جاتی اُمرا فارم میں جناب میاں محمد شریف اور عباس شریف کی قبروں پر قرآن خوانی اور محفل نعت کے بعد میاں صاحب سے علیک سلیک ہو گئی تھی۔ نمازِ جمعہ سے قبل یہ مجلس ہفتہ وار معمول ہے۔ حبیب اللہ بھٹی کی نعت خوانی کا اپنا لطف و سرور ہے اور عبدالرزاق جامی کا اپنا اسلوب۔ میاں محمد بخش کے کلام کے حوالے سے جامی صاحب عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔ جلاوطنی کے دنوں میں جامی جدہ آتے توبڑے میاں صاحب مرحوم کی خواہش پر مہینوں سرور پیلس میں مقیم رہتے اور یہاں کی محفلوں کو اپنے سوزوگداز سے فیضیاب کرتے۔جاتی امرا کے رہائشی علاقے میں نماز جمعہ کے لئے جگہ مخصوص ہے‘قریب ہی ''ظہرانے‘‘ کا اہتمام ہوتا ہے۔ شروع میں میاں صاحب بھی شریک ہوتے۔ اب نماز کے بعد گھر کا رُخ کرتے ہیں۔
نماز کے بعد میں نے آصف سے کہا‘ جلدی سے نکل چلیں‘ پارکنگ میں پھنس گئے تو دیر ہو جائے گی۔ راستے میں شکیل کا فون آیا‘ آپ کہاں ہیں؟ میاں صاحب آپ کا پوچھ رہے ہیں۔ میں نے بتایا ‘کافی دور آ چکا ہوں...تو واپس آ جائیں‘ آپ کھانا کھائے بغیر کیسے چلے گئے؟
''پی ایم ہائوس‘‘ کے ڈائننگ ہال سے متصل سِٹنگ روم میں میاں صاحب منتظر تھے۔ مال روڈ پر چالیس جماعتوں کے احتجاجی جلسۂ عام پر میرا کالم وہ پڑھ چکے تھے...کینیڈا سے آئے ''شیخ الاسلام‘‘نے اِسے Beginning of The end قرار دیا تھا۔ عمران خان پورے زور سے اس میں شرکت کا اعلان کر چکے تھے۔ سب پر بھاری‘ آصف زرداری بھی اِسے لاہور میں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے اچھا موقع سمجھ رہے تھے۔ گجرات
والے بڑے چوہدری صاحب جرمنی تشریف لے گئے تھے اور چھوٹا چوہدری مسلم لیگ (ن) کے خاتمے کی مہم میں ہزاروں افراد کے ساتھ اپنا حصہ ڈالنے کے لیے پُرعزم تھا...خیال تھا‘ پانچ سات سو لوگ تو اپنے لیاقت بلوچ بھی لے آئیں گے لیکن ہفتوں کی تیاری کے باوجود کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق بھی اعتراف ِحقیقت کئے بغیر نہ رہے‘ جی ہاں! یہ ایک فلاپ شو تھا۔ یہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کا حلقہ( 120 )ہے اور اس سے کہیں زیادہ لوگ تو مریم نواز کی کارنر میٹنگ میں چلے آتے تھے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا‘ 17 جنوری کے جلسے کی یہ بُری طرح ناکامی خود ان کی توقع سے بھی کہیں زیادہ تھی ۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب پیر صاحب سیال شریف کے ''پڑوس‘‘ میں میاں صاحب کے جلسے نے سرگودھا ڈویژن میں نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ کہنے والوں نے اِسے مریم کی ''پولیٹیکل لانچنگ‘‘ بھی کہا۔
تو کیا نااہلی والے فیصلے کے بعد معزول وزیراعظم کی حکمتِ عملی اور سیاسی بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کر رہاتھا۔ فیض یاد آئے ؎
ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
شیخ مجیب کے حوالے سے اپنی گفتگو پر وہ قائم تھے‘ ''وہ باغی نہیں تھا‘ اسے باغی بنا دیا گیا‘‘۔ مقصد عوامی مینڈیٹ کی توہین کے خطرناک نتائج کی یاد دہانی تھا۔ چاروں صوبوں کو موٹرویز کے ذریعے مربوط کرنے‘ گوادر کی عظیم بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک منصوبوں کے ذریعے ملک بھر کے عوام کی قسمت بدلنے کے خواب دیکھنے والا لیڈر ''مجیب‘‘ بننے کی دھمکی نہیں دے رہا تھا۔ انہیں بلوچستان کے معاملات پر تشویش تھی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد صوبے کی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے وہاں حکومت سازی کا پہلا حق مسلم لیگ (ن) کا تھا لیکن میاں صاحب نے پانچ سالہ مدت کے پہلے نصف میں بلوچ قوم پرست جماعت کو وزارت اعلیٰ سونپنے کا فیصلہ کیا۔ پختونوں کو گورنر شپ اور صوبائی وزارتوں میں ان کے استحقاق سے بھی زیادہ کوٹہ دیدیا گیا۔ یہ حکمتِ عملی برگ و بار لا رہی تھی۔ بیرونِ ملک ''بلوچ قوم پرستوں‘‘ کی پکار غیر مؤثر ہوتی جا رہی تھی۔ ''فراری‘‘ ہتھیار ڈال کر پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھا رہے
تھے۔ دوسری ہاف ٹرم کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری سے ان کے ساتھیوں کو شکایات ہو سکتی تھیں لیکن ایسی کیا قیامت ٹوٹ پِڑی تھی کہ یہ اکھاڑ پچھاڑ لازم ہوگئی‘ ایسے وقت میں جب وزیراعلیٰ کے صرف چار پانچ ماہ باقی تھے اور سینیٹ کے انتخابات بھی ایک بازو کے فاصلے پر تھے۔ اورپھر وزارتِ اعلیٰ کا تاج تاریخ کے سب سے کم ووٹ(544) حاصل کرنے والے عبدالقدوس بزنجو کے سر پر سجا دیا گیا۔ 65 ارکان کے ایوان میں جس کی جماعت صرف پانچ نشستیں رکھتی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے کوئی خرابی نہ تھی لیکن معاملے کا سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی تو تھا۔ نوابزادہ مرحوم کہا کرتے تھے‘ بہروپیا بھی اپنے بہروپ کا بھرم رکھتا ہے۔ تبدیلی ناگزیر ہو گئی تھی تو اس میں کچھ اعتبار اور وقار کا اہتمام تو کیا جاتا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ثناء اللہ زہری کا اصل قصور کچھ اور تھا... وہ معزول وزیراعظم کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔ اپنی وزارت اعلیٰ برقرار رکھنے کے لیے انہیں اتنا سا اعلان کرنا تھا کہ اب بلوچستان کے فیصلے ''اسلام آباد‘‘ یا ''جاتی اُمرا‘‘ میں نہیں‘ کوئٹہ میں ہوں گے۔ یہی کام انہوں نے نہ کیا اور اس کا خمیازہ بھگت لیا۔
1947ء کی ہجرت انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہجرتوں میں ایک تھی، لاہور میں والٹن کا علاقہ لاکھوں مہاجروں کا اولین مسکن ٹھہرا۔ قائداعظم تشریف لائے ‘مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر ضیاء الاسلام گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ عظیم قائد کے استقبال کے لئے مہاجرین اپنے زخم زخم وجود کے ساتھ کیمپوں سے باہر نکل آئے تھے۔ ایک خاتون کے لئے اپنے بچے کو سنبھالنا مشکل تھا جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک ہاتھ سے اسے سنبھالے، دوسرا ہاتھ فضا میں بلند کر کے قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگا رہی تھی۔ قائد نے کپکپاتی آواز میں کہا "Look, she is still shouting Quaid-e-Azam Zindabaad"
اللہ غریق رحمت کرے جناب غلام حیدر وائیں کو جنہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور (1990-93) میں یہاں شہدا کی یادگار کے قیام کا فیصلہ کیا۔ میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور تھا۔ سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ پھر حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ 1997 کی شہباز شریف حکومت نے پھر کام کا آغاز کیا لیکن 1999 ء میں 12 اکتوبر ہو گیا۔ یہ خواجہ سعد رفیق کا حلقہ ہے۔ بچیوں کے لئے رابعہ بصری کالج اور لڑکوں کے لئے خواجہ رفیق شہید کالج کے قیام کے بعد اب ''بابِ پاکستان‘‘ کے نام سے یہ عظیم الشان منصوبہ ہے جس کی تعمیر نو کی تقریب ایک بڑے جلسے کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ 2013 کے الیکشن میں خواجہ نے تحریک انصاف کے حامد خان کو 40 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی تھی۔ 2015 کے کینٹ بورڈز کے الیکشن میں یہاں 20 وارڈز میں سے 15 پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جیت گئے تھے۔ ڈیفنس اس حلقے میں تحریک انصاف کا مضبوط ترین گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں اس کے سبھی امیدوار ہار گئے۔
سعد رفیق نے ''وزیراعظم شہباز شریف‘‘ کے نعروں کے ساتھ لوگوں کے ہاتھ اٹھوا کر تائید بھی حاصل کر لی تھی۔ شہباز صاحب کا کہنا تھا‘ 2018 کے الیکشن میں پاکستان کے عوام نے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا اور جماعت نے یہ ذمہ داری ان کے سپرد کی تو وہ پشاور، کوئٹہ اور کراچی کو لاہور اور کے پی کے، بلوچستان اور سندھ کو پنجاب بنا دیں گے۔
سوموار کی دوپہر وہ نیب کے نوٹس کے جواب میں وکیل کو بھی بھجوا سکتے تھے لیکن خود پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کرنے اور نیب والوں کو آئینہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں دکھ تھا کہ اس نوٹس کی ٹی وی چینلز پر یوں تشہیر کی گئی جیسے ان کے خلاف آشیانہ اقبال کا یہ کیس ثابت ہو گیا ہو۔ میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا‘ نیب احتساب ضرور کرے، لیکن احتساب کے نام پر سیاست نہ کرے۔ یہ کام پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے لئے رہنے دے۔