تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-01-2018

پارلیمنٹ… اور غیرت جاگ گئی!

پارلیمنٹ نے کسی کو بینائی بخشی، کسی بیمار کو دوائی بخشی۔ معذور کو توانائی بخشی، کسی بے گناہ قیدی کو رہائی بخشی۔ خود کشی کرنے والے کسی بے آسرا کو روک کر زندگی کی رعنائی بخشی؟ یا پھر اقوامِ عالم میں ملک کو توقیر دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی توہین کا جواب دیا۔ مودی کی ہرزہ سرائی کا نوٹس لیا۔ چار عشرے قدیم، ہم سے بے زار، 40 سال سے ہمارے وسائل پر پلنے والے زبردستی کے افغان مہمانوں کو واپس بھجوایا۔ بھارتی چیف کے ایٹمی جنگ کے اعلان پر کوئی قرارداد پیش کی۔ فاٹا کو آزادی حاصل کرنے کا سبق دینے اور کے پی کے کو افغانستان کا حصہ کہنے والے کو پاکستان کی اسمبلی سے نکلوایا۔ چلیے اس کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسا ہسپتال بنوایا جہاں حکمرانوں کی مینڈکی کے زکام کا چیک اپ ہو سکے۔ اسے بھی جانے دیتے ہیں۔ کسی تھانے کا کلچر بدلا، کسی محکمے کا چلن بدلا، ملک میں کرپشن کے ناسور پر سرجیکل سٹرائیک کی۔ یا ماورائے عدالت قتل ہونے والے شہریوں کے غم میں فاتحہ خوانی کے لیے ہاتھ بلند کیے۔ پارلیمنٹ نے دولت کی تقسیمِ منصفانہ کے لیے بل پاس کیا؟ طلبا یونین کو بحال کرنے کے لیے قانون دے مارا۔ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کر دی۔ کسان کے لہو سے پیدا ہونے والے اناج کا معاوضہ بروقت ملنے کا ضابطہ بنا دیا۔ 
زینب سمیت ملک بھر کے ہزاروں مظلوم بچوں کی داد رسی کی‘ جن کی عزت بھی لوٹی گئی اور جان بھی چلی گئی۔ اماں حوّا کی لاکھوں بیٹیوں کے سرکاری جہیز دینے کا قانون بنایا‘ جن کے ہاتھ پیلے ہونے سے پہلے ان کے بالوں میں چاندی چمکنے لگی۔ زچگی سے مرنے والی مائوں کی جان بچانے کے لیے کوئی قانون پاس کیا۔ نومولود پاکستانیوں کو زندگی کے بنیادی حق سے ہمکنار کرنے کے لیے ادارے بنائے، ضوابط یا قانون۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے سکول سے باہر بیٹھے تین کروڑ بچوں کو علم کی روشنی دینے کے لیے پالیسی سازی اور بجٹ سازی کی۔ یا اس مقصد کو یاد رکھنے کے لیے دستورِ پاکستان کی کتاب کھولی اور آئین کے آرٹیکل 25-A کو پڑھا‘ جس میں ریاست ایسے بچوں کو مفت تعلیم دینے کو بنیادی حق قرار دے چکی۔ اگر نہیں پڑھا اور یقینا نہیں پڑھا تو لیں اب پڑھ لیں۔ 
25-A: Right to education; the state shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manners as my be determined by the law. 
دسمبر جنوری کی سردیوں میں اور جون جولائی کی گرمیوں میں کھلے آسمان تلے سڑکوں پر سونے والے غریبوں کے لیے کون سا کارنامہ سرانجام دیا۔ بے گھروں کو گھر مل گئے، بے زمینوں کو زمین۔ بیچولر اور ماسٹرز ڈگریاں لے کر چپڑاسی اور کلرک بھرتی ہونے کے لیے قطاروں میں لگے نوجوانوں کو با عزت روزگار مل گیا۔ دیہاڑی دار مزدور کو سوشل سکیورٹی مل گئی۔ پارلیمنٹ نے قیمتوں پر کنٹرول کا قانون پاس کرکے آلو، ٹماٹر، دھنیا، پیاز، چنے، ماش کی دال، مسور، چھولیا، گونگلو، مولی، گوبھی، پالک، مرغی، انڈے، ہلدی اور مرچ سستی کر دی یا چینی، پتی مفت میں ملنے لگی۔ چلئے اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا دودھ‘ جسے پوٹھوہار میں اللہ کا نور کہتے ہیں‘ میں چونا‘ سفیدی ڈالنے والوں کو ہتھ کڑی ڈالی۔ لاہور میں کھانسی کا شربت پلا کر شہریوں کو میانی صاحب قبرستان پہنچانے والے نشانِ عبرت بنائے۔ دل کے دل گرفتہ مریضوں کو دل کی شریانوں میں ڈالے جانے والے جعلی سٹینٹ کس کی سرپرستی میں بیچے گئے۔ وزیرِ اعظم سے پوچھا کہ ہمارے خرچ پر تم نے ایل این جی کس ریٹ پر خریدی۔ خریداری ٹھیکے کا سرکاری کنٹریکٹ طلب کرنے کی جرأت اس پارلیمنٹ میں ہے۔ کیا تحقیق کی گئی کہ ہر میگا پروجیکٹ میں کرپشن چھپانے کے لیے اِن ٹھیکوں کے کاغذات کو کون آگ لگاتا رہا۔ ملتان میٹرو بس ٹھیکے کا معاہدہ ابھی تک قوم سے کیوں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ کیا پارلیمنٹ کو ایسے سوال پوچھنے کی اجازت ہے؟
یہ سپریم پارلیمنٹ کراچی میں عورتوں کو چُھرا مارنے والے وحشی کو کیوں نہ گرفتار کروا سکی۔ پارلیمنٹ لینڈ ریفامز پر کیوں عمل نہیں کرتی۔ چلئے اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ سوال ہزاروں ہیں‘ جن کے جواب دینے کے لیے اس کے دامن میں ندامت کے سوا کچھ نہیں۔ پارلیمنٹ نے تب کچھ کیوں نہیں کیا جب امریکہ ایمل کانسی کو اس سرزمین سے اغوا کر کے لے گیا، پھر اس کی لاش پاکستان واپس بھجوائی گئی۔ اسے عافیہ صدیقی، اُس کے خاندان کی آہیں، سسکیاں اور کرب انگیز شب و روز کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ پارلیمنٹ کو تشکیل دینے والے آئین میں واضح لکھا ہے کوئی عدلیہ پر حملہ آور نہ ہو۔ لیکن پارلیمنٹ کے محافظ ہر روز سرکاری ناشتے کی میز سے حکومتی لنچ کی ٹیبل تک‘ اور پھر قومی بجٹ سے پکنے والی ٹی بریک سے سرکاری وسائل سے پکنے والے ڈنر تک عدلیہ پر حملہ آور ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج، پولیس، ایف سی، رینجرز، خاصہ دار، شہری اور بچے شہید ہوئے۔ نااہل شریف نعرے لگاتا ہے کہ دہشت گردی کو کس نے روکا ''بولو نواز شریف نے‘‘ کیا پارلیمنٹ نے اسے ٹوک کر شہیدوں کو سلام پیش کرنے کی قرارداد پیش کی۔ کیا پارلیمنٹ کی غیرت کے رکھوالوں نے اس امریکن اٹارنی جنرل کے خلاف پرچہ درج کروایا جس نے کہا تھا کہ یہ تو ڈالر کے لیے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ کیا اس پارلیمنٹ نے کبھی آئین کا آرٹیکل 227 کھول کر دیکھا‘ جس میں یہ پابندی لگائی گئی کہ قرآنِ کریم اور سنتِ حضرت محمدﷺ کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ اگر پارلیمنٹ کا جواب ہاں میں ہے تو وہ پھر قوم کو بتا دے کہ ختمِ نبوتﷺ کے قانون میں قرآن و سنت سے متصادم تبدیلی کیسے ہوئی۔ کیا 342 ارکان میں سے کسی نے ختمِ نبوت کے خلاف بلِ نہیں پڑھا۔ سرکاری بل کو پاس کروانے والی کمیٹی ناخواندہ تھی یا نابینا؟ کیا ظفرالحق کمیٹی امریکہ نے بنوائی تھی؟ کیا اُس کی رپورٹ عبرانی زبان میں لکھی گئی تھی۔ رپورٹ جاری ہونے سے پہلے وزیرِ قانون کو ہٹا دیا گیا۔ لیکن وہ کون سے پیارے ہیں جس کو رپورٹ چھپا کر بچایا جا رہا ہے۔ اے صاحبِ جلال پارلیمنٹ تیری شان میں گستاخی نہ ہو تو اتنا بتا دے اگر تم نے ختمِ نبوت قانون میں خلافِ آئین و شریعت کچھ نہیں کیا تو پھر قانون میں تبدیلی کا ترمیمی بل کیوں پاس کیا۔ تیرا شرف اور حیثیت صرف اتنی ہے کہ اپنی رہائش گاہوں سے نکلنی والی ''خالی بوتلوں‘‘ پر غم و غصے کا اظہار کرے۔ تیرے یہ کارنامے جو یہاں جلدی میں درج ہو سکے کارناموں کی سینکڑوں دیگوں سے چاول کے ایک دانے کے برابر ہیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا کے درجنوں آزاد سروے کرنے والوں کے ریفرنڈ م میں80 فیصد سے زائد عوام نے تجھ پر لعنت ملامت کو درست قرار دیا۔ اے غیرتِ ناہید پارلیمنٹ تیری ہر تان کو دیپک مان لیا۔ لیکن تیرے گریبان کی دھجیاں سلائی کرنے کے لیے سارے ملک کا دھاگہ اور سوئیاں اکٹھی کر لیں تب بھی تیرے لیے قوم کا لہجہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ قوم کا سوادِ اعظم اور خلقِ خدا تجھے غائبانہ نہیں کھل کے کہہ رہی ہے۔ 
میرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں 
ترے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved