تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-01-2018

صرف ایک راستہ ہے !

حدیبیہ کیس کی طرح، بچ نکلنے کا صرف ایک راستہ ہے کہ قانون میں کوئی سقم تلاش کر لیا جائے۔کوئی ایسے جج ہوں، جنہیں طاقتوروں پہ ترس آتا ہو وگرنہ نہیں، بالکل نہیں۔
جھوٹے الزام پر آدمی تلملاتا ہے لیکن سچے الزام پر اس سے بھی زیادہ۔ آشیانہ ہائوسنگ سکیم کے بارے میں شہباز شریف کا مؤقف قطعاًدرست نہیں۔خود ان کے ہاتھ پیر ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی چیخ و پکار معمول سے کہیں زیادہ ہے۔ خادمِ پنجاب روئے پیٹے تو بہت ہیں مگر دلیل ایک بھی پیش نہ کر سکے۔ کہا، نیب نے پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے کہنے پر ا نہیں طلب کیا ہے۔ تحریکِ انصاف کا تو کوئی تعلق ہی اس معاملے سے نہیں۔ نیب کے چیئرمین کا تقرر وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے کیا تھا۔ کیا جنابِ شہباز شریف یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ جسٹس جاوید اقبال یکایک اور اچانک عمران خان اور آصف علی زرداری کے ایجنٹ بن گئے ہیں؟ اگر ان کا فرمان یہ ہے اور بظاہر یہی ہے تو اس سنگین الزام کا کوئی ثبوت بھی انہیں پیش کرنا چاہیے ورنہ الزام واپس لیں اور قوم سے معافی مانگیں۔ جج صاحب نیک نام ہیں۔ ادارے کو انہوں نے زندہ کر دیا، ورنہ قمر زمان چوہدری نے تو اسے ایک گھٹیا سا تھانہ بنا دیا تھا۔ شہباز شریف فرماتے ہیں کہ رحمن ملک اور آصف علی زرداری کو کیوں طلب نہیں کیا گیا۔ اس جملے کے باطن میں چھپا ہوا مفہوم دراصل یہ ہے کہ جب مجھ سے بھی بڑے قصوروار موجود ہیں تو مجھ ہی پر نظرِ کرم کیوں۔ بظاہر ان کی بات میں بڑا وزن ہے مگر اس سے وہ معصوم اور مظلوم ثابت نہیں ہوتے۔ 100فیصد اگر ان سے اتفاق بھی کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت رحمن ملک اور حضرت آصف علی زرداری پہ بھی شکنجہ کسا جانا چاہیے۔ Islamabad Safe Cityپراجیکٹ میں رحمن ملک کا جرم اس قدر واضح ہے کہ انہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا۔ وزیراعلیٰ نے تو یہ بات آج کہی، اس معمولی اخبار نویس نے تبھی شور مچایا تھا۔ اس پر بھاگتے ہوئے وہ اس اخبار کے دفتر پہنچے، جس سے ان دنوں تعلق تھا۔ جلے پائوںکی بلی کی طرح سید عباس اطہر مرحوم، اسلام آباد کے آئی جی کلیم امام اور پھر ڈاکٹر شعیب سڈل کے پاس پہنچے۔ ان میں سے ہر ایک نے انہیں بتایا کہ وہ اس پاگل سے بات نہیں کر سکتے۔ پھر انہوں نے ایک بریگیڈئیر سے التجا کی، جو آئی ایس پی آر سے وابستہ تھے اور خبروں کی تلاش میں جن سے میرا واسطہ رہتا تھا۔ وہ بیچارہ سادہ سا آدمی تھا۔ ایک چٹ پر اس نے رحمن ملک کے ذاتی نمبر لکھے اور کہا کہ ازراہِ رکرم ان سے بات کر لیجیے۔ واپس آتے ہوئے یہ چٹ میں دفتر کے باہر پڑے گملے میں پھینک آیا۔ بیچارے بریگیڈئیر نے اگلے دن مجھے فون کیا: ایسی بھی کیا سفاکی،کاغذ کا یہ پرزہ جی ایچ کیو کے باہر جا کر ضائع کر دیا ہوتا۔ بریگیڈئیر کی میں نے دلجوئی کی۔ ایک دن پروفیسر احمد رفیق اختر کے ہاں اسے مدعو کیا۔ دیسی گھی میں پکی ہوئی دیسی مرغی کھلائی اور عرض کیا کہ اس طرح کے کاموں میں وہ نہ پڑا کرے۔ اس تفصیل کے لیے معذرت۔ منو بھائی میں نہیں۔ جب تک صحت مند رہے، وہ ایسا کالم لکھا کرتے کہ ایک جملہ بھی حذف نہ کیا جا سکتا۔ہم لوگ تو کبھی کہانی کے پیچھے بھی چل پڑتے ہیں۔ جو بات اخبار نویس کو معلوم تھی، عصرِ حاضر کے شیر شاہ سوری اور قائدِ اعظم ثانی کو کیوں پتہ نہ چل سکی ؟ الیکشن سر پہ آتا ہے تو گلا پھاڑ پھاڑ کر نون لیگ والے چیختے ہیں کہ زرداری بدعنوان ہے، لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر انہیں گھسیٹا جائے گا۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے ان کی دولت واپس لائی جائے گی۔ پھر وہ معافی مانگ لیتے ہیں اور برسوں خاموش رہتے ہیں۔ یہ میثاقِ جمہوریت کا ثمر ہے جو انکل سام کے ایما پر وجود میں آیا تھا اور جس کی ذمہ داری برطانوی وزارتِ خارجہ کو سونپی گئی تھی۔ دوسری دلیل میاں محمدشہباز شریف کی یہ ہے کہ اگر ایک کمپنی کی بجائے انہوں نے دوسری کو ٹھیکہ دیا تو اربوں روپے بچانے کے لیے۔ تین برس ہوتے ہیں، جب اس کالم میں عرض کیا تھا کہ آشیانہ کا فلیٹ آٹھ لاکھ روپے میں بن سکتا تھالیکن شہباز شریف گیارہ لاکھ پہ مصر رہے۔ ہارون خواجہ، جو تب ان کے دوست اور سرکاری مشیر تھے، ایک گاڑی میں ٹھیکیدا رلاد کر وزیرِ اعلیٰ کے پاس لے گئے اور یہ کہا : آپ صرف ایک سڑک بنا دیں۔ آٹھ لاکھ روپے میں مکان بن جائے گا۔ ہمیں دخل دینے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ بینک جانیں اور شہری جانیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے فرمایا: نہیں، نہیں خواجہ صاحب، چیزیں حکومت کے ہاتھ میں رہنی چاہئیں۔ خواجہ اب تک حسنِ ظن کے مارے ہوئے تھے۔ اب جو بات کھلی تو انہوں نے گاڑی کی چابیاں شہباز شریف کی میزپہ رکھیں اور اپنے گھر چلے گئے۔ ایک ایک کر کے ہر وہ شخص دربار سے الگ ہوجایا کرتا ہے، جس کے ضمیر میں ایک چنگاری بھی باقی ہو۔ حکومتوں کے مدح سرا بازاری اور بے یقین لوگ ہوتے ہیں۔ کسی قوم کی بیداری کا پیمانہ یہی ہے کہ وہ اپنے طاقتوروں کے باب میں کیا طرزِ احساس رکھتی ہے۔ بھکاریوں کا یا اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے کا۔چین کبھی فکر و دانش کا گہوارا تھا۔تب اس کے ایک فلسفی نے کہا تھا : لکھنے والے کی مرضی ہے کہ وہ بادشاہ بنے یا گداگر۔سرکاری ٹی وی کا ایک پروگرام حاصل کرنے کے لیے لوگ قلم کی بجائے کشکول سے لکھنے لگتے ہیں۔الف ننگے بادشاہوں کے تن پر لباس ہی نہیں، انہیں خود، زرہ بکتر اور ہاتھ میں تلواربھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ایسے ہی درجن بھر گداگر بادشاہ کو ننگا کہنے والے اس اخبار نویس کو گالیاں بک رہے ہیں، بکا کریں۔
بڑے بھائی کی طرح میاں شہباز شریف نے دھمکی بھی دی کہ نیب کو وہ بے نقاب کریںگے۔ قمر زمان چوہدری جیسے نکھٹو کو تو وہ بے نقاب نہ کر سکے۔ چار سال تک ڈاکٹر عاصم، رحمن ملک اور آصف علی زرداری کو بے نقاب کرنے کی بھی کوشش نہ کی۔ زرداری سے تو الٹا معافی مانگ لی اور اس سے تعاون کی التجا کرتے رہے، جسے ڈاکو کہتے ہیں۔ ایسا ہی کوئی جلوہ دیکھ کر شاعر نے کہا ہوگا 
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں 
شریف خاندان شریف لوگوں کا صبر آزما تاہے۔ہوشمند ہوں تو ایسا نہ کریں۔اس لیے کہ کبریائی خدا کی چادر ہے اور مخلوقِ خدا، اللہ کا کنبہ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سے راہ و رسم پہ اس قدر بھروسہ نہ کریں۔ کسی دن کوئی چڑ جائے گا، مثلاً جسٹس جاوید اقبال ہی۔ اگر فرعون کے دربار میں کھڑے جادوگروں کی طرح، کسی دن انہوں نے کہہ دیا کہ بگاڑ سکتے ہو، بگاڑ لو؟
عدلیہ، فوج اور اس کے پیچھے کھڑی رائے عامہ کو شریف خاندان بلیک میل نہیں کر سکتا۔ عمران خاں نے پارلیمنٹ پہ لعنت بھیجی تو غلط کیا مگر جعلی عوامی نمائندوں کے خلاف نفرت اتنی شدید ہے کہ 70فیصد نے اس کی تائید کی۔بھک منگے اخبار نویس، سرکاری ٹی وی کے پروگرام مانگتے رہے۔ فوجی جوان اپنے لہو سے چراغ جلاتے رہے۔ شریف خاندان زراندوزی میں لگا رہا۔ ایک اندھا بھی جانتا ہے کہ خلقِ خدا کس کی تائید کرے گی۔ آشیانہ ہائوسنگ سکیم کے بارے میں احد چیمہ سمیت کئی گواہوں کے بیان ریکارڈ پر ہیں۔ حدیبیہ کیس کی طرح، بچ نکلنے کا صرف ایک راستہ ہے کہ قانون میں کوئی سقم تلاش کر لیا جائے۔کوئی ایسے جج ہوں، جنہیں طاقتوروں پہ ترس آتا ہو وگرنہ نہیں، بالکل نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved