تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-01-2018

جانورستان اور خانہ پُری

ہاتھی
ایک گائوں سے ایک بار ہاتھی گزرا جو انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ گائوں کے سیانے آدمی کے پاس گئے اور پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے؟ سیانے نے ہاتھی والے سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ ہاتھی ہے۔ چنانچہ اُس نے اپنی ڈائری پر لکھ لیا‘ کچھ عرصے بعد وہاں سے ایک امرود بیچنے والا گزرا‘ لوگ سیانے کے پاس گئے اور پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس نے امرود فروش سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے امرود کہتے ہیں۔ سیانے نے یہ بھی اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔ کوئی سال بھر پھر وہاں سے ہاتھی گزرا تو لوگوں کو بھول چکا تھا‘ چنانچہ وہ سیانے کی طرف گئے اور پوچھا کہ یہ چیز پہلے بھی یہاں سے گزری تھی‘ کیا چیز ہے؟ سیانے نے اپنی ڈائری نکالی اور بولا ''یہ ہاتھی ہے یا امرود!‘‘
ایک اور ہاتھی 
جنگل میں ایک بار شیر نے ہاتھی سے پوچھا کہ جنگل کا سب سے طاقتور جانور کون سا ہے‘ تو ہاتھی نے اُسے اپنی سونڈ میں لپیٹ کر کوئی پچاس فٹ دُور پھینک دیا۔
شیر مٹی وغیرہ جھاڑتے ہوئے بولا ''اگر تمہیں معلوم نہیں تھا تو اِس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات تھی؟‘‘
شیر کی شادی
جنگل میں شیر کی شادی کی تقریب برپا تھی کہ وہاں ایک چوہا بھی اِدھر اُدھر بھاگا پھرتا تھا‘ کبھی وہ دیگوں والے کو ڈانٹتا تو کہیں تنبو قناط والوں کو۔ کسی نے اس سے پوچھا‘ ''شادی تو شیر کی ہے‘ تم یہاں کیا کر رہے ہوں؟‘‘
تو چوہا بولا ''شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا!‘‘
جاہل گھوڑا
ایک صاحب کسی دوسرے شہر جا رہے تھے کہ شہر کے قریب پہنچ کر اُن کی گاڑی بند ہو گئی‘ وہ نیچے اُترے‘ بونٹ کھولا انجن کو اِدھر اُدھر سے دیکھا‘ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو آواز آئی‘ اس کا کاربوریٹر خراب ہے‘‘
انہوں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ماسوائے ایک گھوڑے کے جو سڑک کے قریب چر رہا تھا۔ وہ صاحب دوبارہ انجن کی طرف متوجہ ہوئے تو پھر آواز آئی۔
''تمہیں کہا نا! کہ اس کا کاربوریٹر خراب ہے‘‘ انہوں نے مُڑ کر دیکھا تو گھوڑے کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ شخص اس قدر سراسمیہ ہوا کہ گاڑی وہیں چھوڑ کر شہر کی طرف بھاگا۔ شروع میں ہی ایک کولڈ کارنر تھا جس میں وہ جا بیٹھے اور کولڈ ڈرنک وغیرہ کا آرڈر دیا۔ سامنے والی میز پر جو دو آدمی بیٹھے تھے انہوں نے اُن سے پوچھا۔ ''کیا بات ہے‘ آپ بہت پریشان لگتے ہیں‘‘ وہ بولے‘''کوئی بات نہیں‘‘ لیکن انہوں نے اصرار کر کے پوچھا تو اُن صاحب نے اپنی کہانی شروع کی۔ وہ سناتے جاتے اور وہ لوگ مسکراتے جاتے۔ آخری جملے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ ''میں اتنا پریشان ہوں اور آپ کی ہنسی ہی نہیں تھمتی‘‘
تو اُن میں سے ایک بولا ''اُس گھوڑے کو ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں‘ وہ بکواس کرتا ہے‘‘ اُسے گاڑی کے پرزوں بارے کچھ پتا نہیں‘‘
اُونٹ اور بکری
ایک شخص ایک اونٹ اور ایک بکری کے ہمراہ ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا تو انتظامیہ سے بولا یہ دونوں گانا بہت اچھا گاتے ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو اپنے مہمانوں کی تفننِ طبع کے لیے اسے خرید سکتے ہیں۔ انتظامیہ کو یہ بات عجیب اور اچھی لگی‘ چنانچہ انہوں نے ہال میں اپنے مہمانوں کو اکٹھا کیا جس کے سٹیج پر اونٹ اور بکری نے ایسا گانا گایا کہ سب عش عش کر اُٹھے اور ہال بڑی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ چنانچہ انہوں نے دونوں جانور خرید لیے۔ اس کے بعد وہ شخص بولا۔
سودا تو ہو گیا ہے اور میں نے رقم بھی وصول کر لی ہے لیکن میں ایک بات آپ سے چھپانا نہیں چاہتا۔ ''وہ کیا ہے؟‘‘ انتظامیہ کے پوچھنے پر وہ بولا :گانا دراصل بکری گاتی ہے اور اونٹ ساتھ ساتھ صرف ہونٹ ہلاتا جاتا ہے‘‘۔
خوفزدہ لُومڑی
جنگل میں ایک لومڑی کہیں بھاگی جا رہی تھی کہ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولی ''جنگل میں فوج آئی ہوئی ہے اور وہ تین کانوں والے جانوروں کو ہلاک کر رہے ہیں!‘‘ لیکن تمہارے تو دو کان ہیں‘ تمہیں کیا خوف ہے؟ تو وہ بولی‘ ''کان وہ گولی مارنے کے بعد گنتے ہیں‘‘
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ ترین غزل :
یہ سُو بہ سو نہیں اور جا بہ جا سے ہٹ کر ہے
کہ گفتگو تری حمد و ثنا سے ہٹ کر ہے
ہمارے خواب کسی نیند کے نہیں محتاج
ہمارے سانس کی سلوٹ ہوا سے ہٹ کر ہے
نئی نئی جو لگی ہے اک اور بیماری
علاج اِس کا دوا اور دُعا ہے ہٹ کر ہے
محبت اپنے حدود و قیود میں ہے مگن
کہ یہ معاملہ جُرم و سزا سے ہٹ کر ہے
ہے اتنا حُسن اسی خاکداں پہ جلوہ فگن
سو‘ یہ نظر ابھی اُس خوشنما سے ہٹ کر ہے
ہر ایک اپنی جگہ پر ہے خود کفیل اتنا
یہاں پہ ساری خُدائی خدا سے ہٹ کر ہے
ابھی نہیں کوئی آسودگی کی گنجائش
یہ انتظام ہما و شما سے ہٹ کر ہے
جو میرے باغ کے پتے ہلا رہی ہے بہت
میں جانتا ہوں یہ صرصر صبا سے ہٹ کر ہے
ہم اپنے پاتھ پہ بیعت کئے ہوئے ہیں‘ ظفرؔ
یہ سجدہ گاہ کسی نقش پا سے ہٹ کر ہے
آج کا مقطع
شور ہے اس گھر کے آنگن میں‘ ظفرؔ‘ کچھ روز اور
گنبدِ دل کو کسی دن بے صدا کر جائوں گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved