تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-01-2018

عورت کا پیغام

عورت کے مختلف روپ ہیں اور اس کے ہر روپ کی ایک الگ اہمیت اور اثر ہے۔ ماں کی حیثیت سے وہ جنم دینے والی شخصیت ہے۔ بیوی کی حیثیت سے وہ رفیق سفر زندگی ہے۔ بہن کی حیثیت وہ ایک دلاسہ دینے والی غمخوار شخصیت اور غیرت کی علامت ہے اور بیٹی کی حیثیت سے پیار ، عزت اور آبرو کی علامت ہے۔ ہر سمجھدار اور حساس انسان عورت کی ان تمام حیثیتوں میں اُس کی اہمیت کو محسوس کر سکتا ہے۔ 
ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے عورت کو دنیا کے مختلف معاشرے میں مختلف انداز سے دیکھا جاتا ہے اور بہت سے عصری معاشرے حقوق نسواں کے حوالے سے کردار اور رویوں پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو جو عظیم مقام عطا کیا ہے اس کی مثال کوئی بھی مذہب اور معاشرہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسلام سے قبل عورت کا استحصال پورے عروج پر تھااور بحیثیت مجموعی اس کوئی حیثیت نہیں دی جا رہی تھی۔ اس کو فقط سامان لذت سمجھتا جاتا اور اخلاقی گراوٹ اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ لوگ اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیا کرتے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا چلن اپنے پورے عروج پر تھا۔ گو اس معاشرے میں بھی چند مثبت سوچ رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ جیسے کہ بخاری شریف کی حدیث میں مذکور ہے کہ زید بن عمر بن نفیل کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے تھے۔ ''اے قریش کے لوگو!اللہ کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے۔ اور ایسے شخص سے جو اپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتا کہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتاہوں۔ چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی تمہارے حوالے کر سکتا ہوں۔ اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا۔‘‘ لیکن بحیثیت مجموعی اس قسم کی پاکیزہ سوچ رکھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد عورت کو منفرد شان اور عظمت حاصل ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 19 میں اس امر کا اعلان فرمایا ''اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں ارشاد ہوا ''اور ان (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں )جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں )دستور کے مطابق۔ ‘‘حضرت رسول اللہﷺ ازواج مطہرات کے ساتھ بہترین معاملہ فرماتے رہے۔ دینی اور معاشرتی مشغولیات کے باوجود امور خانہ داری میں ان کا ساتھ دیتے رہے اور آپ ﷺنے اس امر کا بھی اعلان فرما دیا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل سے بہترین سلوک کرنے والا ہو، اور میں اپنے اہل سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘ نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہ ؓاور حضرت عائشہ ؓکا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے دعوت دین میں آنے والی تکالیف کے دوران نبی کریمﷺ کی بھرپور انداز سے دلجوئی کی۔ جب کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ کے فرامین مبارک کو یا د بھی کیا اور ان کو آنے والی نسلوں تک بھی منتقل کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے پردے میں رہنے کے باوجود نبی کریمﷺ کے ارشادات عالیہ اور سنت مطہرہ کی ترسیل اور تدریس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 
حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا کردار بھی بیوی کی حیثیت سے مثالی رہا۔ آپ ؓ نے حضرت علی المرتضیٰ کے ساتھ ہمیشہ تابعدار ی اور فرماںبرداری والا رویہ رکھا اور آپ نے جس انداز میں حضرت حسن وحسین ؓ کی تربیت کی وہ آپؓ کے مثالی بیوی اور غیر معمولی ماں ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام نے ماں ، بہن اور بیٹی کو بھی بہت زیادہ مقام عطا کیا۔ اور بیٹی کو بیک وقت وراثت میں حصے دار ٹھہرایا۔ نبی کریمﷺ اپنی بیٹیوں کے ساتھ مثالی سلوک فرمایا کرتے تھے اور کئی مرتبہ رازو نیاز کی باتیں بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ کامسکرانے اور رونے والا واقعہ موجود ہے کہ جس میں ان کو نبی کریمﷺ نے اپنے انتقال کی خبر دی اور اپنے اعزاء واقارب میں سب سے پہلے ملنے کی نوید سنائی۔ بخاری شریف میں یہ واقعہ حضرت عائشہ ؓ سے یوں مروی ہے کہ فاطمہ ؓ آئیں۔ ان کی چال میں نبی کریمﷺ کی چال سے بڑی مشابہت تھی۔ آپﷺ نے فرمایا بیٹی آؤ مرحبا! اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا۔ پھر ان کے کان میں آپ نے چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، میں ان سے کہا کہ آپ روتی کیوں ہو؟ پھر دوبارہ آپﷺ نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنس دیں۔ میں نے ان سے کہا آج غم کے فوراً بعد ہی خوشی کی جو کیفیت میں نے آپ کے چہرے پر دیکھی وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپﷺ نے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا جب تک رسولﷺ ہمارے درمیان موجود ہیںمیں آپﷺ کے راز کو کسی پر نہیں کھول سکتی۔ چنانچہ میں نے آپﷺ کی وفات کے بعد (حضرت فاطمہ ؓ سے اس واقعے کے بارے میں)پوچھا۔ 
اسی طرح بخاری شریف کی روایت میں یہ بات بھی آتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی ایک دختر کا جب انتقال ہوا تو ان کی تدفین کے وقت نبی کریمﷺ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔صحیح بخاری میں یہ حدیث یوں مذکور ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں ہم نبی کریمﷺ کی ایک بیٹی (اُم کلثوم رضی اللہ عنہا) کے جنازہ میں حاضر تھے۔ (وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا ۵ھ میں انتقال ہوا) نبی کریم ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپﷺ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو۔یا بعض محدثین کے مطابق اس نے اپنی عورت کے ساتھ زیادتی نہ کی ہو۔ اس پر ابو طلحہؓ نے کہا کہ میں ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو۔ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔ یہ تمام احادیث نبی کریمﷺ کی اپنی بیٹیوں سے غیر معمولی پیار پر دلالت کرتی ہیں۔ 
اسلام نے ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کو جس عزت، احترام اور وقار سے نوازا ہے بہت سے لوگ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بعض لوگ اسلامی تعلیمات پر تنقید کرتے ہوئے اسلام کو تنگ نظرقرار دیتے اور عورت کے حقوق کو غصب کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ مساوات مردوزن کے بہت سے علمبردار اسلام کو قدامت پسند مذہب سمجھتے ہیں اور اس کی عمومی وجہ اسلام کے احکامات 'حجاب ‘ہیں۔ اسلام کے احکامات حجاب کے حوالے سے ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں پردے کے جتنے احکامات ہیں ان کا مقصد عورت کی آزادی ،تعلیم اور حقوق کو چھیننا نہیں بلکہ ان اصول وضوابط کا بنیادی مقصد معاشرے میں موجود گندی نظر اور بری نیت رکھنے والے اوباش لوگوں کی بری نگاہوں سے عورت کو بچانا ہے۔ چنانچہ ہم اپنے معاشرے میں بے پردگی اور اختلاط کے منفی نتائج بکثرت دیکھتے ہیں کہ عورت کو کام کاج اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران کئی مرتبہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ معاملہ صرف عورتوں تک محدود نہیں بلکہ آئے دن کم سن بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر بدکاری کے واقعات منظر عام پر نظر آتے ہیں۔ ان واقعات کے تدارک کے لیے تاحال طور پر اسلام کی تعلیمات کے متبادل کوئی بھی تصور کفایت نہیں کر سکا اور مساوات مردوزن کے نعرے کے نتیجے میں عورت کی آبرو اور عصمت کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہوتے جارہے ہیں۔ 
اسلام نے بیٹیوں کو جو حقوق عطاکیے ہیں ان میں وراثت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ رشتوں کے چناؤ کے حوالے سے ان کی رائے کی اہمیت بھی شامل ہے۔گو حدیث مبارکہ میں ولی کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی بھی لڑکی کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی مرضی کے خلاف اس کو بیاہ دیا جائے ۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں حضرت خنسا بنت حزام ؓ کی شادی جب ان کی مرضی کے بغیر کردی گئی تو نبی کریم ﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کر دیا تھا۔ اگر عورتیں حقیقی معنوں میں اپنے حقوق چاہتی ہیں اور معاشرے میں باوقار طریقے سے اپنی زندگی کو بسر کرنا چاہتی ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ قرآن وسنت سے وابستگی کو اختیار کیا جائے۔ اگر صحیح طور پر قرآن وسنت کی تعلیمات سے وابستگی اختیار کی جائے تو عورتوں کو ان کی توقع اور مطالبات سے بھی زیادہ حقوق میسر آ سکتے ہیں ۔ بعض عورتیں جن حقوق کے حصول کے لیے مغرب کے خود ساختہ فلسفوں کو اختیار کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتی ہیں۔ وہ حقوق کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر بغیر احتجاج اور نعروں کے گھر بیٹھے مل سکتے ہیں۔ اے کاش مسلمان عورت بنیادی تعلیمات کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنے والی بن جائیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved