پہلے سے جبر و محرومی کے شکار‘ محصور فلسطینیوں پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب مزید وحشیانہ حملوں کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے۔ منگل کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے فلسطینیوں کے لیے امدادی پیکج کی مختص رقم 125 ملین ڈالر میں سے 65 ملین ڈالر کو معطل کر رہا ہے۔ یہ امداد غذائی ضروریات، تعلیم، صحت، سماجی خدمات اور روزگار کے لیے مختص ہے۔ ستر سالوں سے اقوام متحدہ کا ادارہ UNRWA مقبوضہ علاقوں اور لبنان، اردن اور شام میں مقیم پانچ ملین سے زائد فلسطینی مہاجرین کے لیے امداد کا ذریعہ رہا ہے۔
پی ایل او کے ایک سینئر رہنما ہنان اشراوی نے کہا ''ایسا لگتا ہے کہ امریکہ‘ اسرائیلی حکومت کی ان ہدایات پر عمل کر رہا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے فلسطینی مہاجرین کے حقوق کی حفاظت اور انہیں بنیادی خدمات کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے ادارے کا بتدریج خاتمہ کیا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ فلسطینی عوام کے سب سے کمزور حصوں کو نشانہ بنا کر انہیں تعلیم، صحت، رہائش اور آبرومندانہ زندگی سے محروم کر رہی ہے۔ خطے میں مزید عدم استحکام کے حالات تیار کیے جا رہے ہیں‘‘۔ 3 جنوری کے ٹرمپ کے فلسظینی امداد کی بندش کے دھمکی بھرے ٹویٹ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اس ادارے پر 'خیالی مہاجرین‘ کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایک خط میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ مزید امداد اقوام متحدہ کے اس ادارے میں بڑی تبدیلیوں سے مشروط ہو گی۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نمائندہ ہیتر نورٹ نے کہا ''مستقبل کے غور و خوض تک اس امداد کو منجمدکیا جاتا ہے‘‘۔ یہ فلسطینی عوام کو کھلم کھلا دھمکی ہے کہ وہ اسرائیلی قبضہ گیریت اور صہیونی ریاست کے جبر کو سامراجی عسکری اور معاشی جبر کے تحت قبول کریں۔ امریکی سامراجیوں کی یہ سماجی و معاشی جارحیت ان کی انسانی حقوق، جمہوریت اور آزاد دنیا کے بارے میں منافقانہ لفاظی کو ایک دفعہ پھر عیاں کرتی ہے۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے جو مغربی سامراجیوں کی 'جمہوریتوں‘ بالخصوص امریکہ کی وکالت اور ان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں کہ وہ سرزمین سے محروم اور طبقاتی اور قومی استحصال کے شکار فلسطینیوں کی نجات کے لیے کردار ادا کریں گے۔
اس اقدام پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گٹریس نے شکایت کی ''اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی (UNRWA) کوئی فلسطینی ادارہ نہیں، یہ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے۔ اگر یہ ایجنسی ضروری خدمات اور ایمرجنسی امداد فراہم نہ کر سکی تو یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ میرے اور بہت سے عالمی مبصرین بشمول کچھ اسرائیلیوں کے خیال میں یہ استحکام کا ایک اہم ذریعہ ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے یہ سیکرٹری جنرل صاحب اپنے پیشروئوں سے مختلف نہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے فاتح ممالک کے سامراجی حکمرانوںکے لیے سفارتکارانہ جعل سازی کی ایک کوشش تھی‘ جو ایک ایسی دنیا میں ''امن‘‘ کے خواہاں ہیں جہاں انسانیت کی اکثریت تباہی، محکومیت، استحصال اور ایک ایسے نظام کی دہشت کا شکار ہے جو اکثریت کی محرومیوں اور اقلیت کی دولت میں بے انتہا اضافہ کرتا ہے۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ ظلم رہے اور امن بھی ہو! اقوام متحدہ محض عوام کے سنجیدہ مسائل کو تنازعات کی شکل میں ٹالنے کا سامراجی حکمرانوں کا ادارہ ثابت ہو رہا ہے۔ عالمی طاقتیں اسی معاشی بنیاد کی بدولت اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کراتی ہیں۔ اَن گنت قراردادیں پاس ہونے کے باوجود فلسطینی اور کشمیری عوام کی طبقاتی اور قومی محرومی میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کی حالتِ میں بدتری آئی ہے۔ اسرائیلی سکیورٹی فورسز بچوں کو پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کرتی ہیں۔ وکیل یا خاندان کے کسی فرد کی غیر موجودگی میں ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور عبرانی زبان میں لکھے ہوئے ایسے اقرار نامے پر زبردستی دستخط لئے جاتے ہیں جسے وہ سمجھتے ہی نہیں۔
2017ء میںغزہ کی پٹی اور مغربی کنارے، بشمول مشرقی یروشلم، پر اسرائیلی قبضے کو پچاس سال ہو چکے ہیں۔ یہ جدید تاریخ کی سب سے طویل قبضہ گیریت ہے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ پچاس برس بے انت جبر، محرومی اور بربادی کے ادوار رہے ہیں۔ آج غزہ کی پٹی میں 80 فیصد لوگوں کا انحصار غذائی امداد پر ہے، آدھی سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور صرف 10 فیصد کو بہتر پانی تک رسائی حاصل ہے۔ 2017ء کے شروعات میں انہیں یومیہ 20 گھنٹے بجلی نہیں ملتی تھی۔ غزہ کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 60 فیصد اور عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 25 فیصد فلسطینی مطلق غربت کا شکار ہیں۔ محصور غزہ کو دنیا میں کھلی فضا کا سب سے بڑا قید خانہ کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم میں غربت کی شرح 78 فیصد ہے جو مغربی کنارے یا غزہ سے بھی زیادہ ہے۔ اسرائیلی ریاست غزہ کی پٹی پر ہر شخص اور چیز کی نقل و حرکت پر سختی سے قدغن لگاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، ''اسرائیل کی غزہ کی پٹی کی بندش، بالخصوص عوام اور اجناس کی نقل و حرکت پر قدغن، سے سویلین آبادی کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاندان بچھڑ گئے ہیں، صحت، تعلیم اور معاشی مواقع تک رسائی محدود کر دی گئی ہے اور غربت اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ غزہ کی 1.9 ملین آبادی کا تقریباً 70 فیصد امداد پر منحصر ہے۔ اسرائیلی فوج نے اسرائیل، مغربی کنارے اور دوسرے ممالک جانے کے لیے ایریز کراسنگ سے گزرنے کو بھی ''استثنائی انسانی معاملے‘‘ تک محدود کر دیا ہے یعنی صرف مریض، ان کے رشتہ دار اور ''مشہور کاروباری لوگ‘‘ گزر سکتے ہیں۔
سامراجیوں اور ان کے گماشتوں کی فلسطینیوں سے نمائشی ہمدردی صرف اپنے سماجوں میں عوامی غم و غصے سے بچنے کے لیے ہے۔ درحقیقت انہوں نے ہمیشہ صہیونی ریاست کی پس پردہ حمایت اور امریکی سامراج کی تابعداری کی ہے۔ ان کی فلسطینی عوام کی 'حمایت‘ بھی فلسطینیوں کے لیے ظلم میں کوئی توقف نہیں لائی۔ عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے فلسطینی مسئلے کو ہمیشہ اپنے داخلی معاملات کے لیے استعمال کیا۔ ان کی قراردادیں اور بیانات اپنے ملکوں میں بغاوتوں کو ٹالنے کے لیے ہیں۔ ستر سالوں کی فلسطینی جدوجہد نے واضح کر دیا ہے کہ نہ مسلح جدوجہد کا گوریلا طریقۂ کار اور نہ ہی مذاکرات‘ فلسطینیوں کو آزادی دلا سکتے ہیں۔ مذہبی دہشت گردی نے فلسطینی مقصد کو الٹا نقصان پہنچایا ہے۔ محمود عباس اور مغربی کنارے میں فلسطینی عملداری کے دوسرے رہنمائوں کی سامراجیوں کے ساتھ موقع پرستانہ سفارتکاری سے صرف صہیونی قبضہ گیروں کو اپنا جبر مزید مسلط کرنے کا ہی موقع ملا ہے۔ میرے خیال میں حماس اور فلسطینی عملداری کی حکومتوں نے عام فلسطینیوں پر سب سے زیادہ جبر کیا ہے۔ یہ آزادیٔ اظہار کو کچلتے اور قیدیوں پر ظلم کرتے ہیں۔ فلسطینی عملداری اور حماس‘ ان کے لیڈروں، سکیورٹی فورسز یا پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو گرفتار کرتے ہیں۔ فلسطین میں آزاد کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایسے اَن گنت واقعات کی نشاندہی کی ہے۔
فلسطینی نوجوانوں اور عوام نے اس طرح کی مشکلات اور جبر کے خلاف جرأت مندانہ طریقے سے جدوجہد کی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں چلنے والے 'انتفادہ‘ ہی کی وجہ سے سامراجیوں اور اسرائیلی ریاست کو کچھ رعایات دینا پڑیں‘ لیکن تحریک کی پست قدمی پر رجعتی صہیونی ریاست نے مزید معاشی اور فوجی جبر کیے۔ جب فلسطینی عوام میں بایاں بازو اور بنیاد پرستی کمزور اور سامراج کے ساتھ مصالحت نہیں تھی تو انہیں عالمی اور علاقائی سطح پر زیادہ حمایت حاصل تھی۔ فلسطینی عوام کو علاقائی اور عالمی سطح پر محکوم طبقات کی حمایت کی بنیاد پر ہی آزادی حاصل ہو گی۔ فلسطینی بغاوت سے دیگر ممالک میں طبقاتی جدوجہد ابھرے گی جو متحد ہو کر قبضہ گیریت، جبر اور استحصال کے اس نظام کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ 2011ء کی عرب بہار میں یہ منظر دیکھا گیا۔ 44 سالہ صالح اجرمہ، جو عایدہ مہاجر کیمپ میں رہتا ہے، نے کہا ''اگر تمام تر خدمات رک گئیں تو انقلاب آ جائیگا۔ فلسطینی انتفادہ اردن اور شام کے مہاجر کیمپ سے شروع ہوا اور یہ دوبارہ ہو گا‘‘۔ یہ تناظر قابلِ غور ہے۔