انتخابات میں اب دھاندلی کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ دھاندلی قصہ ماضی ہو کر رہ جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے عوام کے لئے امیدواروں کا چنائو خود کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے اراکین کے بیانات سے لگتا ہے کہ اسے سپریم کورٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ کاغذات نامزدگی کی ترتیب میں حکومتی عمل دخل ہرگز نہیں رہے گا۔ وزارت قانون کا جو تمسخر اڑایا جا رہا ہے‘ وہ اس کی مستحق ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی یہ مہربانی ہے کہ اپنے تیار کردہ نامزدگی فارم وزارت قانون کو بھیج دیئے۔ کیوں بھیجے گئے؟ اس کا جواب نجومیوں سے لیاجا سکتا ہے۔ آئین و قانون اس معاملے میں خاموش ہی ملیں گے کہ جب دو فریق کسی ایک دستاویز پر کام کر رہے ہوں ‘ تو ان میں صرف ایک فریق ہی کام کی ترتیب اور شرائط کے چنائو کا مجاز ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے فریق کو محض دم چھلے کی حیثیت سے‘ ڈاک خانے کی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں۔ جو مجوزہ دستاویز کو بذریعہ وزیراعظم ایوان صدر تک پہنچائے گا اور ایوان صدر آخری ڈاکخانے کے طور پر یا تو اس دستاویز کو لفظ بہ لفظ منظور نہیں کرے گا تو15دنوں کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی بھیجی ہوئی دستاویز ہی‘ آخری تصور کی جائے گی اور آئینی طور پر مستند دستاویز قرار پائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر کی تیار کردہ دستاویز ہی آخری اور حتمی ہے تو بیچ میں تین ڈاکخانے لانے کی کیا ضرورت تھی؟ یعنی وزارت قانون و پارلیمانی امور۔ اس کے بعد وزیراعظم اور آخر میں صدر مملکت۔ چیف الیکشن کمشنر خود ہی دستاویز تیار کریں اور اسے قانونی حیثیت دیتے ہوئے‘ عملدرآمد شروع کر دیں۔ اللہ اللہ خیرسلا! جو تین ڈاک خانے بیچ میں رکھے گئے ہیں‘ ان پر بھی عوام ہی کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ جب مختلف ادارے قوم کی ایک ایک پائی بچانے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ تو پھر تین مہنگے اداروں کو بلامقصد بطور ڈاکخانہ استعمال کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ شاید اس لئے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ انتخابات کے شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونے پر مجھے کوئی شک نہیں رہ گیا۔ ماضی میں جو پس پردہ سٹیک ہولڈرز‘ دھاندلی کیا کرتے تھے‘ بہت اناڑی تھے۔ انہیں اپنی مرضی کی پارلیمنٹ لانے کے لئے طرح طرح کے جتن کرنا پڑے۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر ‘ اسمبلیوں کے انتخابات بالواسطہ کر دیئے تاکہ صرف 80 ہزارموری ممبر پارلیمنٹ کے اراکین کو منتخب کر سکیں اور عوام دور بیٹھے تماشا دیکھیں۔ یحییٰ خان نے اس خیال سے آزادانہ انتخابات کا انعقاد کیا کہ ان کی رپورٹوں کے مطابق کسی پارٹی کو اکثریت ملنے کا امکان نہیں تھا اور ایک ہنگ پارلیمنٹ کے ساتھ‘ وہ خود ہی کھلواڑ کر کے‘ مرضی کی حکومتیں بناتے توڑتے رہیں گے۔ ان کا اندازہ غلط نکلا۔ ایک ہی پارٹی فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ جیت گئی اور انہیں مجبوراً ملک توڑنا پڑا۔ ضیاالحق آئے‘ تو انہوں نے انتخابات ہی غیرجماعتی کرا دیئے۔ یہ غیرجماعتی اراکین اسمبلی اصل میں ان جماعتوں کے تھے‘ جو درپردہ ضیاالحق کی حامی تھیں۔ ضیاالحق نے انہی منتخب غیرجماعتی اراکین اسمبلی پر مشتمل اپنی جماعت قائم کر لی۔ اس کا نام مسلم لیگ رکھا اور یہ مسلم لیگ مختلف نالے نالیوں میں سے گزرتی ہوئی‘ کئی مسلم لیگوں کے چہرے لگا کر پھیل گئی۔ ضیاالحق کے بعد پرویزمشرف آئے۔ انہوں نے بغیرکسی پابندی کے‘ ایسے ٹھوس انتظامات کئے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی ان کی مرضی کی ہوں۔ ایک پارٹی کا انہوں نے پتہ صاف کر دیا اور دوسری پارٹی کے دو ٹکڑے کر کے‘ ایک ٹکڑا اپنے ساتھ ملا لیا اور مزے سے حکومت کرتے رہے۔ ماضی کے سارے خفیہ اور کھلے سٹیک ہولڈرز نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے جتنے بھی طریقے اختیار کئے ‘ وہ متنازعہ ہو گئے۔ کسی نہ کسی انداز سے‘ ان کے انتخابات پر دھاندلی کے الزام لگے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اب جو انتخابات ہو رہے ہیں‘ ان میں کسی دھاندلی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ امیدواروں کا چنائو الیکشن کمیشن کر دے گا اور اس کے بعد عوام کو کھلی چھٹی ہو گی کہ وہ جسے چاہیں ووٹ دیں۔ کیونکہ ہر امیدوار چھلنی سے چھن کے الیکشن‘ میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا جائے گا۔ ترکیب بہت ہی سادہ اور آسان ہے۔ خدا جانے ماضی کے آمروں کو یہ کیوں نہیں سوجھی؟ ترکیب یہ ہے کہ امیدوار بننے کے لئے الیکشن کمیشن نے ایسی شرائط رکھ دی ہیں‘ جنہیں پورا کرنے کے لئے کئی مہینے درکار ہیں۔ کون مائی کا لال دو یا تین ہفتوں کے اندر 3برسوں کے انکم ٹیکس کے مکمل کاغذات تیار کر کے‘ بطور امیدوار ‘ الیکشن کمیشن کے نمائندے کی خدمت میں پیش کرے گا؟ جو لوگ انکم ٹیکس دیتے ہیں اور لیتے ہیں‘ دونوں کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ریٹرن کامل نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی نہ کوئی نقص یا خرابی نکالی جا سکتی ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی صوابدید پر ہو گا کہ کس کے کاغذات کو درست مانا جائے اور کس کے نقائص نکال کر ‘ امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے جائیں؟ اسی طرح بینکوں کے قرضوں کے حسابات بھی دو تین ہفتوں کے اندر تیار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جو بھی اتنی جلدی میں حسابات تیار کرے گا‘ وہ کہیں نہ کہیں کوتاہی ضرور کر بیٹھے گا۔ انکم ٹیکس اور قرضوں کے حسابات کی چھان بین سٹیٹ بنک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماہرین کریں گے۔ پاکستان میں ایسا کوئی فرد یا ادارہ نہیں‘ جس کے حسابات میں یہ ماہرین خرابی نہ ڈھونڈ سکیں۔ یہ ماہرین ایک ایسی نگران حکومت کے ماتحت ہوں گے‘ جو طاقت کے مراکز کے رحم و کرم پر کام کر رہی ہو گی۔آگے آپ سمجھدار ہیں۔ جن کے کاغذات مسترد ہوئے‘ وہ الیکشن سے پہلے فارغ اور جن کے منظور ہو گئے‘ ان میں سے کوئی بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے کی اہلیت کا فیصلہ ایک ہی جگہ سے آئے گا۔ جن امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اہلیت کا سرٹیفکیٹ ملنا ہے‘ وہ اگر پہلے ہی سے اپنے حسابات کے کاغذات مکمل کرنا شروع کر چکے ہوں‘ تو ان پر شک کرنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ لوگ زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔ وہ پہلے سے سارے کام کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ غیرمحتاط ہوتے ہیں۔ جیسے ماضی کی اسمبلیوں میں باربار منتخب ہونے والے اراکین۔ وہ اسی خیال میں بیٹھے ہوں گے کہ جلد بازی میں ہم جو بھی کاغذات تیار کریں گے‘ وہ ایک سرسری سے جائزے کے بعد منظور کر لئے جائیں گے اور ان کا یہی اعتماد ‘ انہیں اس انجام تک پہنچائے گا ‘ جس کا شکار ہونے کے بعد انہیں معلوم ہو گا کہ الیکشن واقعی شفاف اور غیرجانبدارانہ ہو رہے ہیں۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کی چھلنی سے چھن کر ہی امیدوار کو ووٹ حاصل کرنے کی سند ملے گی اور یہ سند الیکشن کمیشن کے صوابدیدی اختیارات کے ذریعے ہی مل پائے گی۔ اگر کسی نوزائیدہ جماعت کے امیدوار‘ پہلے سے حسابات تیار کرنے کے لئے درکار وقت حاصل کر کے‘ اپنے معاملات ٹھیک کر چکے ہوں گے‘ توانہیں الزام نہیں دینا چاہیے۔ الزام کے حق دار وہ ہوں گے‘ جو اپنی سستی کی وجہ سے کاغذات مکمل نہ کر پائے ہوں۔ کچھ ناپسندیدہ امیدوار ان ساری چھلنیوں سے چھن جانے کے بعد بھی میدان میں رہ گئے‘ تو وہ خاطر جمع رکھیں۔ ان کے لئے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کمر کس کے تیار ہیں۔ یہ وہ دفعات ہیں جنہیں جنرل ضیاالحق نے حفظ ماتقدم کے طور پر آئین میں ٹھونسا تھا۔ انہیں ضرورت ہی نہیں پڑی۔ پاکستان میں کس آمر کو آخری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے؟ جس آمر نے‘ جیسی اسمبلیاں قائم کرنے کا ارادہ کیا‘ اسے آسانی سے پہلی ہی ترکیب کے استعمال سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والے نے‘ آئین و قانون پر زیادہ بھروسہ کیا۔ پرویزمشرف نے تو مارشل لا بھی نہیںلگایا اور سپریم کورٹ نے بھی مہربانی کی انتہا کرتے ہوئے‘ اسے بن مانگے 3سال تک قانونی حیثیت حاصل کئے بغیر ہی حکمرانی کا حق دے دیا اور اب تو اعتماد کا یہ عالم ہے کہ انتہائی صاف شفاف انتخابات کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن ‘ امیدواروں کا انتخاب کر کے عوام کو یہ اجازت مرحمت فرمائے گا کہ وہ چنے چنائے امیدواروں میں سے‘ جس کوچاہیں ووٹ دے دیں۔ الیکشن صاف بھی ہوں گے‘ شفاف بھی اور آزادانہ بھی اور اسمبلیاں بھی جیسی مطلوب ہوں گی‘ مل جائیں گی۔ عوام اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں احتساب یا انتخاب کا حق دیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved