تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     21-01-2018

جو عقل سے کام نہیں لیتے

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کس خوبی کی بنیاد پر انسان اس کرّۂ خاک پہ اس قدر غالب (Dominant) ہو سکا۔ ایک کمزور جسم کا مالک، جس کے پاس نہ شیر جیسے ناخن اور دانت، نہ ہاتھی جیسی سونڈ اور نہ قد و قامت، نہ بندر جیسی پھرتی، نہ کتے جیسی سونگھنے کی صلاحیت اور نہ اندھیرے میں دیکھنے والی آنکھیں، عقاب جیسے پَر اور آنکھیں بھی نہیں۔ اس کے باوجود اس قدر خوفناک غلبہ؟ فاسلز کا ریکارڈ گواہ ہے کہ آج تک جن پانچ ارب مخلوقات نے اس زمین پر زندگی گزاری ہے، ان میں انسان جیسی ایک بھی نہ تھی۔ ان میںسے کسی نے شعاعوں اور تاروں کے ذریعے ڈیٹا منتقل کرنا اور راکٹ سے دوسرے سیاروں پر اترنا تو ایک طرف، مستقل طور پر کوئی ہتھیار بھی استعمال نہیں کیا۔ چمپینزی بعض اوقات چھڑی کو بطور اوزار استعمال کرتے ہیں۔ بس اس سے آگے ان کی عقل جواب دے جاتی ہے۔ چھڑی کا استعمال بھی وقتی ہے۔ آج تک ایسا کوئی چمپینزی نہیں دیکھا گیا، جس نے مستقل طور پر چھڑی اپنے پاس رکھی ہو۔ دوسروں سے زیادہ بڑی اور موٹی لکڑی استعمال کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس کا سرا تراش کر اسے نوک دار بنانے کا تو سوچیں بھی مت۔
ان جانوروں کے سامنے، جن کا اوپر ذکر کیا، انسان کمزور ترین ہے۔ انسانوں میں کئی کئی سال تربیت کے بعد کمانڈوز دیوار پھلانگنے اور عمودی جگہ پر بھاگ کر چڑھنے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں، بلّی کے ہر بچّے میں وہ قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ انسانوں میں خوراک ذخیرہ کرنے کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد موٹاپے کا شکار ہے۔ ایک دفعہ میں نے چار پانچ کتے دیکھے، گرمیوں کی شام کو وہ ایک جگہ ٹھنڈی ریت پر لیٹے ہوئے تھے۔ پاس ہی ایک ریستوران میں سیخوں پر گوشت کے ٹکڑے بھونے جا رہے تھے۔ ان کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بے زبان جانوروں کی آنکھوں میں حسرت تھی ۔ ان بیچاروں پر ترس تو بہت آیا۔ اس کے بعد جب میں نے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے اپنے ہم نفسوں یعنی انسانوں کی طرف دیکھا تو انکشاف ہوا کہ ان میں سے اکثر موٹاپے کا شکار تھے، سوائے ان کے جو کم عمر تھے۔ کئیوں کو ذیابیطس اور بلند فشارِ خون بھی ہو گا۔ وہ لوگ بالکل سست ہو چکے تھے۔ پھر میں نے کتوں کی طرف دیکھا، وہ بھوکے تھے لیکن انتہائی چوکس۔ کچھ دیر کے لیے سمجھ نہیں آئی کہ زیادہ ہمدردی میں اپنے ساتھ کروں یا جو ریت پر لیٹے ہوئے ہیں‘ ان کے ساتھ۔ ان انسانوں کی اکثریت، جو تیس سال سے زیادہ عمر کی ہے، موٹاپے کا شکار ہے۔ گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے 27 فیصد افراد موٹاپے کا شکار ہیں... اور موٹاپا بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کرّۂ ارض پہ سب سے زیادہ غالب جاندار کیسی زندگی گزار رہا ہے۔
انسانی غلبے کی وجہ اس کی عقل ہے۔ اس عقل کی جہات (Dimensions) لامحدود ہیں۔ اگر آپ دیہات میں رہنے والے افراد سے کبھی لین دین کریں‘ جو ظاہر ہے کہ غلے، جانوروں یا زمین سے متعلق ہو گا، تو یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ زیادہ پڑھے لکھوں سے کمتر ہرگز نہیں۔ ان کے پاس اتنا ہی دماغ ہے، جتنا کہ ہمارے پاس۔ ہاں، ان میں عقل کے استعمال کی Dimensions بدل گئی ہیں۔
انسا ن کے پاس غور کرنے کی صلاحیت ہے۔ اگر آپ حسیات (Senses) یعنی ناک، کان، زبان، جلد اور آنکھوں کے ذریعے ڈیٹا اپنے دماغ میں لے جانے اور اس پر ردّعمل دینے (Respond) کرنے کی صلاحتیں دیکھیں تو جانور ہرگز انسانوں سے کمتر نہیں بلکہ وہ ہم سے برتر (Smarter) ہیں۔ ہاں! جس چیز میں وہ مار کھا جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ لمبی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ وقتی ردّعمل (Reaction) سے بڑھ کر کسی واقعے کا تجزیہ اور پھر اس کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ اس کمتری نے جہاں انہیں اس کرّۂ ارض پہ انسان کے ہاتھوں مغلوب کر ڈالا ہے، وہیں اس کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ ہم جہاں غور و فکر کی انسانی صلاحیت کو For Granted لیتے ہیں اور اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے، وہیں اس کے ساتھ حساب کتاب بھی رکھا گیا ہے۔ زمین و آسمان تخلیق کرنے والے رب نے صاف صاف انسانوں کو بتا دیا ہے کہ آخر میں تمہارا حساب کتاب ہو گا۔ تم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ٹھہرو گے۔ دنیا میں اس عقل کی بنیاد پر جو مسائل انسان کو درپیش ہوتے ہیں، ان میں نازک احساسات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غم، مستقل احساسِ کمتری اور خود ترحمی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ انسان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آ جائے، وہ ساری زندگی یاد رکھتا ہے۔ جانوروں کو ڈنڈے مارتے رہو، جیسے ہی سبز چارہ سامنے آتا ہے، وہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ جانور اس بات پر کبھی افسردہ نہیں ہوتے کہ مالک خود تو ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھا ہے اور اسے گرم جگہ پر باندھ رکھا ہے۔ ایک بھینس کو گرمیوں میں جیسے ہی کیچڑ نظر آتاہے، وہ خوشی سے اس میں بیٹھ جاتی ہے بلکہ لوٹنے لگتی ہے۔ اسے اپنے جسم پر گارا لگنے پر کراہت کا احساس نہیں ہوتا۔ اسے صرف اور صرف ٹھنڈک سے مطلب ہے۔ اسے تو یہ نہیں پتا کہ رفع حاجت کے لیے ایک جگہ مخصوص ہونی چاہیے۔ الٹا وہ گند کر کے خود ہی اس کے اوپر بیٹھ جاتی ہے۔ اسے یہ خوف بھی نہیں ہے کہ کل کھانا ملے گا یا نہیں۔ اس کے برعکس انسانوں کی اکثریت کو کل کا شدید ترین خوف لاحق ہے۔ میرا کیا بنے گا؟ یہ ادارہ‘ جس میں مَیں کام کرتا ہوں، اگر بند ہو گیا تو میں کہاں جا کر کام کروں گا؟ کہیں اور نوکری ملے گی یا نہیں؟ کم آمدنی والے ملازموں سے زیادہ بادشاہ اور سیاستدان خوف کا شکار ہیں۔ پوری زندگی انسان خوف میں ہی مبتلا رہتا ہے۔ جانوروں میں اس طرح کے نفسیاتی مسائل نہیں ہیں، جیسے کہ انسانوں میں ہوتے ہیں۔
ویسے اگر آپ جسمانی طور پر دیکھیں، جانوروں میں جِلد اسی طرح چھونے کا احساس دماغ تک لے کر جاتی ہے، جیسے انسانوں میں۔ گردے اور پھیپھڑے اسی طرح خون صاف کرتے اور آکسیجن اسی طرح خون میں دوڑتی ہے۔ دل اسی طرح دھڑکتا ہے۔ دماغ میں جذبات اسی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ صرف اور صرف غو ر و فکر اور منصوبہ بندی کی صلاحیت نہیں ہے۔
ان سب چیزوں پر غور کرنے کے بعد اب آپ ایک لمحے کے لیے ذرا رک کر سوچیں۔ انسان میں غور و فکر اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت اگر اسے سب جانداروں پر غالب کرتی ہے تو کیا یہ انسان نے اپنی محنت سے حاصل کی ہے یا بیٹھے بٹھائے‘ خدا کی طرف سے بطور تحفہ ملی ہے؟ جو بھی انصاف سے کام لے گا، وہ یہی کہے گا کہ انسان کو یہ صلاحیتیں خدا کی طرف سے ملی ہیں، ان میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ اس کے بعد جب آپ پر یہ انکشاف ہو کہ انسانوں کی اکثریت تو اپنی پوری زندگی میں خدا کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتی ہی نہیں بلکہ اس بات پر بھی غور نہیں کرتی کہ مجھ میں عقل کیوں ہے اور باقیوں میں کیوں نہیں۔ تو پھر اس صورتِ حال پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟ قرآن ایسے لوگوں کے لیے جو عقل سے کام نہیں لیتے، 'شر الدواب‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے... بدترین جانور!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved