سڑک تو کیا اسے کوئی گلی نہیں لگتی
یقیناً اس میں عمدہ اشعار اور بھی بہت ہیں اور غزل جیسی پٹی ہوئی صنفِ سخن میں اتنے شعر نکال لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اب کچھ مشورے بھی کہ اس نوجوان نے ابھی اور بہت شاعری کرنی ہے۔ ایک مصرع ہے :
یہ تُو جس تخت پہ آ بیٹھا ہے
یہاں اگر ''یہ تُو‘‘ کی بجائے' تُو یہ‘ ہوتا تو ''تو‘‘ کی وائو نہ دبتی۔ شاعر نے لفظ شعاعیں کو دو دفعہ ''شعائیں‘‘ باندھا ہے جو درست نہیں۔ 'طور‘ اور 'ڈور‘ ہم قافیہ نہیں ہیں۔ دانستہ استعمال کہہ دینے سے بھی غلط غلط ہی رہتا ہے۔ ایک مصرع ہے :
کہیں گلابِ سیاہ جھڑتا ہے شاخِ دل پر
''گلاب‘‘ کو اگر اضافت کے ساتھ باندھیں گے تو اس کا مطلب عرقِ گلاب ہو گا‘ گلاب کا پھول نہیں‘ جس کے لیے صرف ''گُل‘‘ ہے۔ چند مصرعے خارج ازوزن ہیں جو ٹائپ کی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔
آج کا مقطع
آدھی گزر گئی ہے محبت میں‘ اے ظفرؔ
آدھی گزارنی ہے محبت کیے بغیر