تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-01-2018

شجاعت اور جوتے

سسٹم کی خرابی کیا کیا گل کِھلاتی ہے‘ اِس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں۔ سب سے پہلے تو یہی بات سمجھ لیجئے کہ ہم عام طور پر سسٹم سے مراد حکومت، ریاستی مشینری یا اشرافیہ لیتے ہیں۔ یعنی بڑے جو کچھ طے کرتے ہیں وہی سسٹم ہے۔ ٹھیک ہے، یہ بات ایک خاص حد تک درست ہے مگر حکمرانی کے طریقوں اور حکمرانوں کے مزاج ہی کو سسٹم قرار دے کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
ہماری مجموعی سوچ، اندازِ عمل، جذبۂ عمل، مزاج کی خوبیاں اور خرابیاں... سبھی کچھ سسٹم کا حصہ ہیں۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے اور کرتے ہیں وہ پورے معاشرے پر محیط ہوتا ہے کیونکہ معاشرے ہی سے تو ہم بہت کچھ اخذ کرکے اپنی سوچ تشکیل دے رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں سسٹم کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں تب دراصل اپنے آپ کو بھی ملزم قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
فی زمانہ کسی بھی معاملے میں جان چھڑانے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ جو بھی خرابی پیدا ہو‘ وہ سسٹم کے کھاتے میں ڈال دی جائے۔ جان چھڑانے کا اِس سے آسان طریقہ بھلا کون سا ہو سکتا ہے؟
آگرہ کی وجہ شہرت تاج محل ہے جو ایک شہنشاہ نے اپنی ملکہ کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ اِسی آگرہ میں ایک اور شہنشاہ بھی ہے جو بے چارہ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کے انتظار میں سوکھ گیا۔ 2009 میں، جب پرتیبھا پاٹل بھارت کی صدرِ مملکت تھیں، شہنشاہ نے، جو اس وقت گیارہ سال کا تھا، جان کی بازی لگا کر دو افراد کو دریائے جمنا کے بپھرے ہوئے دھاروں میں بہنے سے بچایا تھا۔ شجاعت کے اس نمونے کو آگرہ سے نئی دہلی تک نہیں بلکہ پورے ملک میں سراہا گیا تھا۔ پرتیبھا پاٹل نے شہنشاہ کو ایوانِ صدر مدعو کرکے تمغۂ شجاعت سے نوازا تھا۔ تب اُس سے ایک اہم وعدہ کیا گیا تھا... یہ کہ اس کی تعلیم کا خرچ حکومت برداشت کرے گی۔
شہنشاہ نے سوچا ہوگا کہ اب تو زندگی بن گئی۔ سرکاری وعدوں کی پھوار میں کچھ دیر کے لیے انسان فرحت محسوس کرتا ہی ہے۔ آگرہ کا ہونے کے ناتے شہنشاہ نے بھی اپنے ذہن میں اچھی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک تاج محل کھڑا کر لیا۔ وہ دن رات اپنے ذہن کے تاج محل میں رہتا تھا اور باقی دنیا کو اپنے لیے لاتعلق سمجھتا تھا۔
مگر یہ سلسلہ زیادہ دن چل نہ سکا۔ صدارتی تمغۂ شجاعت سے نوازے جانے کے وقت اُس سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ جب کئی ماہ گزرنے پر بھی عمل پذیر ہوتے دکھائی نہ دیئے تو شہنشاہ نے متعلقہ سرکاری مشینری کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔ اور پھر کوششوں نے رائیگاں جانا شروع کردیا۔ ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق‘ ہر کوشش کے نتیجے میں کیس زیادہ پیچیدہ ہوتا گیا اور پھر شہنشاہ کو اندازہ ہوگیا کہ دریائے جمنا کے بپھرے ہوئے دھاروں میں موت کے خلاف اُس کی جدوجہد اور دو افراد کو ''جیون دان‘‘ اُس کا ذاتی معاملہ تھا۔ سرکاری مشینری ہو یا باقی معاشرہ... کسی کو بھی اِس بات سے، بظاہر، کچھ خاص غرض نہیں تھی کہ کس نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کسے بچایا۔ یہ اگر عظیم فعل تھا بھی تو صرف شہنشاہ کے لیے تھا، کسی اور کے لیے نہیں۔ وہ اپنے اس کارنامے پر زندگی بھر فخر کر سکتا ہے۔ یہ آپشن اُس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
شہنشاہ غریب گھر کا تھا۔ وہ اچھی تعلیم چاہتا تھا اور اس کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ جب سرکاری وعدہ وفا نہ ہوا تو اپنی ناکامی پر مسکرانے کے سِوا شہنشاہ کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ اُس نے یہی سوچ کر دل کو تسلّی دے لی کہ ؎
محبت کا صِلہ کیا مانگے ہو؟ 
محبت آپ ہی اپنا صِِلہ ہے!
ہم جس خطے کے باسی ہیں‘ اُس میں اقدار باسی ہو چکی ہیں۔ معاشرہ خطے کے کسی بھی ملک کا ہو، اجتماعی نفسیات کے بنیادی خواص یکساں ہیں۔ ہر مہمل بات وقعت پاتی ہے اور ہر کام کی بات یوں نظر انداز کر دی جاتی ہے جیسے شرمندگی کا باعث ہو۔
شہنشاہ نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بپھرے ہوئے دریا کے جبڑوں سے دو افراد کو نکالا یعنی بظاہر اُن کی یقینی موت کو ٹالا۔ یہ کارنامہ ایسا نہیں کہ نظر انداز کر دیا جائے۔ اس پر تو پورے شہر کو ناز ہونا چاہیے تھا۔ آگرہ چونکہ اتر پردیش کا حصہ ہے اس لیے اتر پردیش کی حکومت کو بھی ہوش آنا چاہیے تھا۔ اگر جیب تھوڑی سی ڈھیلی کر دی جاتی یعنی شہنشاہ کو ایک اچھی زندگی بسرکرنے کے قابل بنانے کے لیے تھوڑی بہت مقامی یا ریاستی فنڈنگ کر دی جاتی تو اِس میں کیا ہرج تھا؟
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوںکیا جاتا۔ شہنشاہ کے معاملے میں بھی وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔ وہ کچھ بننا چاہتا تھا مگر کسی نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ نہیں تھاما۔ کوئی کیوں تھامتا؟ پورے معاشرے کی روش یہ ہے کہ کسی کو بہتر زندگی کی طرف بڑھتے ہوئے نہ دیکھا جائے۔ شہنشاہ کے شہر میں کھاتے پیتے لوگوں کی کمی تو نہیں۔ شہر کی توقیر بڑھانے والے کو اگر شہری انتظامیہ کی مدد سے کچھ دے دیا جاتا تو کیا تھا۔ کوئی صاحبِ ثروت آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ اِسی بنیاد پر تھام سکتا تھا کہ اُس نے شہر کی توقیر میں اضافہ کیا ہے مگر سوال پھر وہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا۔ یہاں تو سسٹم کو موردِ الزام ٹھہرانے کی عادت ہے۔ یہ عادت ہر اچھے کام کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
پورے خطے کی نفسیاتی ساخت کچھ ایسی ہے کہ کسی بھی اچھے کام کا صلہ دینے میں شدید الجھن محسوس کی جاتی ہے۔ اگر کسی نے کوئی بڑی نیکی کی ہو تو یہ سوچ کر دل کو بہلا لیا جاتا ہے کہ نیکی تو آپ ہی اپنا صلہ ہے۔ شہنشاہ اس بات کا مستحق تھا کہ اُسے تھوڑی سے مدد کے ذریعے بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنایا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اور اُس نے بالآخر مایوس و مجبور ہوکر جُوتے بنانے والے کارخانے میں ملازمت اختیار کر لی۔ آج وہ جوتے گانٹھ رہا ہے۔ یہ بھی اُس پر اللہ کا کرم ہے کہ محنت کی کمائی نصیب ہو رہی ہے۔ تعلیم و تربیت کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ حکومت، کسی غیر سرکاری تنظیم یا کسی مخیّر شخصیت نے ایفا نہیں کیا تو کوئی بات نہیں۔ یہ حسین یاد بھی کیا کم ہے کہ کبھی اُسے محض گیارہ سال کی عمر میں ملک کے ایوانِ صدر میں مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا اور اُس وقت کی صدرِ مملکت کے ہاتھوں تمغۂ شجاعت پہنایا گیا تھا! انتہائی پس ماندہ معاشرے میں کسی غریب کو اتنا بھی مل جائے تو بہت سمجھیے۔ بہرکیف، شہنشاہ کا کیس ہر پس ماندہ معاشرے کے لیے ایک درس ہے کہ اگر کسی نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو اُسے پریشانی اور پس ماندگی کے مایا جال سے نکال کر بہتر زندگی کی طرف لے جایا جائے۔ بہت سے لایعنی اعمال پر لوگوں کو کھل کر نوازنے کی روش عام ہے۔ سب سے بڑی پس ماندگی یہی ہے۔ ایسی پس ماندگی میں حقیقی شجاعت کا مظاہرہ کرنے والے جوتے گانٹھتے ہی پائے جانے چاہئیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved