تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-01-2018

ہلکا کرنے والا بوجھ

ترقی اور خوش حالی پر کسی قوم یا معاشرے کا اجارہ نہیں۔ یہ لگن، محنت اور دیانت کا معاملہ ہے۔ جس نے محنت کی اُسے پھل ملا۔ جو محنت سے دور رہا وہ ترقی اور خوش حالی سے بھی دور رہا۔ جب ہم من حیث القوم محنت اور دیانت کے عادی تھے ہم میں بھی بہت کچھ تھا جو دنیا کے لیے مثالی تھا۔ پوری لگن اور دیانت کے ساتھ محنت کرنے کا صِلہ اللہ نے اہلِ کمال کی صورت میں دیا۔ ایک دور تھا کہ پاکستانی معاشرہ اہلِ کمال سے متصف تھا۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں یہ لوگ بیرون ملک گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اور شبانہ روز محنت کے ذریعے انہوں نے جو کچھ بھی کمایا اُسے وطن بھیجنے پر یہاں خوش حالی کا دور دورہ ہوا۔ کچھ وقت اچھا گزرا مگر پھر لوگ محنت سے دور ہوتے گئے۔ آسانی سے ہاتھ آنے والی دولت نے علم و عمل کی دشوار گزار گھاٹیوں کے سفر سے گریز کو معاشرے کی عمومی روش میں تبدیل کردیا۔ 
عمومی سے معاشرے کو خصوصی حیثیت اگر کوئی چیز دلاتی ہے تو وہ تعلیم اور تربیت کے میل کے سوا کچھ نہیں۔ تاریخ پڑھ جائیے، تعلیم اور تربیت کے بغیر کسی بھی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کچھ کیے بغیر بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے تو اِسے صرف حماقت پر محمول کیا جائے گا۔ علم اور عمل کے بغیر انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے کچھ بننے اور کر گزرنے کی ٹھانی تو سب سے پہلے علم کی توقیر کو مزاج کا حصہ بنایا۔ علم ہی کی بنیاد پر عمل کی بھی تہذیب ہوتی ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے کے بعد کسی بھی موڑ پر کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ 
چین کے ایک دور افتادہ علاقے کی 9 سالہ ڈنگسوانگ ہر اعتبار سے ایک روشن مثال کے مانند ہے جو اپنے بڑے، معذور بھائی ڈنگ فُو کو روزانہ پیٹھ کر لاد کر اسکول لے جاتی اور پھر واپس بھی لاتی ہے۔ دونوں بہن بھائی ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ ڈنگ فُو اسکول کے باقاعدہ ترین طلباء میں سے ہے۔ کیسا ہی موسم ہو، ڈنگ فُو غیر حاضر نہیں ہوتا کیونکہ ڈنگسوانگ غیر حاضر نہیں رہتی! ڈنگ فُو پڑھنے میں اتنی محنت کرتا ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ 
ڈنگسوانگ بڑے بھائی کے سارے کام خود کرتی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ ڈنگ فُو کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی اور مرتے دم تک اُسی معاون رہے گی تاکہ وہ کسی غیر کا محتاج نہ رہے۔ اضافی المیہ یہ ہے کہ دونوں کے والدین بھی معذور ہیں اور گھر کے کام کاج تک میں معاونت نہیں کرسکتے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ پورے گھر کی ذمہ داری ڈنگسوانگ کے نازک کاندھوں پر آن پڑی ہے! 
یہ ہے عزم اور حوصلے کے ساتھ ساتھ علم و عمل کے حوالے سے سچی لگن کی کہانی۔ جو کچھ ڈنگسوانگ کر رہی ہے وہ صرف چینی معاشرے کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے ہر معاشرے کے لیے ایک روشن مثال اور قابل تقلید نمونہ ہے۔ عزم توانا ہو تو کوئی بھی کمزوری کسی صورت کمزوری نہیں رہتی، راہ میں دیوار بن کر کھڑی نہیں ہوتی۔ ڈنگ فُو اور والدین کی خوش نصیبی کہ عزم و ہمت کی ایک روشن مثال اُن کے گھر میں پائی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ کسی کا احسان لیے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
یہ تو ہوا ایک پڑوسی کا حال۔ اب آئیے دوسرے پڑوسی کی طرف۔ بھارت کی ریاست ہریانہ کے شہر یمونا نگر کے سوامی وویکانند اسکول میں ایسا سانحہ رونما ہوا ہے کہ لوگوں کے دل لرز کر رہ گئے ہیں۔ شِوانش بارہویں جماعت کا طلب علم تھا۔ وہ اسکول کا حصہ تھا مگر علم کو اس نے زندگی کا حصہ نہیں بنایا تھا۔ رات دیر گئے تک دوستوں میں بیٹھے رہنے کے باعث صبح دیر سے اٹھتا تھا اور یوں اسکول پہنچنے میں بھی دیر ہو جایا کرتی تھی۔ اس پر اسکول کی پرنسپل ریتو چھابڑا اُس سے ناراض رہتی تھیں اور کئی بار انتباہ کرچکی تھیں کہ وقت پر اسکول آیا کرے ورنہ بورڈ کے امتحان میں فارم نہیں جائے گا۔ 
اسکول دیر سے آنے اور ہر وقت دوستوں کے بارے میں سوچتے رہنے سے شِوانش تعلیم پر بھی توجہ نہیں دے پاتا تھا جس کے نتیجے میں اُس کے پروجیکٹس ادھورے یا غیر معیاری رہ جاتے تھے۔ ریتو چھابڑا نے اُس کی پروجیکٹ فائل پر دستخط سے بھی انکار کردیا۔ شِوانش نے بڑی کوشش کی کہ اُس کی ناقص کارکردگی کو کسی نہ کسی طور قبول کرلیا جائے مگر پرنسپل نے بات نہ مانی۔ اور پھر وہ ہوا جس کا کسی کو گمان تک نہ تھا۔ ایک دن شِوانش گھر سے باپ کا 32 بور کا پستول اٹھا لایا اور پرنسپل پر گولیاں برسادیں! ریتو چھابڑا کو چار گولیاں لگیں اور وہ کچھ ہی دیر بعد اسپتال میں دم توڑ گئیں! 
ذرا چینی معاشرے کا سوچیے کہ حالات نے گولیاں نہیں بلکہ گولے داغے مگر ایک بچی ان گولوں کے سامنے ڈٹ گئی۔ ڈنگسوانگ نے ثابت کردیا کہ جسے آگے بڑھنا ہو اُس کے لیے حالات والات کوئی چیز نہیں ہوا کرتے۔ معذور والدین اور معذور بھائی کا بوجھ اُس کے لیے بوجھ ہی نہیں۔ اِتنی سی عمر میں پورے گھر کی ذمہ داریاں اُس کے کاندھوں پر آن پڑی ہیں مگر اُس نے مایوس ہوکر کسی پر گولی داغی ہے نہ اپنے آپ کو نشانہ بنایا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ڈنگسوانگ نے پریشان کن حالات کو نشانے پر لے رکھا ہے! وہ خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ 
اِس کے مقابلے میں ذرا بھارتی طالب علم کی ذہنی حالت پر غور کیجیے۔ ایک تو اپنے شب و روز میں کوئی تبدیلی نہ لانا اور پھر اصلاح کی طرف مائل کرنے کی کوشش کیے جانے پر اسکول کی پرنسپل ہی کو دنیا سے چلتی کردینا! جہاں طے کرلیا گیا ہو کہ خود کو بدلنا ہے نہ حالات کو وہاں کسی بہتری کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی۔ معاشرے میں کئی دھارے ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔ خرابیوں کا دھارا بہت مزے کا ہے کیونکہ اِس میں بہنا نہیں پڑتا۔ اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے اور بہتے چلے جائیے۔ مشکل تو وہاں پیش آتی ہے جہاں خیر کو زندگی کا حصہ بنانا ہو، اپنی اصلاح کے بارے میں عمل سے ہمکنار ہونا ہو۔ 
جب کوئی معاشرہ علم کی اہمیت سمجھتا ہو اور عمل سے زندگی کو مزیّن کرنے پر یقین رکھتا ہو ایک کمزور سی بچی بھی عزمِ مصمّم کی تصویر بن جاتی ہے۔ اور جہاں علم و عمل دونوں کو بالائے طاق رکھنے کا چلن عام ہوچکا ہو وہاں غلط روش پر چلنے رہنے کا عمل ترک کرنے بجائے اصلاح کی طرف مائل کرنے والوں ہی کو قتل کرنے کا آپشن اپنایا جاتا ہے! 
ڈنگسوانگ نے ایسا بوجھ اٹھا رکھا ہے جو اُس کے پورے وجود کو ہلکا کرنے کا سبب بن رہا ہے کیونکہ اب زندگی بھر اُس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف شِوانش جیسے لوگ اپنی تھوڑی سی اصلاح کے ذریعے بہتر زندگی کی طرف جانے کے بجائے زندگی کی جڑ ہی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved