چمپنزی پربرطانوی محقق جین گوڈال کی تحقیق کا مطالعہ کریں تو بہت سے دلچسپ انکشاف ہوتے ہیں ۔افریقہ ملک تنزانیہ کے جنگلات میں اپنی تحقیق کا آغاز کرنے والی جین گوڈال نے چھ عشرے تک چمپینزیوں پر تحقیق کی ہے ۔ انہیں دنیا بھر میں چمپینزیوں پر سب سے بڑا ماہر مانا جاتاہے ۔ میری یہ تحریر نظریہ ء ارتقا کی حمایت میں ہرگز نہیں بلکہ یہ صرف غور و فکر کی ایک دعوت ہے ۔ ہم ڈی این اے کی ساخت میں نہیں جائیں گے ۔ صرف اور صرف ان چیزوں پر غور کریں گے ، سرسری سا جائزہ لینے والا ایک عام سا ذہن جن کا مشاہدہ کرسکتا ہے ۔ یہ مشاہدہ اس قدرحیرت انگیز انکشاف کرتا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ آپ اگر انسان کا موازنہ ہاتھی سے بھی کریں تو حیرت زندہ رہ جاتے ہیں۔ ہاتھی کھربوں خلیات پر مشتمل ایک جاندار ہے ۔ انسان بھی کھربوں خلیات پر مشتمل ایک جاندار ہے ۔ ہاتھی کے جسم میں ہڈیوں سے بنا ہوا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے ، جو کہ جسم کو اس کی ساخت حاصل کرنے میں مدد دیتاہے ۔ انسان میں بھی ایسا ہی ہے ۔ ہاتھی کے جسم میں ہڈیوں کے اوپر گوشت ہے ۔ انسان کے جسم میں بھی ہڈیوں کے اوپر گوشت ہے ۔ ہاتھی کے جسم میں دو طرح کی نالیاں یا پائپ موجود ہیں ۔ 1۔ خون کی شریانیں۔ 2۔دماغ سے پیغام لانے اور واپس لے جانے والی nervesیا تاریں۔ انسان میں بھی یہ دو طرح کی نالیاں پائی جاتی ہیں ۔ ہاتھی کی دو آنکھیں ہوتی ہیں ، انسان کی بھی دو آنکھیں ہیں ۔ ہاتھی کے جسم میں گلوکوز اور آکسیجن خون کی نالیوں کے ذریعے جسم کے ایک ایک خلیے تک پہنچتی ہے ۔ انسان میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہاتھی کے جسم میں خون دوڑانے والا عضو دل ہے ، جو کہ ایک پمپ کی طرح کام کرتاہے ۔ انسان میں بھی ایسا ہی ہے ۔ ہاتھی کے جسم میں پھیپھڑے آکسیجن خون تک لے جاتے ہیں ۔ انسان میں بھی ایسا ہی ہے۔معدے سے لے کر آنتوں تک غذا کو ہضم کرنے والا ایک پورا نظام بھی دونوں میں پایا جاتا ہے ۔ آپ ہاتھی چھوڑ کر بلی سے موازنہ کریں ، کم و بیش وہی سب کچھ ہے۔ انسان ، بلی اور ہاتھی میں ، جلد سب سے بڑا عضو ہے ۔ یہ جلد ایک سنسر کی طرح کام کرتی ہے ۔ اس پر کسی بھی چیز کے لمس کا احساس nervesکے ذریعے فوراً دماغ تک جاتاہے۔ آپ باقی چیزیں دیکھ لیں ۔ ریڑھ کی ہڈی ایک میں بڑی ہوگی، دوسرے میں چھوٹی لیکن نوعیت وہی ۔ جسم کو اس کی ساخت حاصل کرنے میں مدد دینا ، دماغ کا تعلق جسم سے جوڑنا ۔ مزید گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتاہے کہ جن چھ عناصر نے 99فیصد انسانی جسم تشکیل دیا ہے یعنی ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن، کاربن، کیلشیم اور فاسفورس ، انہی نے دوسرے جانوروں کے جسم بھی بنائے ہیں ۔ ہاں چھوٹے بڑے فرق موجود ہیں ۔ بکریوں اور بھینسوں میں معدوں کی ساخت مختلف ہوتی ہے ۔ پھر بھی نظامِ انہضام کام تو انہی اصولوں پر کر رہا ہے ۔
جین گوڈال کی ایک دستاویزی فلم میں ، وہ دکھاتی ہے کہ ایک مادہ حال ہی میں پیدا ہونے والے شیر خوار بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس مادہ کا نام'' فی فی ‘‘تصور کر لیجیے اور اس کے بچے کا نام' 'فے ‘‘ ۔ اب ''فی فی ‘‘ کی بڑی بیٹی ، جس کی عمر چھ سال ہے ، وہ آتی ہے اور ''فے‘‘ کو پکڑنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اسے سخت تجسس ہو رہا ہے کہ یہ نیا مہمان کون ہے اور کیسا ہے ۔ ''فی فی ‘‘ اپنی بڑی بیٹی کو اپنا نیا شیر خوار بچہ ''فے ‘‘ اٹھانے نہیں دیتی ۔ جب وہ زیادہ تنگ کرتی ہے تو '' فی فی ‘‘ ، ''فے ‘‘ کو اٹھا کر ایک طرف چلی جاتی ہے ۔ چند مہینوں کے بعد جب '' فے ‘‘ قدرے مضبوط ہو چکا ہے ، اب '' فی فی ‘‘ یعنی بڑی مادہ یا ماں ایک دن اپنی بڑی بیٹی کو اجازت دے دیتی ہے کہ وہ '' فے ‘‘ کو اٹھا سکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مگر وہ نظر رکھتی ہے کہ کہیں وہ اسے گرا کر نقصان نہ پہنچا دے ۔ بڑی بیٹی اپنے چھوٹے بھائی ''فے‘‘ کو اسی طرح کمر پہ لادنے کی کوشش کرتی ہے ، جیسے کہ وہ اپنی ماں کو یہ کام کرتا دیکھتی ہے ۔ یوں اسے بھی مشق کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کل جب وہ خود اپنا بچّہ جنم دے تو بچّہ اٹھانے میں ماہر ہو چکی ہو۔ جذبات اور احساسات کا یہ انداز تو ہمارے بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ بڑی بیٹیوں کو سب سے زیادہ شوق ہوتاہے ، اپنے چھوٹے بھائیوں کو اٹھانے کا ۔
میں کبھی کبھار چڑیا گھر جاتا ہوں ۔ کیلوں کا ایک گچھا لے کر چمپینزیوں کے پاس۔ یہاں دو چمپینزی موجود ہیں ۔ ایک نر اور ایک مادہ۔ نر زیادہ طاقتور ہے ، وہ کیلے دیکھ کر بھاگتا ہوا آتا ہے ۔ وہ شور مچاتاہے ۔مادہ سائیڈ والے جنگلے کے پاس جاتی ہے اور وہاں سے ایک ہاتھ باہر نکال لیتی ہے۔ وہ شور نہیں مچاتی ۔ اسے معلوم ہے کہ نر اپنے غلبے (Dominance)کا اظہار کر رہا ہے ۔ اگر اس نے چوں چراں کی تو مار پڑ سکتی ہے اور یہاں خواتین کے حقوق والوں نے بھی نہیں آنا۔ نر کو میں ایک کیلا دیتا ہوں ، وہ اسے منہ سے پکڑ لیتا ہے اور ہاتھ پھر پھیلا دیتا ہے ۔ میں دوسرا کیلا دیتا ہوں ، اسے وہ پائوں میں دبا لیتا ہے ۔ پھر ہاتھ پھیلاتا ہے۔ یوں وہ چار پانچ کیلوں سے کم پر راضی نہیں ہوتا ۔ جذبات کا یہ اظہار کس قدر دلچسپ ہے ۔ ایک دفعہ نر مادہ کو کچھ لینے ہی نہیں دے رہا تھا تو وہ ایک طرف اداس سی ہو کر بیٹھ گئی تھی لیکن پھر جب اسے معلوم ہوا کہ اس کا حصہ محفوظ ہے تو پھر یہ اداسی فوراً ختم ہو گئی ۔
اس ساری داستان کا مقصد انسان کو بندر کا کزن ثابت کرنا ہرگز نہیں ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ، انسان اور ہاتھی میں بھی اس قدر مشابہت ہے کہ انسان ششدر رہ جائے ۔ گو کہ ان میں بچے کو گود میں نہیں اٹھایا جاتا لیکن پھر بھی اندر تو وہی کیلشیم، فاسفورس، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن اور آکسیجن ہی ہیں نا۔نر اور مادہ میں ایک دوسرے کے لیے کشش اسی طرح ہے ۔ جب انسان چمپینزی کو جذبات کا یہ اظہار کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو ایک لمحے کے لیے حیرت میں گم ہو جاتا ہے ۔ فرض کیجیے کہ اللہ انسان کو ایک خصوصی عقل نہ دیتا تو ہم بھی تو دوسرے جانوروں جیسے ایک جانور ہی ہوتے ۔ دو تین باردوستوں نے مجھ سے سوال کیا کہ انسان کو آزمائش میں اتارنے سے پہلے ، خدا نے انسان سے اس کی مرضی تو پوچھی نہیں ۔ یہ نہیں پوچھا کہ زمین پر جا کر آزمائش کی زندگی گزارنا چاہتے ہو یا نہیں ۔ میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ سڑک پر ایک بندہ خالی ہاتھ جا رہا ہے ۔ آپ ایک اربوں روپوں پر مشتمل ایک لفافہ اسے پکڑا دیں اور اسے کچھ چھوٹے موٹے کام (Task)انجام دینے کو کہیں ۔ بلکہ یہ سب کرنے کی بجائے ٹی وی پر کوئی انعامی شو دیکھ لیں۔ ایک موٹر سائیکل کے لیے لوگ بکروں کی طرح بھاگ کے ایک دوسرے کو ٹکریں مار رہے ہوتے ہیں ۔ پھر یہ کھربوں ارب ڈالر مالیت کی جو عقل آپ کے دماغ میں اللہ نے رکھی ہے، اس پر خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے ؟ خوشی کی ایک وجہ اور بھی ہے اور وہ اگلے کالم میں ۔