تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-01-2018

منو بھائی کا ٹی وی اور اماں کی بکریاں!

گائوں کی سردی کی ایک طویل رات شروع ہو چکی تھی۔ اسّی کی دہائی کے شروع کا کوئی سال تھا۔ گائوں میں شام ویسے ہی جلدی ہو جاتی ہے۔ کھانا کھایا جا چکا تھا۔ ہم سب بہن بھائی ایک چھوٹی سی کوٹھری میں چولھے کے گرد‘ آگ کے انگاروںپہ ہاتھ پھیلائے بیٹھے تھے۔ 
اماں خاموش اور افسردہ بیٹھی تھیں۔ ابھی بہن نے انہیں اخبار سے منو بھائی کا کالم پڑھ کر سنایا تھا۔ اماں کبھی سکول نہیں گئی تھیں؛ تاہم انہیں شوق تھا کہ بچے پڑھیں بلکہ وہ ہمیں اخبار اور رسالے پڑھتے دیکھ کر کہتیں کہ مجھے بھی پڑھ کر سنائو۔ بہن کی ڈیوٹی ہوتی کہ کھانے کے بعد وہ لالٹین کی روشنی میں اماں کو اخبار میں سے منو بھائی اور عبدالقادر حسن کے کالم پڑھ کر سناتیں۔ دن کے وقت وہ بہن سے سب رنگ، سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ کی کہانیاں سنتی تھیں۔ کبھی کہانیوں کے کردار سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور کبھی ان کے آنسو نکل آتے۔ جبکہ میں اخبار سے جاوید اقبال کارٹونسٹ کے کارٹون دیکھ کر اس طرح کی لکیریں کھینچنے کی کوشش کرتا اور سلیم بھائی حوصلہ افزائی کرتے رہتے۔
منو بھائی سے اخباری تعارف انیس سو اسّی کی دہائی میں ہو چکا تھا۔ سلیم بھائی لیہ شہر میں بینک میں نوکری کرتے تھے۔ وہ گائوں واپسی پر اخبار لاتے تھے جو ایک دن لیٹ لیہ پہنچتا تھا۔ شام کو اماں کا حکم ہوتا بہن کو، جو میٹرک میں پڑھتی تھیں، کہ مجھے منو بھائی اور عبدالقادر حسن کے کالم پڑھ کر سنائو۔
ایک شام یوں لگا جیسے گھر میں کوئی بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ منو بھائی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ان کے گھر پر چور آئے اور ان کا ٹی وی چوری کرکے لے گئے۔ اماں یہ کالم سن کر بہت اداس ہوئیں۔ بولیں: بے چارہ اب کیسے ٹی وی دیکھتا ہوگا؟ ان دنوں ہمارے اپنے گائوں میں نئی نئی بجلی آئی تھی اور بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی اپنے قدم جما رہا تھا۔ ابھی دو چار گھرانوں میں ٹی وی آیا تھا، جہاں پورا گائوں اکٹھا ہوکر شام کو ٹی وی دیکھتا تھا۔ اماں بھی دھیرے دھیرے ٹی وی کی عادی ہو رہی تھیں لہٰذا انہیں اندازہ تھا کہ ٹی وی دیکھنے کا نشہ کیا ہوتا ہے۔ اگلے دن سلیم بھائی تیار ہوکر بینک جانے لگے تو ان سے بولیں کہ اب اس کا کیا کیا جائے؟ سلیم بھائی بولے: کس کا ؟ بولیں: کل رات کالم سنا تھا پتا چلا چور منو بھائی کا ٹی وی چوری کر کے لے گئے ہیں۔ بے چارے کے پاس نیا ٹی وی خریدنے کے پیسے نہیں ہوں گے ورنہ وہ کالم نہ لکھتے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ انہیں کچھ پیسے بھجوا دوں کہ وہ ٹی وی خرید لیں۔ سلیم بھائی ہنس پڑے اور بولے: آپ کہاں سے تین چار ہزا روپے لائیں گی؟ اماں‘ بابا کی وفات کے بعد زمین کاشت کرتی تھیں اور انہوں نے بھینسیں، گائیں اور بکریاں پال رکھی تھیں‘ جنہیں کبھی کبھار بیچ کر وہ جہاں زمین کاشت کرنے کے خرچے پورے کرتی تھیں وہیں ہماری فیسوں کے پیسے بھی نکال لیتی تھیں۔
اماں بولیں: دو چار بکریاں بیچ دیتی ہوں، تم بتائو کیسے بھیجو گے۔ ہم سب ہنس پڑے۔ اماں ایسی ہی تھیں۔
برسوں بعد ایک دن عامر متین کے اسلام آباد والے گھر میں منو بھائی سے ملاقات ہوئی۔ ایک منکسر مزاج اور پیارا نسان۔ میں نے انہیں یہ واقعہ سنایا۔ مسکرا پڑے اور بولے :وہ ٹی وی چوری والا اتنا پرانا کالم۔ پھر پیار سے پنجابی میں بولے: اس لیے کہتے ہیں کہ ماواں سانجھیاں ہوتی ہیں۔
منو بھائی سے رومانس گائوں سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ ان کے کالم اور تحریروں میں جو انسان دوستی اور کمزوروں کے لیے پیار تھا، وہ کم ہی لکھاریوں میں ملے گا۔ ان کا ایک فقرہ آج تک میرے دل پر لکھا ہے کہ ہم تو وہ انسان دوست ہیں کہ جتنی ہمدردی ہمیں مقتول کی ماں سے ہوتی ہے، اتنا دکھ اور درد قاتل کی ماں کے لیے بھی محسوس ہوتا ہے۔
میں لاہور اپنی خالہ سائرہ کے گھر کزنز کے ساتھ چھٹیاں گزارنے جاتا تھا۔ یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال کے پیچھے گلبرگ تھری میں ان کا گھر تھا۔ وہ لاہور کچھ اور تھا۔ تقریباً ہر روز بارش ہوتی اور لاہور کا حسن نکھر کر سامنے آتا۔ ہر طرف ہریالی اور صاف ستھری فضا۔ لاہور میں ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں گزارے وہ دن آج بھی ہانٹ کرتے ہیں۔ ایک دن میں نے خالہ کو کہا کہ میں نے منو بھائی سے ملنا ہے۔ وہ بولیں: بالکل ایسے لوگوں سے ملتے رہا کرو۔ میں نے ان کے گھر سے منو بھائی کے اخبار کے دفتر فون کیا۔ ان سے منو بھائی کے گھر کا فون نمبر لیا۔ ڈائل کیا تو پتا چلا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ اگلے دن فون کیا تو ان سے بات ہو گئی۔ میں نے پوچھا :منو بھائی سے بات ہو سکتی ہے۔ بولے: بول رہا ہوں۔ میں نے ایک سنسنی سے محسوس کی کہ جسے ساری عمر پڑھتے رہے، ان سے بات ہو رہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں لیہ سے آیا ہوں، آپ سے ملنا ہے۔ بولے: کل آ جائو۔ میں نے پوچھا پتا بتا دیں۔ انہوں نے پوچھا: کہاں سے آنا ہے۔ بتایا: گلبرگ سے۔ بولے: فلاں ویگن یو سی ایچ سے تمہیں اچھرہ تک لائے گی اور وہاں سے فلاں ویگن پر تم ریواز گارڈن تک آنا اور پھر کسی سے پوچھ لینا۔
اگلے دن میں نے یہی کام کیا۔ جب ریواز گارڈن میں پوچھتا پچھاتا ان کے گھر پہنچا اور ڈور بیل بجائی تو ان کی مسز نے دروازہ کھولا۔ میں نے پوچھا: منو بھائی گھر پر ہیں۔ بولیں: وہ تو باہر گئے ہوئے ہیں۔ میرے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھ کر بولیں: آپ رئوف ہیں؟ میں نے کہا: جی۔ بولیں: وہ جاتے ہوئے بتا گئے تھے کہ کوئی رئوف نام کا بندہ آئے گا، اسے گھر بٹھا دیجئے گا۔ انہوں نے مجھے اندر بٹھایا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ پیدل چل کر میرا پسینہ نکل آیا تھا۔ پنکھا چلا دیا اور میرے لیے اندر سے شربت کا ایک گلاس لے آئیں۔
میں ان کی کتابوں کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد منو بھائی خود تشریف لائے اور بہت محبت سے ملے۔ مجھ سے حال احوال پوچھنے لگے۔ کہاں سے آیا ہوں، کیا کرتا ہوں، اتنی دور گائوں میں ان کا کالم کیسے پڑھا جاتا ہے۔ میں ان دنوں انگریزی ادب میں بی اے کر رہا تھا۔ ادب پر بات ہونے لگی۔ کسی مرحلے پر بھی مجھے محسوس نہ ہوا کہ میں کسی بڑے کالم نگار یا ٹی وی ڈرامہ رائٹر سے مل رہا ہوں۔ کسی لمحے بھی مجھے شک نہ گزرا کہ ان کے اندر کوئی احساسِ برتری ہے یا وہ اپنے کسی معمولی سے فین سے مل رہے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک گھنٹے تک وہ مجھ سے ایسے باتیں کرتے رہے جیسے میں ان کے برابر کی چوٹ کا ہوں۔ان دنوں نہ موبائل فونز تھے اور نہ ہی کیمرے کہ ان کے ساتھ سیلفی لے لیتا یا پھر کوئی تصویر محفوظ رکھتا۔
عامر متین سے وہ پیار کرتے تھے اور اسلام آباد میں عامر کے گھر جمی محفلوں میں ان سے دو تین دفعہ ملاقات ہوئی۔ وہ خوبصورت پنجابی میں بات کرتے اور ان کی شخصیت ایسی تھی جو آپ کو اپنے قریب کھینچ لیتی تھی۔ عامر متین کا گھر لاہور کے تمام دانشوروں، کالم نگاروں اور صحافیوں کا اسلام آباد میں ٹھکانہ ہوتا تھا اور اب بھی ہے۔ 
منو بھائی اس طرح کی محفل میں اس وقت بات کرتے جب کوئی بلاتا، یا اصرار کرتا تو پھر خوبصورت پنجابی شاعری سناتے۔ عامر متین کے گھر ہی ان کے کئی قصے سنے یا انہوں نے خود سنائے۔ مرحوم شاعر جاوید شاہین کے ساتھ ان کا یارانہ تھا اور عامر متین کے پاس دونوں دوستوں کی کئی ان کہی داستانیں تھیں۔
سوچتا ہوں اگر منو بھائی پر کوئی لکھ سکتا ہے اور ان کی شخصیت کا پورا احاطہ کر سکتا ہے تو وہ عامر متین ہے، جس کے ساتھ ان کا بچوں جیسا پیار تھا۔ عامر متین ان کا لاڈلا تھا۔ ویسے تو ہر دوسرے دوست کے لیے عامر پریشان ہوتا ہے لیکن اگر کسی کے لیے زیادہ پریشان دیکھا گیا تو وہ منو بھائی تھے۔ کئی دفعہ پلان بناکہ اکٹھے لاہور منو بھائی کے گھر جائیں گے۔ پلان بنتے ہی رہے، عمل نہ ہو سکا۔
منو بھائی کی وفات کا سن کر بے ساختہ اماں یاد آئیں، جو منو بھائی کے کالموں کی فین تھیں۔ گائوں کے گھر کی چھوٹی کوٹھری یاد آئی‘ جس میں سردیوں میں آگ کی تپش محسوس کرتے کرتے وہ بہن سے کالم سنتے ہوئے اداس ہوگئی تھیں کہ منو بھائی کا ٹی وی چوری ہوگیا ہے اورکافی سوچ بچار کے بعد بولی تھیں کہ وہ اپنی دو چار بکریاں بیچ کر منو بھائی کو پیسے بھجوائیں گی تاکہ وہ نیا ٹی وی خرید لیں۔ ہم سب فوراً ہنس پڑے تھے لیکن اماں کے چہرے پر پھیلی پریشانی اور سنجیدگی دیکھ کر ہم سب چپ ہو گئے اور چولھے میں جلتے انگارے مزید سرخ ہوگئے اور ان میں شامل‘ ماں کی ممتا کی تپش ہمیں اپنے گالوں پر محسوس ہو رہی تھی!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved