غریبوں کو چاہیے‘ اپنے کیس میں نوازشریف
لکھ دیا کریں‘ فیصلے جلد آئیں گے : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''غریبوں کو چاہیے اپنے کیس میں نوازشریف لکھ دیا کریں‘ فیصلے جلد آئیں گے‘‘ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ فیصلے کہیں میرے جیسے نہ آ جائیں ورنہ دس سال قید تو کہیں گئی ہی نہیں‘ اور ایک سے زیادہ کیس ہوں تو اُن کو دس سال سے ضرب دے دی جائے جبکہ اس بات کا بھی پُورا پُورا امکان موجود ہے کہ ایک سزا پوری ہونے کے بعد دوسری سزا شروع ہو‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ججز کو مُجھ سے خاص محبت ہے‘‘ اور دراصل یہ میری اس محبت کا جواب ہے‘ میں اُن کے بارے میں جس کا اظہار مسلسل کرتا رہتا ہوں اور یہ محبت کی فطرت ہے کہ یہ ایک دوسری کو کھینچتی ہیں‘ آزمائش شرط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے خلاف ریفرنس پر ریفرنس آ رہے ہیں‘ حالانکہ منی لانڈرنگ ہو‘ یا کرپشن ایک ہی جرم ہے اور ان کا ریفرنس بھی ایک ہی ہونا چاہیے جبکہ میری تو ایک ریفرنس ہی سے تسلّی ہو جاتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران نیازی 24 گھنٹے جھوٹ بولتا ہے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عمران نیازی 24 گھنٹے جھوٹ بولتا ہے‘‘ حالانکہ ایک آدھ گھنٹے کا وقفہ بھی کر لینا چاہیے۔ اس طرح تازگی حاصل کر کے زیادہ زور شور سے جھوٹ بولا جا سکتا ہے جس سے صحت اچھی رہتی ہے ‘اسی لیے ہماری صحت بھی خاصی اچھی ہے۔ ماشاء اللہ! انہوں نے کہا کہ ''پشاور میں ڈینگی آیا تو یہ عوامی مدد کی بجائے پہاڑوں پر چڑھ گیا‘‘ اور اسی لیے یہ ڈینگی سے بچ گیا ورنہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''لاہور میں ڈینگی آیا تو اس نے مذاق اُڑایا‘‘ اور یہ بات ڈینگی مچھروں نے بھی سُن لی اور سیدھے پشاور جا پہنچے‘ اسی لیے سیانوں نے کہا ہے کہ کسی کا مذاق نہیں اُڑانا نہیں چاہیے‘ یہ بہت بُری بات ہے اور ہم اسی لیے کسی کا مذاق نہیں اُڑاتے اور اپنے عاجزانہ کام میں لگے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت بھی ڈال رکھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ڈاکٹروں اور نرسوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
گالیوں کی سیاست کرنیوالوں کو عوام مسترد کر دیں گے : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''گالیوں کی سیاست کرنے والوں کو عوام مسترد کر دیں گے‘‘ کیونکہ گالی دینا بھی ایک فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا اور جس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے قائد کی شاگردی اختیار کی جائے جو دن رات اداروں کی خبر لیتے ہیں اور اشاروں کنایوں ہی میں اپنا عذر بیان صرف کر دیتے ہیں اور کسی کو جواب دینے کی جرأت ہوتی ہے نہ ضرورت‘ بلکہ اب تو ہم سب ماشاء اللہ اس فن میں طاق ہو چکے ہیں اور ہر طرف رونق لگی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارا کام عوامی خدمت ہے‘ محاذ آرائی نہیں چاہتے‘‘ جبکہ عوامی خدمت کے تو ہم نے ڈھیر لگا دیئے ہیں اور محاذ آرائی؟ ہمیں پتا ہی نہیں کہ محاذ آرائی کیا ہوتی ہے بلکہ محاذ آرائی کے لیے تو ہمارے پاس وقت ہی نہیں بچتا کیونکہ ہمیں عوامی خدمت میں مزہ بھی بہت آتا رہا ہے لیکن اس کی وجہ سے کچھ پریشانیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں حتیٰ کہ خاکسار پر بھی انتقامی کارروائی ہونے کا خدشہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مسلم لیگی کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
نوازشریف کی آواز اب عوام اور حامیوں کی آواز بن چکی : حمزہ شہباز
خادم اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے اور رُکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کی آواز اب عوام اور حامیوں کی آواز بن چکی ہے‘‘ اگرچہ یہ چند روز ہی کی بات ہے کیونکہ بہت جلد والد صاحب کی آواز اُن کی جگہ لینے والی ہے اور اگر حدیبیہ پیپر ملز کیس کھل گیا تو شاید کوئی بھی آواز باقی نہ رہے کیونکہ اس کے فیصلے کے بعد مکمل سناٹا ہے اور کسی کو کان پڑی آواز بھی سُنائی نہیں دے گی جبکہ میرے گھر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹوانا بھی اسی انتقامی کارروائی کا حصہ ہے جو ہمارے خلاف شروع کی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے کردار ادا کیا‘‘ اور پیپلز پارٹی کو کریڈٹ دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی کے ساتھ رابطے بحال ہو رہے ہیں اور والد صاحب نے اپنے حالیہ بیان میں زرداری کی کرپشن کا ذکر کیا ہے نہ سوئس بینکوں سے اس کی لُوٹی ہوئی رقم واپس لانے کا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ
یہ شبیر نازش کا مجموعہ کلام ہے جسے بُک ہوم نے چھاپا اور قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا انتساب والد محترم بشیر احمد راجپوت بھٹی‘ والدہ محترمہ مقبولہ بی بی استاد محترم مرزا نصیر خالد (مرحوم) اور کسی حُسن دل افروز کے نام ہے جس نے محبت کے معنی سمجھائے۔ خوبصورت سرورق وصی حیدر نے بنایا ہے‘ پس سرورق شاعر کی تصویر وارث خان کی کھینچی ہوئی ہے جبکہ خطاط غلام محی الدین ہیں۔ دیباچے لکھنے والوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیئر‘ پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ ڈاکٹر اسلم انصاری اور سلیم کوثر ہیں۔ اندرون سرورق دونوں طرف شاعر کے 14 منتخب اشعار درج ہیں جو کہ بیحد معمولی درجے کے ہیں۔ اس کے بعد کتاب پڑھنے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن دیباچہ نگار چونکہ سب کے سب قابل احترام ہیں اس لیے ساٹھ ستر صفحات پڑھ جانے کے بعد بھی مایوسی میں کمی نہ ہوئی۔ ایک آدھ شعر کی میں قسم نہیں دیتا کیونکہ ایک دو اچھے شعر تو آدمی غلطی سے بھی کہہ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے اپنے آپ کو جدید طرز احساس کی ہوا تک نہ لگنے دی اور ان پر بھی لگتا ہے شاعر نے خصوصی توجہ دی ہے۔ کتاب کی قیمت زیادہ ہے جو کلام کے پیش نظر تو بہت ہی زیادہ لگتی ہے۔ ہم شاعر کو مشورہ ہی دے سکتے ہیں کہ وہ کسی وقت جدید غزل کا مطالعہ بھی کر ڈالیں‘ شاید کچھ فرق پڑ جائے۔ اور‘ یہ بھی کہ تاثیر اور تازگی شاعری کے لیے ممنوعہ چیزیں نہیں ہیں!
آج کا مطلع
اگرچہ مُہر بہ لب ہُوں‘ سُنائی دے رہا ہُوں
کہ ہُوں کہیں بھی نہیں اور دکھائی دے رہا ہُوں