تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-01-2018

جی کا زیاں نہ ہو!

آبادی کے حجم، رقبے اور مختلف شعبوں میں واضح مہارت کے بل پر کوئی بھی بڑی ریاست بین الاقوامی امور میں اپنی حیثیت منواکر ہی دم لیتی ہے۔ کسی بھی زمینی حقیقت کی یہی بنیاد ہے۔ اِسے تسلیم کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ امریکا نے اپنی واحد سپر پاور کی حیثیت کو مختلف حوالوں سے کم و بیش ڈھائی عشروں تک خوب منوایا ہے۔ 
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا کے لیے میدان خالی تھا۔ سرد جنگ ختم ہوئی تو اُس نے گرم جنگوں کا زمانہ شروع کیا۔ اور یہ گرم جنگیں دراصل ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا معاملہ تھیں۔ کمزور مسلم ممالک کو چُن چُن کر ختم کیا گیا۔ سب سے پہلے افغانستان کو نشانہ بنایا گیا جو پہلے ہی خاصا کچلا ہوا تھا۔ اس کے بعد عراق کو تاراج کیا گیا۔ عراق کو ملیا میٹ کرنے کے بعد لیبیا کا حشر نشر ہوا۔ اِس کے بعد یمن اور پھر شام کی باری آئی۔ امریکا نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر مشرق وسطیٰ کے خطے کو ایک بار پھر شدید عدم استحکام سے دوچار کیا۔ ساتھ ہی ساتھ شیعہ سُنّی اختلاف کی دیوار کو مزید بلند کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں اس وقت عرب و غیر عرب کا قضیہ اِتنی شدت سے اٹھایا جاچکا ہے کہ ایک بڑی جنگ کی آگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ 
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب تک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ کس خطے میں کیا کرنا ہے اور کس حد تک کرنا ہے۔ ان کے قریبی حلقے کے بنیادی لوگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ امورِ خارجہ کے محاذ پر وہ زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالمی سیاست کی بساط پر نئے کھلاڑیوں کا ابھر آنا کس قدر پریشان کن ہے۔ چند نئی معیشتوں کا تیزی سے ابھرنا امریکی پالیسی میکرز کے لیے مستقل نوعیت کے دردِ سر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ صدر ٹرمپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آرہا ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ پالیسیوں میں عدمِ استقلال در آیا ہے۔ کسی بھی بات پر قائم رہنے کی روش کو خیرباد کہنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ 
کسی بھی بڑی طاقت کی پالیسی راتوں رات تبدیل نہیں ہوتی۔ اور تبدیلی کیا، کوئی معمولی tilt متعارف کراتے وقت دس بار سوچا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسی میکرز بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ وزارتِ خارجہ اور ایوانِ صدر کے ترجمان حد درجہ محتاط رہتے ہیں۔ بیان جاری کرتے وقت زبان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی ایک جملہ بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر ہو اور پالیسی میں تبدیلی کا پتا دیتا ہو تو بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ 
ایسا لگتاہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیم حسّاس ترین معاملات میں بھی احتیاط کا دامن تھامنے کو تیار نہیں۔ ایک طرف اسرائیل کو نوازنے کی روش برقرار ہے اور دوسری طرف پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو ڈانٹنے، دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلپائن جیسا ملک بھی، جو کبھی امریکا کا پختہ ترین حاشیہ بردار ہوا کرتا تھا، اب زمینی حقائق کو سلام کرتے ہوئے چین اور روس کی طرف جھک چکا ہے اور اُسے اس بات کی پروا نہیں کہ ایسا کرنے کی پاداش میں کس نوعیت کے مضمرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی امریکی پالیسی میکرز اور ٹرمپ انتظامیہ کے لوگ نوشتۂ دیوار پڑھنے پر آمادہ نہیں۔ 
افغانستان اب بہت حد تک ناک کا بال بن چکا ہے۔ امریکیوں کی سمجھ ہی میں نہیں آرہا کہ اس دلدل سے ''باعزت‘‘ کیسے نکلیں۔ ایک دنیا جانتی ہے اور اچھی طرح سمجھتی ہے کہ افغانستان میں ایسا کیا تھا جو امریکا کو لینا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا تھا اور پھر وہاں قدم جماکر چین، روس اور دیگر علاقائی طاقتوں کو آنکھیں دکھاتے رہنا تھا۔ ڈیڑھ عشرے تک یہ ڈراما اسٹیج کیا جاتا رہا۔ اب زمینی حقائق پھر بدل گئے ہیں۔ حقائق بدلنے سے ڈرامے کا اثر بھی معدوم ہوچلا ہے۔ چراغ میں تیل کم ہوتا جارہا ہے۔ جب ایسا ہو تو لَو بھی مدّھم پڑتی جاتی ہے۔ تیل کی مقدار بڑھانے کے سِوا تمام کام کیے جارہے ہیں۔ 
ٹرمپ انتظامیہ اب تک یہ سمجھ رہی ہے کہ محض دھمکیاں دے کر کام نکال لیا جائے گا۔ چند برس پہلے تک یہ ممکن تھا۔ اب ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ خطے میں تبدیلی کی بھرپور لہر چل پڑی ہے۔ علاقائی اور عالمی سیاست کی بساط پر نئی بازی شروع کی جارہی ہے۔ نئے کھلاڑی سامنے آچکے ہیں۔ کھلاڑی نئے ہیں تو پھر مہرے نئے کیوں نہ ہوں؟ ٹرمپ انتظامیہ اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے معاملات کی نزاکت محسوس کرنے کے بجائے اب بھی یہی چاہتی ہے کہ سب پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں۔ دنیا کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ امریکا نے ڈیڑھ عشرے میں پاکستان کو خوب نوازا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معیشت، معاشرت، سیاست اور سفارت ... تمام ہی بنیادی شعبوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہے۔ اور خرابیاں سُودِ مرکّب کی طرح ایک دوسرے کو ضرب دیئے جارہی ہیں۔ دوسری طرف امریکا اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ جو کچھ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کا حق تھا اُسے بھی احسان قرار دیا جارہا ہے۔ نوازنے کے نام پر پاکستان کو مزید تباہی کی طرف دھکیلا گیا ہے اور اِس کا بھی ''کریڈٹ‘‘ لینے کی کوشش کی جارہی ہے! اوباما دور سے شروع ہونے والی ''ڈو مور‘‘ کی گردان تاحال جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کی تمام پالیسیاں سمٹ کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک تنگ سی پہاڑی پٹّی پر مرتکز ہوگئی ہیں۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا الزام کثرت اور تواتر کے باعث اب تاثیر سے محروم ہوچکا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو ڈرا دھمکاکر اپنی جیب میں رکھا جائے، اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کرائی جائیں۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے مگر اِس سے پاکستان کو کیا ملا ہے؟ غالبؔ کے پیرائے میں کہیے تو قدم قدم پر یہی گمان ہوتا رہا ہے ؎ 
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟ 
بندگی میں مِرا بھلا نہ ہوا 
فلپائن نے تقریباً سوا سال قبل اچھا فیصلہ کیا کہ امریکا سے غیر معمولی حد تک لاتعلقی اختیار کی اور بدلتی ہوئی علاقائی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے چین اور روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا۔ پاکستان کے لیے بھی اب امریکا کے معاملے میں وہی رویّہ لازم ہوگیا ہے جس کا اظہار اُس نے دو ڈھائی ماہ کے دوران کیا ہے۔ جنرل اسمبلی میں فلسطین کے حوالے سے رائے شماری کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستان کے لیے ایک بڑا امتحان تھا۔ دُم پر پاؤں پڑنے کے بعد امریکا نے جو ردعمل ظاہر کیا وہ تھوڑا سا پریشان کن ضرور تھا، غیر متوقع ہرگز نہ تھا۔ بڑوں کے اور بڑوں سے معاملات بدلتے اور بگڑتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہر ریاست کو تیار رہنا چاہیے، بالخصوص کمزور ریاستوں کو۔ اسلام آباد کے پالیسی میکرز کو سمجھنا چاہیے کہ نادان کی دوستی میں جی کا زیاں ہوا کرتا ہے۔ اچھا ہے کہ اِس دوستی کا گراف نیچے لاکر جی کا زیاں روکا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved