تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     24-01-2018

راؤ انوار کی طاقت

تین برس ہوتے ہیں، کراچی میںدوستوں کی مجلس برپا تھی کہ ایک دوست نے اپنا موبائل فون مجھے تھما دیا اور حکم دیا، بات کرو۔ میں نے حکم کی تعمیل میں فون کان سے لگا لیا تو پختون لہجے میں رواں اردو بولتے ہوئے کوئی صاحب کراچی پولیس کی چیرہ دستیوں کا ذکر کررہے تھے۔ میں نے کچھ تفصیل چاہی تو معلوم ہواکہ ملیر کے ایس پی راؤانوار کی بات ہو رہی ہے۔ راؤ انوار کا ذکرآتے ہی میں بے ساختہ پوچھ بیٹھا، ''آپ کا کوئی عزیز اس کی قید میں تو نہیں؟‘‘ ۔میرا سوال قیامت ہوگیا۔جواب آیا، میرے تین عزیز اس کی قید میں تھے مگر چند دن پہلے وہ انہیں دہشت گرد قرار دے کر پولیس مقابلے میں قتل کرچکا ہے۔ یہ کہہ کر وہ صاحب فون پر ہچکیاں لے لے کر رونے لگے۔ چند لمحے بعد ایک دوسری آواز ابھری جس نے بتایا کہ ''کاکا جان (چچا جان) اب بات کرنے کے قابل نہیں رہے، لیکن ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے ان سے اگلے دن کا وقت طے کرلیا اور فون بند ہوگیا۔ مجلس ابھی جاری تھی کہ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر رزا ق خان آن پہنچے۔ باتوں باتوں میں اس فون کال کا ذکر ہوا تو کہنے لگے‘ میں بھی اسی کام کے لیے آپ سے ملنے آیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیگ میں سے ایک فائل نکالی جس میں سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی ایک پٹیشن اور سندھ پولیس کے ساتھ خط و کتابت کی نقول لگی تھیں۔ اس سے پہلے کہ میں فائل پڑھتا، رزاق خان بولے ، ''یاد رکھیے گا کہ یہ ایک ہارا ہوا مقدمہ ہے۔ جن تین لوگوں کو راؤ انوار سے چھڑانے کے لیے ہم ہائیکورٹ گئے تھے ، وہ مارے جا چکے ہیں ، ان میں سے ایک سبزی کا کام کرتا تھا اور دو پنکچر کی دکان پر مزدور تھے۔ ان تینوں سے ہینڈ گرنیڈ ، خودکش جیکٹ اور نجانے کیا کیا کچھ برآمد کرکے میڈیا والوں کو دکھایا جاچکا ہے‘‘۔ خیر اگلے روز میں ان تینوں مارے جانے والوں کے لواحقین سے ملا جنہوں نے نہ جانے کیوں مجھ سے امید وابستہ کرلی تھی کہ میں انہیں انصاف دلانے کے لیے کچھ کر گزروں گا۔ کراچی سے لاہور آتے ہوئے جہاز میں بیٹھ کر میں نے یہ فائل مکمل طور پر پڑھ لی۔ پھر اپنے صحافیانہ روابط سے کچھ پتا چلانے کی کوشش کی اور جو کچھ معلوم ہوا اگلے روز دنیا ٹی وی کے پروگرام میں بتا بھی دیا۔ میری آواز سیاست کے نقار خانے میں دب کر رہ گئی۔ ادھر ادھر کچھ حرکت ہوئی مگر راوی نے پھر چین ہی چین لکھنا شروع کردیا۔ مجھے بھی کچھ زیادہ توقع نہیں تھی کیونکہ مجھے یقین تھا اورہے کہ راؤ انوار کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا البتہ وہ جسے چاہے مار سکتا ہے۔ 
اس کے چند دن بعد دوبارہ کراچی گیا تو ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت کے ہاں کھانے پرایس ایس پی ملیر راؤ انوار بنفس نفیس موجود تھے۔ ہم دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں ، میں نے کچھ کہا نہ آنجناب نے کچھ فرمایا۔ البتہ کھانے کے بعد اسی گھر کے ایک گوشے میں جہاں میں کسی سے موبائل فون پر بات کر رہا تھا کہ راؤانوار میرے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ میں نے فون مختصر کیا اور ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کہنے لگے ، ''آپ نے جو کچھ میرے بارے میں کہا ہے وہ سچ نہیں ہے‘‘۔ میں نے پوچھا‘ کونسی بات سچ نہیں تو انہوں نے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک بات مجھے بتائی جس کا ذکر میں نے پروگرام میں کیا تھا۔ میں نے فوری طور پر اس کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ اگلے روز میں اس کی تصحیح کردوں گا البتہ میں نے ان تین نوجوانوں کے بارے میں خاموشی سے معذرت کرلی جو ان کے ہاتھوں مارے جاچکے تھے۔ ہماری بات چیت جو خوشگوار ماحول میں شروع ہوئی تھی فوراً ہی تلخی کی حدود میں داخل ہوگئی۔ راؤانوار کا کہنا تھا کہ میں ان کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہوں۔ میرا اصرار تھا کہ میں ان کی ذات کے حوالے سے وضاحت کرکے مارے جانے والوں کی بات کروں گا۔ ان کا اصرار اور میرا انکار بڑھتا رہا تو راؤصاحب کی اصلیت باہر آگئی۔ انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ دبایا اور میری
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ''آپ پاکستان میں کسی کا نام بتائیں جو آپ کو میری سفارش کردے، فلاں میرا دوست ہے، فلاں میرا جگر ہے، فلاں میرا مہربان ہے، فلاں میرا بھائی ہے، فلاں میری بہن ہے‘‘۔ ایس ایس پی ملیر کے منہ سے نکلنے والے ہر ''فلاں‘‘ پرمجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔ میرے ذہن میں آندھیاں چل رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ ان میں سے آدھے 'فلانے‘ بھی اگر اس شخص سے تعلق رکھتے تھے (یا ہیں) تو پھر پاکستان میں راؤ انوار کا کچھ نہیں بگڑ سکتا اور ان فلانوں کی موجودگی میں پاکستان کا کچھ بن نہیں سکتا۔ میں خاموش رہا تو انہوں نے بڑے رسان سے کہا، ''ابھی آپ کو صحافت میں بہت آگے جانا ہے، آپ کو سمجھ بوجھ کر بولنا اور لکھنا چاہیے‘‘۔ اپنی بات ختم کرکے میرا کندھا زور سے دبایا، فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور ہاتھ ہٹا لیا۔ اب میرے لیے خاموش رہنا مشکل تھا۔ میں نے صرف اتنا کہا، ''راؤ صاحب میں وہ کروں گا جو میرا کام ہے، آپ وہ کیجیے جو آپ کرسکتے ہیں‘‘۔ گفتگو ختم ہوچکی تھی، ہم دونوں واپس کھانے کے کمرے میں چلے گئے۔ ہمارے میزبان نے ہماری غیر حاضری بھی محسوس کی تھی اور ہم دونوں کے درمیان تلخی بھی بھانپ لی تھی۔ مجھے افسوس ہورہا تھا کہ میں یہاں کیوں چلا آیا اور شاید میزبا ن بھی افسردہ تھا کہ اس نے مجھے کیوں بلایا۔ میں یہ سوچتا ہوا وہاں سے نکل آیا کہ میرے پاس سوائے آواز اٹھانے کے کیا راستہ ہے اور آواز اٹھ بھی جائے تو کیا ہو گا کہ اس ملک کا ہر طاقتور تو راؤ انوار کی جیب میں پڑا ہے۔ مجھے علم تھا کہ راؤ انوار کراچی کے بڑے بڑے کاروباری گروپوں کی باہمی لڑائیوں میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے، کس طرح اس شہر میں کاروبار، جرم ، سیاست اور پولیس ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ اس ملک کے ایک وزیراعظم کے سامنے جب راؤ انوار کی کارستانیوں پر مبنی فائل رکھی گئی تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میں اسے نہیں چھیڑ سکتا۔ وہ ملک کے وزیراعظم سے بھی طاقتور تھا، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پا رہا تھا اور وہ کشتوں کے پشتے لگائے چلے جارہا تھا۔ 
جب میں نے پہلی بار نقیب اللہ محسود کی تصویر دیکھی اور معلوم ہوا کہ یہ نوجوان کراچی میں کسی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے تو فوراً راؤ انوار کا خیال آیا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ یہ درست بھی نکلا۔ میری نظروں کے سامنے ان لوگوں کے چہرے گھومنے لگے جو کسی نہ کسی عنوان کے تحت ملیر یا گڈاپ کے کسی ویرانے میں یکطرفہ مقابلوں کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ خیال بھی آیا کہ کچھ نہیں ہو گا بس چند دن شور شرابا رہے گا اور ا س کے بعد راؤ انوار اپنا کام کرتا رہے گا۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات تک بات رہتی تو شاید ایک آدھ دن کے ماتم کے بعد نقیب اللہ کو بھلا دیا جاتا مگر سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ایسے چل نکلی کہ نقیب اللہ محسود کا خون رنگ لاتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ انکوائری کمیٹی بنی تو لگا اس کی تشکیل سے راؤ انوار کے دامن پر لگے دھبے مٹانا مقصود ہے لیکن اس کمیٹی نے واقعی انکوائری شروع کردی تو حوصلہ ہوا۔ پھر سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ کے قریب احتجاج ہوا توحوصلہ بڑھا۔ پھر راؤ انوار عہدے سے ہٹا دیا گیا تو امید پیدا ہوئی کہ اب انصاف ہوگا۔ محسودوں نے کراچی میں جرگہ کیا تو محسوس ہوا اب شاید راؤانوار کے سرپرستوں کو بھی اس کی طرفداری کرتے کچھ شرم آئے گی۔ مگرانصاف کے کملائے ہوئے پودوں پر امید کی نئی کونپلیں پھوٹتی دیکھ کر بھی مجھے بہار کی آمد کا یقین نہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ راؤ انوار کا کچھ نہیں بگڑے گاکیونکہ اسے بچانے والے 'فلانے‘ بڑے طاقتور لوگ ہیں۔ کسی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ نظام ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا ہے اور ہم سب نقیب اللہ ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved