اللہ نے جنہیں عقلِ سلیم سے نوازا ہو، دانش کی دولت سے سرفراز کیا ہو وہ عموماً ایک آدھ جملے میں کسی بہت بڑی حقیقت کو یوں پیش کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بڑی بات وہ ہے جسے سُن کر آپ سوچیں کہ ارے، یہ تو میرے ذہن میں بھی تھی۔ جو سوچنے اور لکھنے کا ہنر جانتے ہیں وہ عموماً اِسی طور حیران کیا کرتے ہیں۔ ڈیل کارنیگی کا شمار اُن ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے نتائجِ طبع یعنی تحریروں نے لاکھوں نہیں، کروڑوں افراد کو تبدیل کیا ہے۔ ڈیل کارنیگی نے کئی کتابیں تحریر کیں جنہیں پڑھ کر لوگوں کے لیے زندگی کا رخ تبدیل کرنا اور بھرپور کامرانی و شادمانی سے ہمکنار ہونا ممکن ہوا۔
ڈیل کارنیگی نے کئی شاہکار جملے دیئے ہیں۔ اِن میں سے ایک جملہ حقیقی مفہوم میں پوری کتاب کے برابر ہے۔ یہ جملہ کچھ یوں ہے کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں نہ ہوں، ذمہ دار تو آپ ہی ہیں! کبھی آپ نے اِس نکتے پر غور کیا ہے کہ ہمارے ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے اُس کے ہم پر کم یا زیادہ اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ کم اِس صورت میں کہ ہم خود کو بچائیں۔ عام طور پر لوگ ماحول کے اثرات کے حوالے سے لاشعوری طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو کسی جواز یا ضرورت کے بغیر قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی اس لاشعوری روش کے نتائج کا اندازہ بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب پانی بہت چڑھ آتا ہے یا سَر سے گزرنے والا ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں حتمی ذمہ داری کا معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اچھا یا برا معاملہ پیش آتا ہے وہ دراصل ہماری اپنی کوتاہی، خامی، خرابی، لالچ، ڈھیل، تساہل یا خوش فہمی کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ مثلاً اشرف نے اسلم سے دوستی کی۔ دوستی بہت بڑھی تو معاملات بھی بڑھے۔ پھر اسلم نے پچاس ہزار روپے ادھار لیے اور غائب ہوگیا! اب آپ بتائیے کہ اس معاملے میں قصور وار کون ہے؟ یقینی طور پر اسلم ہی قصور وار ہے۔ مگر ٹھنڈے دماغ سے، حقیقی غیر جانب دار انداز سے سوچیے تو آپ بھی اُسی نتیجے پر پہنچیں گے جس پر ڈیل کارنیگی پہنچے تھے۔ یعنی کہ ذمہ دار تو اشرف ہی ہے۔ اشرف پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ سوچ سمجھ کر دوستی کرے۔ اسلم نے اگر دھوکا دیا تو یہ دھوکا اپنے نصیب میں اشرف نے خود لکھا کیونکہ اُس نے مردم شناس ہونے کا ثبوت نہیں دیا!
ہمارے ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے ہوتا ہے جو ہمارے لیے ہوتا ہے نہ ہمارے کسی کام کا ہوتا ہے مگر پھر بھی ہمارا واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم حالات یا ماحول کے جبر کے سامنے اپنے آپ کو نہتّا چھوڑ دیں اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُسے تقدیر سمجھ کر قبول کرلیں۔ ایسا کرنا صرف اور صرف بے عقلی پر محمول ہوگا۔
ہر دور کا مسئلہ یہ ہے کہ بگاڑنے والی قوتیں زیادہ اور وسیع الوجود ہوتی ہیں جبکہ سنوارنے والی قوتیں خال خال پائی جاتی ہیں۔ حتمی فتح سنوارنے والوں کی ہوتی ہے مگر اِس کے لیے انہیں بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ خیر کے مقابلے میں شر زیادہ ہوتا ہے اور قدم قدم پر اُس سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ شر اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اُس کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوں، ثابت قدم رہتے ہوئے اپنی تمام صلاحیتوں اور سکت کو بروئے کار لائیں۔ خیر کا معاملہ افضل اِسی لیے تو ہے کہ لاکھ خرابیوں کے باوجود شر کی قوت کو کبھی توقیر و استحسان کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ حقیقی مفہوم میں توقیر صرف اور صرف خیر کی قوت کو نصیب ہوتی ہے اور حتمی فتح بھی۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ماحول مجموعی طور پر خرابیوں ہی سے متصف ہوتا ہے۔ ہر طرف ایسی قوتیں پائی جاتی ہیں جو زندگی کو بگاڑ کی طرف لے جانے پر تُلی رہتی ہیں۔ اور ذرا سی بھی ڈھیل برتی جائے، تساہل سے کام لیا جائے تو معاملات چشم زدن میں خرابی کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بے راہ روی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ لوگ تیزی سے خرابیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جو بھی ذہن کو بروئے کار لانے اور حقیقی و ابدی اخلاقی اقدار سے دست کش ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو خرابیوں کے دھارے کے حوالے کردیتا ہے۔ اب دھارے کی مرضی ہے کہ جہاں چاہے لے جائے اور جس طرح چاہے ڈبوئے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ در آیا ہے جو زندگی کو کسی بھی ڈھنگ کے معاملے سے دور رکھنے پر ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے۔ اخلاقی اقدار کو پاؤں کی بیڑی سمجھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار ہوتی جارہی ہے۔ طمع کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ راتوں رات بہت کچھ پانے کی تمنّا ہے کہ دن بہ دن زیادہ سے زیادہ توانا ہوتی جاتی ہے۔ اور ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھ پیر زیادہ ہلائے بغیر بہت کچھ پانا چاہتے ہیں۔ یہ روش زندگی کو زیادہ سے زیادہ خرابیوں کی طرف لے جارہی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ماحول ایک تیز رفتار دھارے کے مانند ہے اور ہم اِس کے سامنے انتہائی کمزور۔ مگر خیر، جس نے یہ کائنات خلق کی ہے اُسی نے ہمیں بھی وجود بخشا ہے۔ ڈیل کارنیگی کے الفاظ میں کہیے تو ماحول جو کچھ کر رہا ہے وہ ہمارے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ قدم قدم پر بہک جانے کا خطرہ ہے۔ ٹھیک ہے، مگر بہکنے سے بچنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہاں، اِس میں تھوڑی محنت لگتی ہے۔ اگر خود کو ماحول کے حوالے کردیا جائے تو پھر ہمارا جو بھی حشر ہوگا اُس کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے۔ خرابیوں سے بچنے کی بھرپور کوشش ہم سب پر فرض ہے۔ اور اگر بھرپور محنت کرنے پر بھی بُری صورتِ حال سے بچنا ممکن نہ ہو پائے تو دل کو اطمینان تو رہتا ہے کہ ع
... مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا!
چند برسوں کے دوران جنسی معاملات میں بے راہ روی بہت عام ہوئی ہے۔ ابھرتی ہوئی عمر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے بگڑنے کا خدشہ اب پہلے کی نسبت بہت توانا ہے مگر اِس کا یہ مطلب کہاں سے لیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بچانے کے آپشن سے دست بردار ہوجائیں! بہتر ذہنی حالت برقرار رکھتے ہوئے، سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرنے کی صورت میں ہم قصور وار قرار دیئے جانے سے ضرور بچ سکتے ہیں۔ اور اگر بامقصد زندگی بسر کرنے کی بھرپور کوشش میں ناکامی بھی ہاتھ لگے تو غم نہیں کہ کوئی ذمہ دار تو نہ ٹھہرا سکے گا! معاشرہ خواہ کیسا ہی بے راہ رَو ہو، بچ نکلنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے اور جو اس حوالے سے کوشاں رہتے ہیں وہی حقیقی کامرانی سے متصف ہوتے ہیں۔ اور خیر کی راہ میں بھرپور کوشش ہی کامیابی ہے۔