کوریا جو شمال اور جنوب میں تقسیم ہو کر دو الگ ملکوں میں بدل چکا ہے‘ اب اس کے دونوں حصے تقسیم کے مسائل سے دوچار ہیں۔ شمالی کوریا‘ روس اور چین کے رحم و کرم پر ہے جبکہ جنوبی کوریا امریکہ کے۔ میں نے شمالی کوریا دیکھا ہے جو مکمل طور پر ایک فوجی چھائونی میں بدل دیا گیا ہے۔ وہاں کی حکومت اپنے اردگرد کسی طرح کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ شمالی کوریا نے امریکہ کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے۔ باقی کسی ملک سے اس کو خطرہ نہیں۔ دوسری طرف امریکہ بھی اس سے ٹکر لینے پر تلا رہتا ہے لیکن حوصلہ دونوں کو نہیں ہو رہا۔ یہ ایک دلچسپ مقابلہ ہے۔ چین یہ چاہتا ہے کہ کوریا متحد ہو کر اپنے عوام اور خطے کی ترقی و خوشحالی کے لئے مل کر کام کرے۔ شمالی کوریا کی فوجی اور جنوبی کوریا کی معاشی ترقی‘ دونوں ایک دوسرے کے لئے مدد گار ہو سکتی ہیں۔ یہ وقت کب آئے گا؟ اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستانی سیاست پر رائے زنی سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے سیاسی تعفن سے بچ کر اِدھر اُدھر کے حالات کا جائزہ لیتا رہوں۔ ذیل کی تحریر اسی کوشش کا حصہ ہے۔ راجر بیکر‘ امریکی ریاست ٹیکساس سے ہیں۔ عالمی امور خصوصاً جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک معاملات کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ ان کا تجزیہ ملاحظہ فرمائیے:
''جنوبی کوریا میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد‘ جزیرہ نما کوریا پر منڈلانے والے جنگ کے خطرے کی تمازت کم کر سکتا ہے۔ امریکہ اور چین جیسی دیو ہیکل ریاستوں کے درمیان دبی ہوئی دونوں ریاستیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت شروع کرنے پر راضی دکھائی دیتی ہیں۔ سیول اور پیانگ یانگ دونوںکو بیجنگ کی طرف سے معاشی دبائو کا سامنا ہے جبکہ واشنگٹن کا عسکری رویہ‘ ان کے خطرات میں اضافے کا باعث بھی۔ اگر شمالی کوریا‘ امریکہ کا فوجی ہدف ہے تو جنوبی کوریا اس کا میدانِ جنگ۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے شروع ہوتے ہی‘ پیانگ یانگ اور سیول نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کر دی۔ ایسا کرتے ہوئے صرف ایک دوسرے کی پوزیشن کو ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کی پوزیشنز کو بھی مد نظر رکھا گیا۔ مثال کے طور پر شمالی کوریا نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ایٹمی پروگرام پر بات نہیں کرے گا کیونکہ اس کے میزائلوںکا رخ جنوبی کوریا (چین اور روس) کی طرف نہیں بلکہ امریکہ کی طرف ہے۔ دوسری طرف جنوبی کوریا نے باہمی مفادات سے متعلق ایشوز پر مذاکرات کا خیر مقدم کیا۔ ان ایشوز میں اولمپکس کا انعقاد اور خطے میں فوجی تنائو سے پاک‘ زون قائم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ پیانگ یانگ اور سیول‘ دونوں خطوں کے معروضات کو دیکھتے ہوئے‘ مذاکرات کی طرف آنا کوریا کے دیرینہ حقائق کی غمازی کرتا ہے۔ یہ قوم بڑی طاقتوں کے کھیل میں پس کر رہ گئی ہے۔ تاریخی طور پر کوریا کبھی بفر سٹیٹ (Buffer State) رہی ہے تو کبھی بڑی طاقتوںکی گزر گاہ۔ جزیرہ نما کوریا بحری طاقتوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ روس اور چین کے سنگم پر واقع کوریا زرد سمندر کی گزرگاہ کے لیے تحفظ فراہم کرتا رہا ہے۔ براعظم کی طرف سے اس کا رخ جاپانی جزائر کی طرف ہے۔ یہ سوشیما جزیرے سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کا ہنشو اور کیشو جزائر سے بھی اتنا ہی فاصلہ ہے۔ بعض اوقات جاپان کی آبادی اور بندرگاہ کے ڈھانچے کو‘ کوریا سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
ایک بفر زون کے طور پر‘ اس کی نیشنل سکیورٹی کا جھکائو بڑی طاقتوں کی طرف رہا ہے۔ اس وجہ سے اس کی سکیورٹی بڑی حد تک محفوظ رہی ہے۔ کوریا نے چین کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو دیگر طاقتوں سے بچانے کی کوشش کی۔ شمالی کوریا نے سرد جنگ کے دوران‘ سکیورٹی کے لیے چین اور روس پر انحصار کیا جبکہ جنوبی کوریا‘ امریکی کیمپ میں دکھائی دیا۔ اس دوران جنوبی اور شمالی کوریا نے‘ اپنی اپنی افواج اور دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کیا تاکہ اپنی آزادی کا تحفظ کرسکیں۔ کوریا نے اکثر اوقات شمال مشرق کی طرف پیش قدمی کی کوشش بھی کی۔ اس کی وجہ شمال کی طرف سے امڈنے والا خطرہ اور چین کی داخلی کمزوری تھی۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں‘ شمالی کوریا نے امریکہ کی نصیحت کے برعکس‘ نہ صرف بھاری صنعت کو ترقی دی بلکہ جوہری پروگرام کی طرف بھی قدم بڑھایا۔ شمالی کوریا‘ عملی طور پر ایک فوجی اور جوہری طاقت بن گیا۔
13ویں صدی میں شمالی چین کو فتح کرنے کے بعد‘ منگول فورسز نے کوریا کو تاراج کیا۔ انہوں نے جاپان پر حملے کے لیے اس سرزمین کو‘ ایک فوجی ٹھکانے کے طور پر استعمال کرنا چاہا لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔ دوسری طرف جاپان نے 1500 کے عشرے میں کوریا پر حملہ کیا۔ اصل ہدف چین پر قبضہ کرنا تھا لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہا۔چند سو سال بعد 1800 کی دہائی میں‘ چین کی بیداری اور مغربی قوتوں کی خطے میں یلغار نے کوریا کی کمزوری عیاں کر دی۔ کمزوری یہ تھی کہ ہر طاقت اس سر زمین پر قدم رکھ کر آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ فرانس اور امریکہ نے جزیرہ نما کوریا کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ماسکو کی بھی کوریا پر نظر رہی۔ جب جاپان نے پہلی چینی بحری فو ج کو 1894ء اور 1905ء میں روسی بحریہ کو شکست سے دوچار کیا تو اس کے لیے کوریا کو اپنے اندر ضم کر لینا کوئی مشکل نہ تھا۔ ایسا کرتے ہوئے جاپان‘ ایشیا ئی بحرالکاہل کی عظیم سلطنت بن گیا۔ اس کے بعد تاریخ دوسری جنگِ عظیم کی گواہ بنی۔ اس جنگ نے کوریا کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ ریاستیں سوویت اور امریکی بلاکس کی طفیلی ریاستیں بن گئیں۔ آج دنیا انہیں جنوبی اور شمالی کوریا کے نام سے جانتی ہے۔
چین آج بھی شمالی کوریا کو ایک بفر سٹیٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے کیونکہ یہ ریاست جنوبی کوریا میں موجود‘ امریکی فورسز کو اس کی سرحد سے دور رکھتی ہے۔ اسی طرح مستقبل میں جاپان کے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں شمالی کوریا‘ چین اور جاپان کے درمیان کھڑا ہو گا۔ اس دوران امریکہ بھی جنوبی کوریا کو ایک بفر سٹیٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگرچہ جنوبی اور شمالی کوریا علاقائی طاقتوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ خود اپنے لیے کوئی سکیورٹی بندوبست نہیں کر پائے۔ منقسم ریاستوں کے طور پر جنوبی اور شمالی کوریا دونوں کمزور ہیں۔ اگر دونوں ریاستیں کسی طور مل جائیں تو بھی یہ واضح نہیں کہ وہ کس طرح خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کریںگی؟ جغرافیائی طور پر کوریا کسی طور بھی بڑی طاقتوں کے اثر سے نہیں نکل سکتا۔
آج دونوں کوریائی ریاستوں کے سامنے تاریخی اور جغرافیائی معروضات رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر‘ مون جے ان نے اپنی سکیورٹی اور پیانگ یانگ کے عزائم کے درمیان ایک نازک لکیر کھینچ رکھی ہے۔ ان کی ریاست چین سے بھی روابط رکھتی ہے اور امریکہ سے بھی۔ دوسری طرف شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن‘ چین اور روس کے خلاف نہیں ہو سکتے۔ اس پس منظر میں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی بہت اہمیت ہے۔ دونوں ممالک اپنی قسمت کا خود تعین کرنے کی راہ تلاش کرنے جا رہے ہیں لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ معاشی اور فوجی طور پر‘ اپنی سرپرست ریاستوں سے آزاد نہیں ہیں۔ یقینا سرد جنگ ختم ہو چکی ہے۔ کوریا کی سرزمین چین‘ روس‘ امریکہ اور جاپان کے درمیان ایک مسابقت کی تکون کے طور پر موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حالات تبدیل ہو جائیں لیکن سرزمین تبدیل نہیں ہوئی‘‘۔