تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-01-2018

معصوم خون کی منڈی

آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔بھارت کے ایک دور دراز گائوں میں ایک گورا قیام پذیر ہوا۔ چند ہفتوں میں اس نے مقامی لوگوں کے ساتھ روابط بڑھائے اور کم سن لڑکیوں کے غریب گھر والوں کو پر اسرار طریقے سے رقوم دینے لگا۔ اس کے بعد آٹو میٹک کیمرہ لے کر مناسب جگہ پر نصب کر دیتا۔ غریب بچیوں کے ساتھ زیادتی کر کے انہیں گھر واپس بھیج دیتا۔جب زیادہ گھرانے متاثر ہوئے تو بزرگو ں کو شک پڑا۔ چھان بین شروع ہوئی۔ سراغ لگایا گیاتو راز کھلنے پر اس گورے مہمان کو‘ دیہاتیوں نے گھیر لیا ۔خوب مار پٹائی کر کے اسے گائوں سے نکال دیا۔بھارت ایک وسیع ملک ہے۔اس میں ایسے بہت سے سکینڈل ہوتے رہتے ہیں۔ حیدرآباد دکن کے واقعات ‘مذکورہ گائوں سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں۔وہاں شرق اوسط کے امیر لوگ آتے ہیں اور کم سن لڑکیوں سے شادیاں کر کے‘ غریب والدین کو مناسب رقم دیتے اور لڑکی کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد لڑکی روتے دھوتے واپسی کا کرایہ لے کر گھر لوٹ آتی ہے۔تماش بینوں کی انٹرنیشنل منڈی‘ دنیا کے بہت سے غریب ملکوں میں پھیلی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے عیاش لوگ‘ پسماندہ ملکوں میں ایسے ایسے کھیل کھیلتے ہیں کہ انسانیت شرم سے پگھل جائے۔ غریب ملکوں میں بااثر لوگوں کی مدد سے‘ ضرورت مند خاندانوں کی لڑکیوں کو کمرے میں بند کر کے‘ کبھی بامعاوضہ اور کبھی تشدد سے‘ مکروہ فلمیں بنائی جاتی ہیں جہاں تماشائی مناسب قیمت ادا کر کے اپنے گھروں اور محفلوں میں یہ کریہہ مناظر دیکھتے ہیں۔بعض ملکوں میں یہ مکروہ فلمیں کھلے عام بکتی اور کرائے پر چڑھتی ہیں اور بیشتر ملکوں میں یہ کاروبار خفیہ ہے۔ اگر اس خفیہ منڈی میں گردش کرنے والی دولت کا اندازہ کیا جائے تو یہ اربوں اور کھربوں کو محیط ہے۔
چند برس پہلے قصور میں اسی قسم کی منڈی لگی تھی اور پورے علاقے میں گندی کہانیاں پھیل گئیں۔ گناہوں کے بازار میں شہر کے طاقتور اور بااثر لوگ‘ عیاشی کے اس کھیل میں خود بھی کود پڑے۔ ایجنٹ بھی رکھ لئے۔ اس منڈی میں کم سن لڑکے نشانہ بنتے رہے‘ جس پر پورے علاقے میں شور مچ گیا۔ بااثر اور طاقتور لوگوں نے ساری کہانیوں پر سنسر لگا دیا۔ جب کہانیاں زیادہ پھیلنے لگیں تو میڈیانے دردناک واقعات کی رپورٹنگ شروع کر دی۔ اس کے نتیجے میں علاقے کے بڑے بڑے چودھری فکر مند ہوگئے۔ ان کی عزتیں نیلام ہونے کے خطرات پیدا ہوگئے۔ غالباً قصور کی یہ منڈی ملک کے دوسرے حصے میں منتقل ہو گئی ہو گی۔ زینب کا دردناک سانحہ منظر عام پر آیا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو خفیہ منڈی پہلے چل رہی تھی‘ اب وہ کم سن بچیوں کی عزت اور المناک مناظر پر چل رہی ہو گی۔ کچھ پتہ نہیں کہ چند روز کے لئے یہ اندوہناک کہانی رک جائے اور فراموشی کے اندھیروں میں ڈوبنے کے بعد پھر ابھر آئے۔
سب سے پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کم سن زینب کی اس دردناک کہانی کو اپنے ذرائع سے سنا۔ مظلوم اور معصوم بچی کے والدین کوحسب معمول پر اسرار کہانی سنانے قصور پہنچے اور ولن کو پکڑنے کا وعدہ کر لیا۔ ملزم کو پکڑ ا اور ہنگامی پریس کانفرنس کر ڈالی۔جس میں مظلوم زینب کے والد کو بھی مدعو کیا گیا۔ اچانک مظلوم بچی کے باپ کے سامنے رکھے ہوئے دو مائیک جارحانہ انداز میں بند کر دئیے گئے۔تقریب شروع ہونے سے پہلے رانا ثنا اللہ بھی سرگوشیوں میں زینب کے والد سے پر اسرار باتیںکرتے رہے۔ جن لوگوںنے ایک 
رات پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام دیکھا تھا‘انہیں معلوم ہو گیا ہو گا مگر جو ناظرین ڈاکٹر صاحب کا پروگرام نہ دیکھ سکے‘ ان کے لئے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے خوددردناک کہانی کا راز سربستہ ہی رکھا اور حسب عادت ڈرامائی انداز میں کہانی کی طرف اشارہ کر کے حاضرین کو سکتے میں ڈال دیا۔ ادھر اینکر موصوف نے یہ قصہ چیف جسٹس صاحب کے گوش گزار کر دیا۔انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ یہ راز کہیں نہیں کھولیں گے۔ البتہ رازداری سے قانونی کارروائی ضرور کریں گے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اندھیرے دور کر دئیے ہیں۔ لیکن گناہوں کی پھیلتی ہوئی منڈی میں اندھیرے ہی پھیلتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved