تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-01-2018

امریکی تابوت اور منشیات

نوے کی دہائی میں امریکہ سے شائع ہونے والےEIR میگزین نے خوفناک انکشاف کرتے ہوئے دنیا کو حیران کر دیا تھا کہ ویت نام جنگ کے دوران جارج بش کے والد سینئر بش سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے تو انٹرنیشنل ڈرگ مافیا کی مدد سے ویت نام میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے پیٹوںسے انتڑیاں وغیرہ نکال کر ان میں منشیات بھر دی جاتیں اور پھر منشیات بھرے تابوت امریکہ لائے جاتے جہاں ان میتوں کے پیٹوں سے یہ ڈرگ نکال کر یہ تابوت ورثا کے حوالے کر دیئے جاتے۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران بھی افغانستان اور پاکستان کی بیشتر ڈرگ سی آئی اے مختلف روٹس استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں بھیجنا شروع ہو گئی جس پر جرمنی کا ایک صحافی اس کی تفصیلات منظر عام پر لے آیا جس پر وہاں شور مچ اٹھا جب کچھ لوگوں سے تفتیش کی گئی تو جنہوں نے بتا دیا کہ ان کے امپورٹر امریکی سی آئی اے سمیت ان کے مختلف ناموں سے کام کرنے والے ادارے ہیں۔ 
چوٹی کے تاریخ دان Alfred McCOY, ، برطانیہ کے پروفیسرPeter Dale Scott اور معروف صحافی Gary Webb, Michjael C Ruppert ,Alexander Cockburn جیسے لوگوںنے اپنے علیحدہ مضامین اور رپورٹس میں حیران کن انکشافات کرتے ہوئے ثابت کیا کہ امریکی ادارے جن میں سی آئی اے سر فہرست ہے افغانستان سے منشیات کے گھنائونے کاروبار میں ملوث ہیں اور امریکہ کے افغان جنگ میں کئے گئے اربوں ڈالرز کے جنگی اخراجات پوست کی کاشت اور پھر اس سے تیار کردہ ہیروئین کی سمگلنگ سے پورے کئے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ ویت نام کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تمام اخلاقی قدریں بالائے طاق رکھتے ہوئے ویت نام میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے پیٹ چاک کر کے ان میں منشیات بھر نے کے بعد انہیں امریکہ لایا جاتا رہااور پھر یہ منشیات نکال کر انہیں دوبارہ تابوت میں رکھ دیا جاتا۔۔۔۔ کوریا کی جنگ کے دوران بھی سی آئی اے چیانک کائی شیک کو اسلحہ کی سپلائی فراہم کرنے کیلئے منشیات کی اسی طرح تجارت کرتی رہی۔۔۔پھر اس سے بھی تھوڑا آگے چلیں تو ہمارے سامنے لائوس کی اس خفیہ جنگ کا 1961سے1975 تک Golden Triangle کے نام سے ہیروئین کی سمگلنگ کا زمانہ یاد آ تا ہے۔۔۔ویت نام میں امریکی فوجیوں کی لاشوں کا جو حوالہ دیا تھا اس پر مشہور مصنف Larry Collins نے مکمل ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا کہ منشیات کے باقاعدہ کاروبار سے ویت نام اور لائوس کا آپریشن مکمل طور پر امریکی سی آئی اے کی نگرانی میں منشیات سمگلنگ کا مرہون منت رہاجہاں جنرل وانگ پائو نے اپنے قبیلے کے تیس ہزار لوگ سی آئی اے کے حوالے کئے جن سے پوست کی کاشت اور پھر ہیروئین تیار کرائی جاتی رہی۔GUNS DRUGS and CIA میں تو سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی ہیروئین سمگلر ثابت کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی نومبر میں جاری کردہ پورٹ سے حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ2017 میں افغانستان میں افیون کی پیداوار بڑھ کر63 فیصد ہو گئی ہے اور اس کی کاشت میں اضافہ کی اصل وجہ امن عامہ کی خرابی، افغان حکومت میں کرپشن سیاسی افراتفری اور حکومتی اداروں کی کمزوری اور ابتر سکیورٹی صورت حال کو قرار دیا گیا ہے۔نائن الیون سے قبل افغانستان میں طالبان حکومت کے آخری سال افغانستان بھر میں افیون کی کاشت کم ہو کر صرف221 ٹن رہ گئی تھی لیکن آج جب2017 کی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو یہ خوفناک حد تک بڑھ کر9 ہزار ٹن تک جا پہنچی ہے جبکہ2016 میں یہ کاشت4800 ٹن تھی اس سے ظاہر ہوا کہ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور نیٹو اپنی افواج افغانستان لے کر آئے تو اسی وقت سی آئی اے نے فیصلہ کیا کہ اپنے جنگی اور جاسوسی اخراجات کیلئے افغانستان سے کی جانے والی منشیات کے معروف کاروبار کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا اور پھر امریکی نگرانی میں پوست کی کاشت کو بڑھانا شروع کر دیا گیا جبکہ امریکی حکومت اور سی آئی اے سے متعلقہ میڈیا اور دوسرے اداروں کی طرف سے مشہور کیا جانے لگا کہ طالبان اپنے دور میں افیون کی کاشت بڑھاتے رہے ہیں ۔افغان طالبان کے خلاف امریکہ کی شدت پسندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو علاقے پوست کی کاشت کیلئے مشہور ہیں وہاں طالبان کا کنٹرول ہے جو پوست کو تلف کر دیتے ہیں لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ طالبان کے چہرے کو مزید خوفناک ظاہر کر نے کیلئے اب بھی بیرونی دنیا میں یہی تاثر پھیلا رہے ہیں کہ امریکی اور نیٹو فوجوں کی افغانستان میں موجودگی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی اور مغربی معاشرے کو منشیات سے محفوظ کرنے کیلئے طالبان اور ان کی کاشت کی جانے والی پوست کو تلف کیا جا سکے۔۔۔۔ لیکن امریکی میڈیا اور اس کے اداروں کے سفید جھوٹ کا بھانڈہ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے اس طرح بیچ چوراہے میں پھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ طالبان دور میں ہیروئین کی پیداوار نہ ہونے کے برا بر ہو گئی تھی۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا سب سے خاص پہلو یہ ہے کہ افیون کی کاشت میں اضافہ افغانستان کے شمالی صوبوں بلخ،جائوز جان،بغلان اور سرائے پل میں ہو رہا ہے اور یہ وہ علا قے ہیں جہاں طالبان کا دور دور تک بھی عمل دخل نہیں بلکہ یہ سب امریکی اور افغان فورسز کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔آج کی بات نہیں بلکہ امریکہ اور اس کی سی آئی اے اور بلیک واٹر کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ اپنے خفیہ اور سیاہ کارناموں کیلئے چونکہ اسے بھاری فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کیلئے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ فنڈز کے علا وہ ہر قسم کے ناجائز طریقوں سے اس کا حصول یقینی بناتے ہیں اور معاملہ جب جنگ سے تباہ حال افغانستان جیسے ملک کا ہو تو یہ ان کے مقاصد کیلئے سونے کی چڑیا بن جاتی ہے۔ 
امریکی شہریوں اور فوجیوں کیلئے افغانستان میں داخلے کیلئے کسی بھی ویزے جیسے تکلف یا رکاوٹ کا وجود نہیں ہوتا اور نہ ہی ان پر کسی افغان قانون یا پابندی کا اطلاق ہوتا ہے اس لئے وہ بغیر روک ٹوک یا ڈر خوف کے اپنی مرضی کے علا قوں میں افیون کی کاشت کیلئے مکمل آزاد ہیں ۔حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی بطور گورنر قندھار منشیات کے سب سے بڑے سمگلر کے نام سے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پورے ریجن میں جانے جاتے رہے۔ ان کے بارے میں امریکی انتظامیہ کا ایک ایک فرد جانتا تھا کہ وہ سی آئی اے کے ''پے رول‘‘ پر ہیں۔امریکن ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کے ایجنٹ Edwrad Follisکے میڈیا سے کہے گئے یہ الفاظ کہ '' سی آئی اے نے افغانستان میں پوست کی کاشت اور ہیروئین کی تیاری سے سمگلنگ تک کے تمام مراحل سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں‘‘ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے ایک War Vetran ۔۔۔ JOHN ABBOTSFORD جو افغان جنگ میں براہ راست حصہ لیتا رہا اس نے خود تسلیم کیا ہے کہ سی آئی اے کا افغانستان میں سب سے بڑا کردار منشیات کی سمگلنگ سے متعلق ہے۔
کچھ برس ہوئے معروف ہیومن رائٹس ترجمان Malalai Joyaنے افغانستان میں اپنے عرصہ قیام کے دوران کی جانے والی تحقیق کے حوالے سے رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھاکہ امریکن سی آئی اے نے کچھ وار لارڈز اور شمالی افغانستان کے گورنرز کو اپنا آلہ کار بنارکھا ہے جن کی نگرانی میں پوست کاشت کی جاتی ہے اس کی یہ رپورٹ برازیل کے اخبارO TEMPO میں بھی شائع ہو چکی ہے ۔ Joya نے اپنی تفصیلی رپورٹ کے ذریعے ثابت کیا کہAfghan narcotics economy is a designed project of the CIA, supported by US foreign policy۔۔۔!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved