تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     23-01-2018

استاد محمد مامون الہضیبی…(2004ئ-1921ئ)

اخوان المسلمون کے چھٹے مرشدِ عام، عالمِ عرب کے معروف قانون دان اور مدبر راہ نما جناب محمد مامون الہضیبی 9؍جنوری 2004ء بروز جمعتہ المبارک کو قاہرہ میں صبح کے وقت تقریباً 83 سال کی عمر میں دنیائے فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے تھے۔دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور ان سے وابستہ کارکنوں کو اسی روز اس غم ناک خبر کی اطلاعات پہنچ گئیں اور ہر جگہ ان کے حق میں دعا اور بعض مقامات پر غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام ہوا۔ واضح رہے کہ اخوان کے سابق مرشدانِ عام عمومی طور پر قاہرہ میں دفن ہیں مگر جناب مامون الہضیبی کے والدِ گرامی قدر شیخ حسن الہضیبی (دوسرے مرشدِ عام) اپنے آبائی علاقے میں خاندانی قبرستان میں دفن کیے گئے تھے۔ چھٹے مرشد عام نے بھی اپنی وصیت میں یہی لکھا تھا کہ ان کو ان کے والد کے قدموں میں دفن کیا جائے، چنانچہ ان کے جسدِ خاکی کو قاہرہ میں جنازہ پڑھنے کے بعد ہزاروں عقیدت مندوں کی معیت میں ان کے گائوں روانہ کر دیا گیا، جہاں ایک بہت بڑے عوامی مجمع نے ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ پھر انھیں وصیت کے مطابق ان کے والدؒ کے قدموں میں دفن کر دیا گیا۔ 
استاد محمد مامون الہضیبی اسلامی تحریکوں کی قیادت میں اپنے علم، تجربے، استقامت اور ایثار و قربانی کی لازوال جدوجہد کی وجہ سے بہت ممتاز اور محترم مقام کے حامل تھے۔ ان کا مطالعہ بہت گہرا، گفتگو مدبرانہ اور طرزِ کلام شگفتہ ہوا کرتا تھا۔ ان کی وفات پر سارے عالمِ اسلام میں غم کی گھٹا چھا گئی۔ ان کی نمازِ جنازہ جمعہ کے بعد قاہرہ کے مشرقی حصے میں واقع عظیم الشان اور وسیع و عریض جامع مسجد رابعہ بصریہ میں ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ کی امامت مرحوم کے بڑے بیٹے ڈاکٹر خالد الہضیبی نے فرمائی۔ ان کی نماز جنازہ میں محتاط اندازے کے مطابق 3 لاکھ فرزندانِ توحید شریک ہوئے۔ مصر اور دیگر ممالک کے اخوانی ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مصر کے طول و عرض کے علاقوں سے جنازے میں شرکت کے لیے آنے والے قافلوں کو بلاوجہ مختلف حیلوں بہانوں سے انتظامیہ نے روکے رکھا، جس کی وجہ سے وہ اپنے عظیم راہ نما کے جنازے میں شرکت سے محروم رہے۔ اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو جنازے کا ہجوم بہت بڑا ہوتا۔ 
نومبر2002ء میں جب اخوان کے پانچویں مرشدِ عام استاذ مصطفی مشہور کی رحلت ہوئی تو ان کے جنازے میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی۔ استاد مصطفی مشہور کی وفات کے بعد ایک موقع پر نو منتخب مرشدِ عام استاد محمد مامون الہضیبی کا ایک انٹرویو ایک پرائیوٹ ٹی وی چینل نے ریکارڈ کیا تھا۔ اس انٹرویو میں دیگر امور کے علاوہ نومنتخب مرشدِ عام نے نماز جنازہ کے شرکا کی تعداد کا بھی تذکرہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ''یہ جنازہ مصری عوام کی رائے کا اظہار اور اخوان سے ان کے قلبی لگائو کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔‘‘ ان کے بقول: ''یہ جنازے ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اخوان اور ان کے مخالفین کے درمیان ان کو عوامی فیصلے کا درجہ حاصل ہے۔‘‘ مصر اور عرب دنیا کے ناظرین پہلے سے نشر کیے گئے اعلانات کی وجہ سے اس انٹرویو کے شدت سے منتظر تھے مگر ان کی حیرت اور افسوس کی انتہا نہ رہی جب عین وقت پر حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ٹی وی انتظامیہ نے ناظرین سے معذرت کرتے ہوئے انٹرویو پیش نہ کرنے کا اعلان کیا۔ مسلم ممالک کی حکومتیں اظہارِ رائے کی آزادی کو زبانی حد تک تو تسلیم کرتی ہیں مگر عملاً وہ اس کا بے دریغ قتلِ عام کرتی رہتی ہیں۔ اخوان عرب دنیا کی مقبول ترین اصلاحی اور اسلامی تحریک ہے۔ اخوان پر آج بھی پابندی ہے اور ملک کے منتخب صدر محمد مرسی، اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع اور ہزاروں قائدین و کارکنان جیلوں میں سختیاں جھیل رہے ہیں مگر عوام کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کا کام محض نمایشی نہیں بلکہ عوام کے ہر طبقے کے اندر شہروں سے لے کر دیہاتوں تک پوری آبادی کی جڑوں تک منظم ہو چکا ہے۔ 
استاد محمد مامون الہضیبی مصر کے ممتاز علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدایش مصر کے سطح مرتفع کے علاقے (صعید) کے ضلع سہاج میں2؍مئی 1921ء کو ہوئی، عرب الصالحہ کی بستی ان کا مولد ہے۔ ان کے والد استاد جسٹس حسن الہضیبیؒ بہت بڑے قانون دان، عالمِ دین، داعیِ حق، ادیب اور مدبر انسان تھے۔ وہ بطور جج مصر کے مختلف علاقوں میں متعین رہے۔ پھر اخوان المسلمون میں شامل ہوئے اور امام حسن البنا کے معتمد ترین ساتھیوں میں شمار ہوئے۔ 
فروری 1949ء میں امام حسن البنا کی شہادت کے بعد استاذ حسن الہضیبی اخوان کے دوسرے مرشدِ عام منتخب ہوئے۔ ان کا دورِ قیادت مسلسل ابتلا، امتحان اور قید و بند میں گزرا۔ وہ 13؍نومبر 1973ء کو اپنی وفات تک اخوان کے مرشدِ عام کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس طرح اخوان کے مرشدین عام میں سب سے طویل عرصہ قیادت کی ذمہ داری دوسرے مرشدِ عام (چھٹے مرشدِ عام کے والد) جناب حسن الہضیبی نے ادا کی۔ ان کا دورِ قیادت 24 سالوں پر محیط ہے جبکہ پہلے مرشدِ عام امام حسن البنا 21 سال(1928-1949) منصبِ ارشاد پر فائز رہے۔ واضح رہے کہ امام حسن البنا صرف 42 سال کی عمر میں شہید کر دیے گئے مگر اس مختصر عمر میں اللہ نے بے پناہ برکت دی اور انھوں نے سارے عالمِ عرب بلکہ عالمِ اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 
اسلامی تحریکوں کی تاریخ میں استاذ محمد مامون الہضیبی کا چھٹے مرشدِ عام کے طور پر انتخاب پہلا موقع تھا جب ایک امیرِ جماعت یا قائدِ اعلیٰ (مرشدِ عام) کا صاحب زادہ اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوا۔ یہ یادگار اور نادر واقعہ ہے مگر واضح رہے کہ استاذ محمد مامون الہضیبی مرشدِ عام کے بیٹے ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی قربانیوں، استعداد اور ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اس منصب کے لیے منتخب کیے گئے۔ ان کا دورِ امارت پہلے چھ مرشدینِ عام میں سے سب سے مختصر ہے۔ وہ 27؍نومبر2002ء کو مرشدِ عام منتخب ہوئے اور 9؍ جنوری2004ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، یوں یہ دورِ قیادت تقریباً ایک سال اڑھائی ماہ بنتا ہے۔ 
استاذ محمد مامون الہضیبی نے مختلف شہروں میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے مرحلے مکمل کرنے کے بعد شاہ فواد یونیورسٹی قاہرہ کے لا (Law) کالج سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد وہ وزارتِ عدل میں ملازم ہو گئے۔ بہت فرض شناس اور قابل جج تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قاہرہ میں چیف جج کے عہدے تک پہنچے مگر اسی دوران انھیں کرنل ناصر کی ظالم فوجی حکومت نے اخوان سے تعلق کی بنا پر ملازمت سے فارغ کر دیا۔ انھیں ملازمت سے فارغ کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ 1965ء میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کے عظیم والد پہلے ہی سالہا سال سے جیل میں مقید تھے۔ جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد انوار السادات کے دورِ حکومت میں جب اخوان کو جیلوں سے رہا کرنے کا عمل شروع ہوا تو استاذ مامون الہضیبی بھی 1971ء میں رہا کر دیے گئے۔ رہائی کے بعد وہ اپنی ملازمت پر بھی بحال ہو گئے کیونکہ ان کے خلاف کوئی بھی الزام عدالت میں ثابت نہ ہو سکا تھا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھوں نے تحریکی ذمہ داریوں کی فعال ادایگی کے لیے اپنے منصب سے استعفا دے کر سرکاری ملازمت ترک کر دی۔ 
1973ء میں [ایک مشاورت اور فیصلے کے نتیجے میں] استاذ محمد مامون مصر سے سعودی عرب چلے گئے اور کچھ عرصے کے لیے وہاں مختلف محکموں میں ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، مگر اخوان کے تیسرے مرشدِ عام سید عمر تلمسانیؒ نے انھیں تنظیم میں خدمات سر انجام دینے اور اعلیٰ قیادت کی مشاورت کے لیے واپس مصر بلا لیا۔ وہ سید عمر تلمسانیؒ اور سید محمد حامد ابو النصرؒ کے ساتھ بطور مشیر اور معتمدِ خاص خدمات سر انجام دیتے رہے اور پانچویں مرشد عام استاذ مصطفی مشہور کے ساتھ بطور نائب مرشدِ عام، اخوان کی قیادت کا حق ادا کرتے رہے۔ 1987ء میں حزب العمل کے ساتھ مل کر اخوان نے مصر کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا تو ان کے36 ارکان پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہو گئے۔ اس پارلیمنٹ میں استاذ محمد مامون اخوانی گروپ کے پارلیمانی لیڈر اور اپنی جماعت کے ترجمان مقرر کیے گئے۔ اسی دوران انھیں نائب مرشدِ عام بھی منتخب کیا گیا تھا۔ استاذ مامون پاکستان بھی کئی مرتبہ آئے اور کئی کانفرنسوں میں خطاب کیا۔ راقم کو ان سے دو مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ایک مرتبہ پاکستان میں اور ایک مرتبہ سوڈان میں۔ مرحوم بہت ہنس مکھ، خوش مزاج اور ملنسار انسان تھے۔ سنجیدہ موضوعات پر علمی بحث کرتے تو دلائل کا انبار لگا دیتے۔ تاریخ پر گفتگو ہوتی تو مستند حوالوں سے مورخ کی طرح تاریخ کا حق ادا کرتے۔ استدلال میں ٹھہرائو اور منطق کا رنگ غالب ہوتا۔ نجی محفلوں میں سبق آموز لطائف اور پُر لطف بذلہ سنجی سے محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے۔ مسکراتے بھی تھے اور قہقہے بھی لگا لیتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے قریبی ساتھی گواہی دیتے ہیں کہ مرحوم دردِ دل سے مالا مال تھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved