تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-01-2018

اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے

یہ رک جانے اور غور کرنے کا وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔ 
ایک قوم کی حیثیت سے جس ہولناک ہیجانی کیفیت میں ہم مبتلا ہیں، وہ ہمیں کہاں لے جائے گی؟ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا کہ مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے۔ گھبراہٹ سے بڑھ کر ہم تو جنون کو چھو رہے ہیں۔ پولیس سمیت ناکام ریاستی اداروں کا ذکر ہی کیا، معاشرے میں اصلاح کے طلبگاروں کا عالم بھی یہ ہے کہ ایک طرف تو اپنے معتوبوں ایسی مصلحت پسندی کی طرف مائل ہیں، دوسری طرف خود پسندی کا عالم یہ ہے کہ خود کوسب سے بڑے درد مندبنا کر پیش کرتے ہیں۔ شریف خاندان کی من مانیوں پر عمران خان بہت چیختے ہیں لیکن ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل انہیں گوارا ہیں۔
75 برس تک جماعتِ اسلامی اخلاقی عظمت کا علم اٹھائے کھڑی رہی۔ اب اسمبلیوں میں چند سیٹوں کی امید پر مولانا فضل الرحمٰن مد ظلہ العالی سے انہوں نے مفاہمت کر لی ہے۔ اب و ہ دونوں مل کر اسلامی نظام نافذ کریں گے۔ اب وہ دونوں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے متحد پاسبان ہوں گے... اور پس خوردہ پر قناعت کرنے والے وہ مذہبی عناصر جنہیں اور کہیں پناہ میسر نہیں۔مولانا فضل الرحمن کے بے رحمانہ طرزِ عمل پر ‘سید علی گیلانی کا احتجاج کسی کو یاد نہیں۔
خطرہ اکثر بیماری سے نہیں ہوتا۔ بیشتر بیماریاں قابلِ علاج ہوتی ہیں۔ اندیشہ مریض کی بد پرہیزی اور نالائقی سے ہوا کرتا ہے۔ ایک نہیں، چار بار سیاسی پارٹیوں کی باہمی آویزش نے، نفرت کی گرم بازاری نے مارشل لا کی راہ ہموار کی ہے۔ اب کی بار ایسا کیوں نہیں ہو گا۔ مان لیجیے کہ فعال طبقات، میڈیا اور عدالتوں کی مزاحمت کے علاوہ عالمی ماحول سدّ راہ ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ 2007ء کا تلخ تجربہ عسکری دماغوں میں ابھی تازہ ہو، فوجی افسر جب وردیاں پہن کر بازار نہیں جا سکتے تھے۔ ممکن ہے براہِ راست اقتدار سنبھالنے سے جنرل گریز کریں ایک نتیجہ تو لازم ہے۔ سیاست میں فوج کا کردار بڑھتا جائے گا اور یہ کسی اعتبار سے خوش آئند نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کے سوا پورے کا پورا معاشرہ بانجھ ہو چکا۔ مشکلات اور بحرانوں میں کوئی راہِ عمل تلاش کرنے کی صلاحیت وہ مکمل طور پر کھو چکا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قومیں اگر ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو جائیں تو ان کا انجام اچھا نہیں ہوا کرتا۔قدرت انہیں صدمات سے دوچار کرتی ہے۔نوازشریف چلے گئے ‘ شہبازشریف بھی چلے جائیں گے۔ سب چلے جاتے ہیں ۔ ان سے نجات حاصل کرنے کی آرزو میں معاشرے کا تانا بانا بکھیردینا کیا ضروری ہے۔
ایک ایسے الیکشن کے لیے، جو سیاسی استحکام پر منتج ہو، سیاسی پارٹیاں اگر ایک لائحۂ عمل طے نہیں کر سکتیں تو اس کا مطلب کیا ہے۔یہ کہ ہم اپنی نائو نالائق ملاحوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ باہم لڑتے جھگڑتے جو اسے کسی چٹان سے ٹکرا دیں گے۔ سیاست کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے ایک بار پھر میں یہی سوچتا ہوں کہ اس کا نتیجہ فوجی اقتدار ہوگا یا فوج کی چھتری تلے احساسِ جرم سے کسمساتی ایک کمزور حکومت۔
بہترین صلاحتیں بروئے کار لانے کے لیے ملکوں اور معاشروں کو آزادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آزادی مگر ڈسپلن میں فروغ پاتی ہے۔ ایک کم از کم نظم قبول کرنا ہوتا ہے۔ بے مہار آزادی طوائف الملوکی تک لے جاتی ہے۔ ملّا عمر سے پہلے کے افغانستان اور پانچ صدی پہلے کے وسطی ایشیا کی طرح، جس میں قصور شہر ایسے واقعات معمول بن جاتے ہیں۔ عمران علی ایسے کردار ابھرتے ہیں۔ اپنی روحیں جو شیطان کو بیچ دیتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب انہی کو اسفل السافلین کہتی ہے۔بدترین میں سے بھی بدترین۔
بدھ کے ایک واقعے نے مجھے دہلا دیا ہے۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کا سربراہ پیشی کے بعد سپریم کور ٹ سے باہر نکلا تو چند اخبار نویسوں نے اسے گھیر لیا۔ ان صاحب پر الزام یہ ہے کہ مفادات کی جنگ میں وہ شریف خاندان کے شراکت دار ہیں۔ وہ مسلسل عمران خان کی کردار کشی کے مرتکب ہیں۔ افواجِ پاکستان اور عدالتوں کے خلاف سابق وزیراعظم کی مہم میں ان کے مددگار ہیں۔ میں خود بھی اس سلسلے میں کچھ سوالات اٹھاتا رہا لیکن پرسوں جو سلوک چند اخبار نویسوں نے ان کے ساتھ کیا، اس نے مجھے دہشت زدہ کر دیا۔ ایک ایسے معاشرے میں، جو جما جڑا رہنے کا آرزو مند ہو، خود شکنی پر جو تل نہ گیا ہو، کسی بھی قصوروار کو سزا دینے کا طریق کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مجاز عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ ملک کا عدالتی نظام اگرچہ کمزور ہے لیکن جیسا کہ منگل کی سماعت میں بھی واضح ہوا، ماضی کے مقابلے میں معزز جج حضرات کہیں زیادہ آزاد ہیں۔ یہ آزادی انہیں بدلے ہوئے ماحول نے بخشی ہے۔ سلیقہ مندی سے کام لیا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ مستحکم، زیادہ نتیجہ خیز اور زیادہ ثمر بار ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ پولیس کا ہے۔ اگر پختونخوا کی انڈر 19 حکومت میں پولیس کو سیاسی رسوخ سے رہائی مل سکتی ہے تو امید ہے کہ کل کلاں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک اجلا معاشرہ تعمیر کرنے کی آرزو میں درست خطوط پر پیہم جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ صبر اور سچائی کے ساتھ۔ملال کے سوا جنونیوں کے ہاتھ کبھی کچھ نہیں آتا۔
ایک قرینہ طالبان اور اشتراکیوں کا ہے۔ معاشرے کو خوفزدہ کر کے اپنی پسند کے راستے پر چلانے کی کوشش۔ اشتراکی فلسفہ ابھی کل کی بات نہیں ہے۔ دو ہزار برس ہوتے ہیں، جب مزدک نامی ایک شخص نے ایران میں معاشی اور سماجی مساوات کی تحریک برپا کی۔کیسا ہنرمند آدمی ہو گا کہ نوشیرواں عادل ایسے حکمران کی موجودگی میں ناراض طبقات کو جاگیرداروں کے خلاف منظم کرنے میں کامیاب رہا۔ خواہ اعلان نہ بھی کریں، ایسی تحریکیں اخلاقیات سے عملاً بے نیاز ہی ہوتی ہیں۔ مزدک کا نعرہ بھی یہ تھا کہ کوئی چیز کسی کی مِلک نہیں۔ جائیداد اور کاروبار تو کیا، گھر بار اور بیوی بچے بھی نہیں۔ نوشیرواں نے کہ عالی ظرف تھا، چندے گوارا کیا۔ اس وقت وہ چونک اٹھا، جب خود اس کی سگی بہن مزدکیت کی تحریک میں شامل ہو گئی۔ یہ گویا خاندانی نظام اور تمام اخلاقی ضابطوں سے رہائی کا اعلان تھا۔ تب اس نے اپنی تلوار بے نیام کی اور باغیوں کے قتلِ عام کا حکم دیا۔دو ہزار برس کے بعد یہ مرض ایک بار پھر پھوٹ پڑا کہ ناانصافی کے ردّعمل میں معاشرے بعض اوقات پاگل پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب کی بار خدا کی آدھی زمین اس فلسفے نے فتح کر لی۔ سوویت یونین میں سٹالن نے پانچ کروڑ اور چین میں مائوزے تنگ نے ایک کروڑ آدمی مساوات کے نام پر قتل کر ڈالے مگر ہر غیر منطقی نظام کی طرح بالآخر اسے خاک چاٹنا تھی۔این جی اوز کے نام پر مغرب سے بھیک سمیٹنے والے ‘آج کے نام نہاد لبرل اور سیکولراس زمانے میں سوشلسٹ ہوا کرتے تھے۔
طالبان جب اٹھے تو ان کے حق میں دلیلیں تراشنے والے بھی بہت تھے۔ بہت سے اب بھی ہیں مگر ہم جانتے ہی کہ آخر کار انہیں فنا ہونا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خوف ایک ہتھیار ہے جو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ اگر انتقام کی خو اس میں شامل ہو جائے تو انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔ مسولینی اور ہٹلر نہیں تو کم از کم ذوالفقار علی بھٹو ایسا۔ معاشرہ بگٹٹ ہو رہا ہے۔ مختلف گروہ ایک دوسرے کو کاٹ پھینکنے کے درپے ہیں۔ افراتفری اور اس سے پیدا ہونے والی بے یقینی میں غیر ملکی طاقتیں بھی اپنا ایجنڈا بروئے کار لا رہی ہیں۔پاگل پن بڑھتا جا رہا ہے۔ 
یہ رک جانے اور غور کرنے کا وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved