تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-01-2018

اس قدرتفریق کیوں؟

تم سے پہلے بہت سی قومیں اسی لئے تباہ ہوتی رہیں کہ ان میں غریب اور امیر کیلئے علیحدہ علیحدہ قانون رائج تھا( حدیث پاک)۔ یہ فرمانِ رسول اﷲ ﷺرہتی دنیا تک بنی نوع انسان کیلئے مشعل راہ ہے اور وہ لوگ اور قومیں جو کمزور اور طاقتور کیلئے وہی قانون اور طریقہ رائج رکھتی ہیں جو روز محشر خدائے بزرگ و برتر کے دربار میں فقیر اور بادشاہ دونوں کیلئے ایک جیسا اور برا بر ہو گا وہی آج ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہیں اور وہ لوگ اور قومیں جہاں ایک نچلے درجے کے کلرک اور حکمرانوں پر الگ الگ قوانین نافذ کئے جائیں ان کی حالت سب کے سامنے ہے۔ چند دن ہوئے اینٹی کرپشن پنجاب نے محکمہ انہار کے ایک ڈائری کلرک کو سرکاری ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنے پر سخت قانونی کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیا اور شائد یہی وجہ تھی کہ ملک بھر کے ٹی وی چینلز بھی اینٹی کرپشن پنجاب کی پھرتیوں پر حیران رہ گئے ہوں گے کہ اس نایاب اور عجیب وغریب خبر کو ٹی وی چینلز نے بار بار نشر کرنا شروع کر دیا جسے دیکھتے اور سنتے ہوئے لوگ عش عش کر اٹھے اور جب اس خبرکی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک ڈائری کلرک نے ایک درخواست پر کسی گزری ہوئی تاریخ کا نمبر لگا دیا تھا اور اس کے اس بھیانک جرم پر پنجاب حکومت میں تھرتھلی مچ اٹھنے پر ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کو حکم جاری ہوا کہ اس کلرک کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیاتو ہو سکتاہے کہ پاکستان کی معیشت اورکاروبار زندگی کسی بہت بڑے سانحہ کی نظر نہ ہوجائے جس کی تلافی فوری طور پر نہ ہو سکے۔
پنجاب کی اینٹی کرپشن ٹیم نے جوتیزی اور جانفشانی قوم کے بہت بڑے مجرم کی شکل میں اس ڈائری کلرک کو گرفتار کرنے میں دکھائی ہے اس پر یقینا وزیر اعلیٰ زبردست شاباش اور مبارکباد کے مستحق ہیں اور یقینا پانچویں گریڈ کا محکمہ انہار کا یہ ڈائری کلرک جواس ملک کو لُوٹ کر کھا نے لگا تھا جس سے اس نے نیوزی لینڈ میں ہو سکتا ہے کہ کوئی بہت بڑی سٹیل لگانی تھی یا آئس لینڈ کا بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور خرید لینا تھا‘ آج اﷲ کے فضل و کرم سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑا سردی میں ٹھٹھرتا ہوا سوچتا ہو گا کہ '' اس جرم کی اتنی بڑی سزا؟؟‘‘۔لیکن جب اس ڈائری کلرک نے اپنی گرفتاری سے اگلے ہی روز جیل کی کسی بیرک میں لگے ہوئے ٹی وی یا کسی اخبار میں یہ خبر سنی یا پڑھی ہو گی کہ جب سابق وزیر اعظم کے قریبی عزیزوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے ایک دو نہیں بلکہ جعلی کاغذات کا بھاری بھر کم جوپلندہ پیش کیا تھا ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں نکلا اور یہ سب کے سب جعلی ثابت ہو گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر کیلبری فونٹ کا بھید بھی کھل گیا ہے تو بیوقوف نہ جانے کس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں سوچنا شروع ہو گیا ہوگاکہ عدالت کے سامنے جعلی کاغذات دینے کے باوجود ان دونوں کو کچھ نہ کہا گیا، ان دونوں سے معمولی سی بھی پوچھ گچھ نہیں کی گئی کہ انہوںنے یہ جعلی کاغذات کیوں پیش کیے ؟۔ انہوں نے یہ جعلی کاغذات دیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تقدس کا خیال کیوں نہیں کیا؟۔ اس عدالت کو دھوکہ دینے کی جان بوجھ کر کوشش کیوں کی ؟۔ یہ حرکت کرتے ہوئے کیا وہ جانتے نہیں تھے کہ اس جرم کی سزا کتنی سخت ہے؟۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ سے احتساب عدالت بھیجا گیاتو وہاں پر نہ جانے کن کی مہربانیوں سے عدالت میں پیش کئے جانے والے جعلی کاغذات کے تحت مذکورہ افراد کے خلاف درج دفعات مقدمے سے ہی نکال دی گئیں۔
روزنامہ دنیا کی15 جنوری کی اشاعت میں اسلام آباد سے اس کے نمائندے کی دی جانے والی خبر کے مطا بق اسلام آباد نیب کورٹ نے دو اہم شخصیات کے خلاف جعلی دستاویزات کی دفعات نکالنے کا جو حکم دیا تھا اس پر نیب نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر تے ہوئے ان دونوں شخصیات کے خلاف سیکشن3A کو اس میں باقاعدہ طور پر شامل کرنے کی استدعا کی ہے۔۔۔نیب کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کا اس مقدمے سے سیکشن تین اے نکالنے کا حکم غیر قانونی ہے جبکہ احتساب عدالت نے فرد جرم میں ترمیم کی درخواست جزوی طور پر منظور کر لی تھی اور کیلبری فونٹ کی جعلی دستاویزات سے متعلق سیکشن 3A کو فرد جرم سے نکال دیا گیا تھا جبکہ کیلبری فونٹ کی جعلی دستاویزات سے متعلق پیرا گراف فردِ جرم کا با قاعدہ حصہ ہے۔
پنجاب کے کسی محکمے کا ایک غریب ڈائری کلرک جس نے یقینا چند سو روپے کی رشوت کے عوض کسی سرکاری کاغذ میں کوئی ہیرا پھیری کی ہو گی اسے تو اینٹی کرپشن پنجاب نے گرفتار کرنے کے بعد ایک دن کی ''زبردست جسمانی تفتیش ‘‘ میںاس کی اچھی طرح ٹھکائی کرنے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا کیونکہ وہ پانچویں گریڈ کا غریب ڈائری کلرک تھا، اس کا باپ کسی وزیر مشیر یا بڑے صاحب کا قریبی نہیں تھا، اس کے پاس رشوت دینے کیلئے بڑی رقم نہیں تھی، وہ کسی وزیریا وزیر اعلیٰ، صدر یا وزیراعظم کا داماد تو دور کی بات ہے ان کے دربان کا بھی داماد نہیں تھا ورنہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی قانون کے لمبے ہاتھوں سے محفوظ رہ جاتا، اس کے خلاف یا تو مقدمہ درج ہی نہ ہوتا اور اگر درج ہو بھی جاتا تو اس مقدمے میں بھی تھری اے کی طرح کاغذات میں ہیرا پھیری کی دفعات بھی نہ لگتیں۔
ایک غریب اور لاچار ڈائری کلرک غلط تاریخ کا نمبر لگانے کے جرم میں اینٹی کرپشن والوں سے اپنی اچھی طرح دھلائی کرانے کے بعد اب جیل میں بند پڑا ہے لیکن یہ کیسا ملک ہے یہ کیسا انصاف ہے کہ اس کے سامنے اس کی میز پر بڑی بے جگری سے جان بوجھ کر اپنی صفائی دینے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے جعلی کاغذات کے پلندے پھینکے جاتے ہیں لیکن سب خاموش رہتے ہیں اور ایک ڈائری کلرک کو چند سوروپے بطور رشوت لینے پر کاغذات میں ہیرا پھیری کرنے پر پولیس کی اذیت کا سامنا اس قدر کرنا پڑتا ہے کہ خدا کی پناہ؟۔کیااس کیلئے بھی وہی قانون نہیں لگ سکتا ؟ کیااسے بھی وہ رعائت نہیں دی جا سکتی تھی جو جعلی اور بوگس کاغذات تیار کرنے اور پھر اسے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے پیش کرنے والوںکو مل چکی ہے؟۔
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان صرف کسی ایک خاندان کا نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان بابااﷲ دتا کا بھی ہے اور یہ پاکستان مائی بھاگو کا بھی ہے اور یہ با با رحمت کا بھی ہے تو یاد رکھیں کہ اسی طرح یہ پاکستان اس غریب اور لاچار ڈائری کلرک کا بھی ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پاکستان میں ان دونوں سے ایک جیسا سلوک نہیں کیا گیا۔ جیل میں بند وہ ڈائری کلرک۔۔۔آج سب سے سوال پوچھ رہا ہے کہ میرا جرم اگر اس قدر سنگین تھا تو پھر دیگر کا جرم تو مجھ سے کئی گنا زیا دہ سنگین ہے۔۔۔پھر ہم دونوں میں اس قدرتفریق کیوں؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved