تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     25-01-2018

نفاذِ شریعت کا نعرہ

سات دن میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ وہی کر سکتا ہے جو ریاست سے واقف ہے اور نہ شریعت سے۔ تو پھر پیر حمیدالدین سیالوی صاحب اور دوسرے مشائخ نے یہ مطالبہ کیوں کیا، درآں حالیکہ، گمان یہی ہے کہ وہ شریعت کو جانتے ہیں اور ریاست کو بھی۔
میں نے تقاریر کی تفصیل جاننا چاہی۔ شاید کسی نے شرح کی ہو کہ یہ مطالبہ مرکزی حکومت سے ہے یا صوبائی حکومت سے؟ اگر حکومت سات دن میں شریعت نافذ نہیں کرتی تو پیر صاحب کا فرمانا تھا کہ وہ پنجاب کے بازار اور گلیاں بند کر دیں گے۔ اس دھمکی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مطالبے کی مخاطب صوبائی حکومت ہے۔ اب صوبائی حکومت شریعت کیسے نافذ کرے گی، مجھ جیسا طالب علم تو اس سوال کا جواب دینے سے رہا۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ شریعت سے مراد کیا ہے؟
پاکستان آئینی طور پر 'اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے۔ اس ملک میں کوئی قانون ایسا نہیں بن سکتا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔ جرم و سزا کے شرعی قوانین نافذ ہیں۔ مذہبی جماعتوں اور گروہوں نے جو جو مطالبات کیے، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق نے سب پورے کر دیے۔ اگر کوئی ایسا قانون موجود ہے تو پیر صاحب کیا، کوئی مرید بھی وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کر سکتا اور اس کی تبدیلی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ یہی نہیں سپریم کورٹ کا اپیلنٹ بینچ بھی موجود ہے۔ اِن دنوں بھی سود کے خاتمے کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ اس کے بعد وہ کون سی شریعت ہے جو ریاست نے نافذ کرنی ہے؟
یہ معاملہ تو ریاست کا ہے۔ جہاں تک صوبائی حکومت کا سوال ہے تو اسے نفاذِ شریعت کے لیے کیا کرنا چاہیے، یہ پیر صاحب کے مطالبے سے معلوم نہیں ہو سکا۔ اب جو نافذ ہونا ہے، اس کا مصداق نہ مطالبہ کرنے والے پر واضح ہے نہ مطالبہ ماننے والے پر تو پھر صوبائی حکومت کیا نافذ کرے گی؟ میں تین عشروں سے ان موضوعات کا طالب علم ہوں۔ میں بھی نفاذِ شریعت کا مفہوم طے کرنے سے معذور ہوں۔ کیا پیر صاحب کا کوئی مرید یہ جاننے میں میری مدد کر سکتا ہے کہ پنجاب میں نفاذِ شریعت سے کیا مراد ہے؟
یہ مطالبہ سن کر مجھے یادش بخیر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم یاد آئے۔ 1977ء میں جب قومی اتحاد کی تحریک عروج پر تھی تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم آٹھ دن میں ملک میں شریعت نافذ کر دیں گے۔ مولانا نے تا دمِ مرگ یہ راز نہیں کھولا کہ ایسا کیونکر ممکن ہو گا؟ خیر وہ ایک رومانوی دور تھا۔ لوگ گمان کرتے تھے کہ ایسا ممکن ہے۔ جنرل ضیاالحق صاحب کے گیارہ سال نے تو سارا رومان ختم کر دیا۔ اب کوئی یہ مطالبہ کرتا ہے تو لوگ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگتے ہیں۔
لے دے کر ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ حکمرانوں کا کردار غیر اسلامی ہے۔ اگر اسلامی کردار والے حکمران بن جائیں تو شریعت نافذ ہو جائے گی۔ یہ دلیل پیر صاحب یا ان کے حلقے کی طرف سے سامنے نہیں آئی لیکن بعض دیگر گروہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی کردار والے کیسے حکمران بن سکتے ہیں؟
حکمران بننے کی تین ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کسی کو خدا خود اقتدار سونپ دے۔ ختمِ نبوت کے بعد، ہم سب مانتے ہیں کہ یہ دروازہ بند ہو گیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو عوام منتخب کریں۔ عوام کا انتخاب ہمارے سامنے ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی بندوق کے زور پر آ جائے۔ اس وقت تو یہ کام طالبان ہی کرنا چاہتے ہیں۔ 'پیغامِ پاکستان‘ کی شکل میں ملک بھر کے علما اور مشائخ نے متفقہ فیصلہ دے دیا کہ طاقت کے زور پر حکومت پر قبضہ کرنا یا قائم نظام (ریاست) کے خلاف اٹھنا حرام ہے۔ کوئی آئین پسند مارشل لا کی بھی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ تو کوئی اور صورت موجود نہیں۔ علما کی حکومت کا تصور دین میں موجود ہے نہ دنیا میں۔ اسے پاپائیت کہا جاتا ہے جسے انسانی ذہن مسترد کر چکا۔
میں تھوڑی دیر کے لیے فرض کرتا ہوں کہ کسی غیبی ذریعے سے معاشرے کا نیک ترین آدمی حکمران بن گیا ہے۔ کیا اس کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ کیا پھر شریعت نافذ ہو جائے گی؟ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ اگر معاشرتی بُنت (Social fabric) میں اخلاقی خرابی آ چکی ہو تو اس صورت میں نیک حکمران بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ ہماری تاریخ میں خلافتِ راشدہ کے بعد عمر بن عبدالعزیز کا کوئی ثانی نہیں آیا۔ مولانا مودودی کا تبصرہ ہے کہ وہ بھی 'قطعی ناکام‘ ثابت ہوئے۔ مولانا نے اس کی وجہ بتائی؛ ''جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو، کسی مصنوعی تدبیر سے نظامِ حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ جیسا فرمانروا‘ جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملے میں قطعی ناکام ثابت ہو چکا ہے، کیونکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالمگیر جیسے طاقت ور بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظامِ حکومت میں کوئی تغیر نہ کر سکے۔‘‘ (تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان (دوم)، صفحہ176)
کیا ہماری سوسائٹی تبدیلی کے اس عمل سے گزر چکی؟ کوئی اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد نفاذِ شریعت کا ہر مطالبہ بے معنی ہے، یہ پیر سیالوی صاحب کی طرف سے سامنے آئے، متحدہ مجلسِ عمل اس کا علم لے کر کھڑی ہو جائے یا کوئی اور۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی اخلاص کے ساتھ نفاذِ شریعت چاہتا ہے تو پھر اسے سب سے پہلے معاشرے کی تربیت کرنی چاہیے۔ یہی علما کی اصل ذمہ داری ہے جسے قرآن مجید 'انذار‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے محراب و منبر تیار ہیں اور نہ ہمارا خانقاہی نظام۔ سب اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے لیے کہیں آسان ہے کہ وہ اسے حکومت کی ذمہ داری قرار دے کر اپنی جان چھڑا لیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ممدوح مولانا مودودی نے بھی یہی کیا۔ وہ جس بات کے علم بردار تھے، اس کی خود انہوں نے اس طرح تفہیمِ نو کی کہ نفاذِ شریعت اصلاً ریاست کا کام قرار پایا۔ انہوں نے قیادت کی تبدیلی کو اصل کہا‘ اور سماجی تعمیر ایک ضمنی مقصد بن گئی۔ جماعت اسلامی کی ترجیحات ان کی زندگی ہی میں تبدیل ہو گئیں۔ آج سب کو یہی آسان دکھائی دیتا ہے کہ وہ نفاذِ شریعت کا بار حکومت پر ڈال دے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ خانقاہ جو تزکیہ نفس کے لیے وجود میں آئی تھی، اس کے نمائندے ایک وزیر کے استعفیٰ کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر ہیں اور پنجاب کو بند کرنے دھمکی دے رہے ہیں۔
آج عملاً عوام نفاذِ شریعت کے مطالبے سے لا تعلق ہو چکے۔ اس نعرے کی بنیاد پر تو عوام کو سڑکوں پر نہیں لایا جا سکتا۔ آج کا مرید بھی سیانا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کہاں اس نے پیروں کی بات ماننی ہے اور کہاں اپنے مادی اور سیکولر مفادات کے تحت فیصلہ کرنا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں، پوٹھوہار کے علاقے میں وہ سب لوگ ہار گئے جن کی حمایت وہاں کی سب سے بڑی گدی نے کی تھی۔
سیاست اہلِ سیاست کا کام ہے۔ اسے انہی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ سیاست دان کا متبادل کوئی سیاست دان ہی ہو سکتا ہے، عالم، پیر یا جنرل نہیں۔ اگر کوئی پیر سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے شاہ محمود قریشی یا فیصل صالح حیات کی طرح کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن جانا چاہیے۔ یہ لوگ خانقاہ سے مادی فائدے اٹھاتے ہیں مگر اسے سیاست کا فورم نہیں بناتے۔ یہ بھی اگرچہ استحصال ہی کی ایک صورت ہے مگر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ 
قوم اب نفاذِ شریعت کے مطالبے سے آگے نکل چکی۔ جو اس بات کا اعتراف نہیں کرے گا، خود الجھے گا اور دوسرے کو بھی الجھائے گا۔ آج سیاست کا ایجنڈا تبدیل ہو چکا۔ اس کے اعتراف ہی میں سب کی بھلائی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved