گزشتہ چند دنوں کے دوران بعض دینی تقریبات کا انعقاد ہوا، جنہوں نے عوام کی بڑی تعداد اور بالخصوص مذہبی طبقات کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروا لیا۔
12 جنوری کو دفاعِ پاکستان کونسل کے زیرِ اہتمام فیصل آباد‘ دھوبی گھاٹ میں ایک بڑی ''دفاع اُمت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس سابقہ کانفرنسوں کی طرح ہر اعتبار سے بہت کامیاب رہی اور اس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی اور دفاع پاکستان کونسل کے رہنمائوں سے اظہار یکجہتی کیا اور ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے دفاع پاکستان کونسل کے قائدین پر بھرپور انداز میں اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ کانفرنس ان ایام میں ہوئی جب بین الاقوامی سطح پر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی باتیں پوری شدومد سے کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کے حوالے سے بھی پاکستان کو مختلف طرح کے دبائوکا سامنا ہے۔ اس کانفرنس میں بیت المقدس کے خلاف امریکہ کے جارحانہ عزائم پر شدید تنقید کی گئی اور بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ دفاع پاکستان کونسل کے رہنمائوں نے اس موقع پر واضح کیا کہ جماعت الدعوۃ نے ملک میں ہمیشہ رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور یہ جماعت کسی بھی اعتبار سے اندرون و بیرون ملک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حافظ محمد سعید صاحب ملک کے ایک ممتاز دینی رہنما ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور کشمیر کے مسئلے کو اجاگرکرنے کے رائے عامہ کو بیدار کیا ہے۔ اہل کشمیر بھی ان کو اپنا مربی اور محسن تسلیم کرتے ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے کام کرنے والے کارکان ان کی جدوجہد کی وجہ سے اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ایک نیا حوصلہ اور توانائی محسوس کرتے ہیں۔ حافظ محمد سعید صاحب نے بھی کانفرنس میں اس بات کا ذکر کیا کہ گزشتہ برس جب انہوں نے دھوبی گھاٹ میں خطاب کرتے ہوئے 2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیا تو ان کو نظر بند کر دیا گیا تھا اور اب دوبارہ ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن وہ آئینی اور قانونی اعتبار سے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ امریکہ کی حافظ محمد سعید کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر حکومت پاکستان نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ حافظ محمد سعید صاحب کے خلاف بلا ثبوت کارروائی نہیں ہو سکتی۔ 12جنوری ہی کو لارنس روڈ پر معصوم زینب کے بہیمانہ قتل کے خلاف میرے دوست احباب نے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جس میں حکومت پاکستان سے معصوم بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے حیوان صفت لوگوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
16 جنوری کو ایوانِ صدر میں ''پیغامِ پاکستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں دہشت گردی، خود کش حملے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری جیسے اہم امور زیرِ بحث آئے۔ پاکستان کی نمائندہ دینی جماعتوں نے ہمیشہ پاکستان میں قتل وغارت گری اور تشدد کے اس رجحان کی مذمت کی ہے کہ جس کے نتیجے میں نجی یا سرکاری املاک یا جان و مال کو نقصان پہنچایا جائے۔ پیغامِ پاکستان کانفرنس میں بڑی تعداد میں علمائے کرام نے جمع ہو کر متفقہ مؤقف کا اعادہ کیا۔ اور اس امر کو واضح کیا کہ پاکستان کے محب وطن علماء کسی بھی طور پر ایسی سرگرمیوں کی حمایت نہیں کر سکتے کہ جن کے نتیجے میں قتل و غارت گری اور سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر حملے کا کوئی جواز فراہم کیا جا سکے۔ تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام کے اس نمائندہ اجتماع کے ذریعے پیش کیا جانے والا پیغام یقینی طور پر پاکستان کے ہر اسلام پسند اور محب وطن شہری کے دل کی آواز ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک کی نمایاں دینی جماعتیں ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہیںاور اس کے لیے شدت پسندی اور قتل و غارت گری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے‘ بہترین راستہ یعنی آئینی اور سیاسی طریقے کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حضرت محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا وژن بھی پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا۔ مالاکنڈ کے ممتاز رہنما صوفی محمد نے بھی اپنی رہائی کے بعد انہی خیالات کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں قتل وغارت گری کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے اور معصوم جانوں کو تلف کرنے والے لوگ پاکستان کے بہی خواہ نہیں ہو سکتے۔
16 جنوری کو ہی اسلامی جمعیت طلباء نے ایوانِ اقبال لاہور میں ''انٹرنیشنل قرآن کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا۔ جس میں سیّد منور حسن، اوریا مقبول جان، قاری صہیب میر محمدی و دیگر ممتاز سکالرز کو خطاب کے لیے مدعو کیا گیا۔ مجھے بھی اس موقع پر ''قرآن مجید ایک زندہ معجزہ‘‘ کے حوالے سے تقریر کرنے کا موقع میسر آیا۔ میں نے اس موقع پر جن باتوں کو سامعین کے سامنے رکھا، ان کو میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
1۔ عربی زبان کی تازگی: دنیا میں ہر زبان ارتقا کے مختلف ادوار سے گزرتی ہے۔ چنانچہ جب ہم قدیم اردو ادب پر غور کرتے ہیں تویہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس عہد کے کئی الفاظ عصرحاضر میں متروک ہو چکے ہیں۔ اسی طرح قدیم انگریزی لٹریچر پر غورکرنے کے بعد اس بات کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ قدیم انگریز ی زبان کے بہت سے الفاظ بھی وقت گزرنے کے ساتھ متروک ہو چکے ہیں لیکن یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید میں استعمال ہونے والے الفاظ ہر اعتبار سے تروتازہ ہیں اور ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا۔ 14 سو برس کے دوران مختلف زبانوں نے بہت ترقی کی اور ارتقا کے بہت سے سفر طے کیے لیکن قرآن مجید اور اس میں مذکور عربی زبان کی تروتازگی میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔
2۔ مضامین میں ہم آہنگی: ہر انسان علم، تجربات اور مشاہدے سے بہت سی چیزیں سیکھتا اور سمجھتا ہے چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑے سے بڑے ادیب اور شاعر کے کلام اور مضامین میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں لیکن چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا علم ہر قسم کی خطا سے پاک ہے۔ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام میں یہ نمایاں خصوصیت موجود ہے کہ اس کے مضامین میں غیر معمولی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کے مضامین میں کسی قسم کا باہمی تضاد نہیں پایا جاتا یہ ایک زندہ معجزہ ہونے کی دوسری بڑی دلیل ہے۔
3۔ شفا یابی: قرآن مجید گو کہ تعلیمات، قوانین اور احکامات کا مجموعہ ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت میں مختلف روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج ہے اور ہر عہد کے ہزاروں لوگ قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے شفا یاب ہو چکے ہیں اور یہ ایک ایسی مشاہداتی اور تجرباتی حقیقت ہے جس کو جھٹلانا نا ممکن ہے۔ یہ بھی قرآن مجید کے ایک زندہ معجزہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔
4۔مستقبل کی خبریں: قرآن مجید ایک ایسی معجزاتی کتاب ہے جس میں فقط اقوام سابقہ کی تباہی اور بربادی ہی کے اسباب اور واقعات بیان نہیں کیے گئے بلکہ قرآن مجید میں مستقبل اور حیات بعد الممات کی جزیات کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ اس کے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام ہونے کی بین دلیل ہے۔
5۔ خطیبوں اور شعراء کا اس کے مقابلے میں عاجز آ جانا: نزول قرآن کے دور میں بہت سے قادر الکلام شاعر، خطیب اور ادیب موجود تھے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نزول قرآن کے عہد سے لے کر آج تک کوئی شخص بھی کلام اللہ کی نظیر پیش کرنے پر قادر نہیں ہو سکا جو کہ اس کے منزل من اللہ ہونے کی دلیل قطعی ہے۔ بڑے بڑے رئوسا اور سردار تو ایک طرف رہے‘ حبشہ کا عیسائی بادشاہ نجاشی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا سمجھتا تھا، بھی حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے سورہ مریم کی آیات کو سننے کے بعد قرآن مجید کی اثر انگیزی کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکا اور نتیجتاً حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ اسلامی جمعیت طلباء کی اس پروقار تقریب میں سامعین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور یہ تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے اختتام پزیر ہو گئی۔
حالیہ دنوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوتی ہوئی نظر آئی ہے اور ملک کی کئی اہم مذہبی سیاسی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے اتحاد قائم کر لیا ہے۔ اس اتحاد کا اہم اجلاس 18 جنوری کو لاہور میں منعقد ہوا۔ گو اس اتحاد میں ملک کی کئی مؤثر دینی جماعتیں شامل نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اتحاد کئی اعتبار سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے اور ملک کی سیاست پر اس اتحادکے بننے سے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ متحدہ مجلس عمل نے ماضی میں بھی ملک میں اسلامی شعائر اور سیکولر سیاست کے بڑھتے ہوئے اثرات کی روک تھام کے لیے مؤثر کردار ادا کیا تھا اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں اچھی گورننس کے حوالے سے نمایاں شہرت حاصل کی تھی۔ ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ملک کی خالص سیاسی جماعتوں کے مقا بلے پر مذہبی سیاسی نقطۂ نظر رکھنے والے سرکردہ رہنمائوں کی کاوش ہے اور ملک کے مذہبی ووٹروں کے لیے اس اتحاد کے قیام کے بعد ایک نئی آپشن سامنے آئے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ مذہبی سیاسی جماعتیں جو متحدہ مجلس عمل میں شامل نہیں ہیں، اس اتحاد سے باہر رہتے ہوئے علیحدہ اتحاد تشکیل دیتی ہیں یا متحدہ مجلس عمل کو وسعت دیتے ہوئے ان جماعتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر ملک میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا تعین ہو گا۔